کارکنوں کے لئے منصفانہ اجرت اور سہ فریقی قومی ویج کمیشن کا قیام

تحریر : اسرار ایوبی
اسلام میں انسانی شرف و وقار کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے نزدیک آجر اور اجیر کا تعلق آقا اور خادم کا نہیں بلکہ دو بھائیوں جیسا ہے کہ جن کے مابین فرائض اور حقوق کی ایک خوشگوار فضا قائم ہو تاکہ صنعتی، پیداواری، کاروباری، تجارتی اور دیگر شعبوں کی ترقی میں اضافہ ممکن ہوسکے۔ کائنات کے ابدی اصولوں کے مطابق انسان کے رزق کا اختیار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں وسائل رزق بلا امتیاز تمام انسانوں کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ دنیا پر ایک ہشت پا کی طرح مسلط مفاد پرست اور ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی بے پناہ دولت اور زبردست طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کی ایک بڑی اکثریت کا استحصال کرتے ہوئے دنیا کے تقریباً تمام مادی ارضی، فضائی، آبی اور انسانی وسائل پر اپنا جابرانہ قبضہ جما لیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب دنیا بھر کی دولت اور جملہ وسائل محض چند طاقتور گروہوں کی مٹھی میں سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ دنیا کے کثیرالاقوامی صنعتی، کاروباری اور تجارتی اداروں نے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق کے اصل مستحق کروڑوں مظلوم کارکنوں کو ان کے جائز رزق سے محروم کرکے رکھ دیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان سرمایہ داروں کی دولت اور جملہ وسائل کی اصل بنیاد جفاکش کارکنوں کی بے پناہ محنت کا ہی ثمر ہے۔
کارکنوں کی اجرتیں، وہ ادائیگیاں ہیں جو کارکنوں کی جانب سے ان کی خدمات کی تفویض کردہ مالی قدر(Monetary value) ہے ۔ چنانچہ اجرت کو ’’ مزدور کی قیمت ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آج ملک کے محنت کشوں کا سب سے دیرینہ مسئلہ ان کی محنت کے عوض منصفانہ اجرت سے محرومی ہے۔ جس کے ذریعہ اس کی اور اس کے کنبہ کی بنیادی ضروریات خوراک، رہائش، بچوں کی تعلیم اور علاج و معالجہ اور ٹرانسپورٹ کی سہولت تسلی بخش طریقہ سے پوری ہوتی ہیں۔
اسلام اپنی آفاقی تعلیمات کے لحاظ سے ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام اجرت کا داعی ہے۔ جس میں آجر اور اجیر بنیادی ضروریات زندگی کے لحاظ سے برابر کے تصور کئے گئے ہیں۔ اسلامی قانون محنت و اجرت کے مطابق کوئی آجر کسی اجیر کی مزدور منڈی(Labour Market)کے مطابق عام اجرت یا اس طرح کی خدمات کے لئے جو اجرت حکومت نے مقرر کی ہو، نہ اس سے کم اجرت ادا کرے گا اور نہ ہی کارکن کو کسی اور طریقہ سے استحصال کا موقع دے گا اور حکومت بھی کارکنوں کو ان کی محنت کے عوض پوری اجرت دلانے کی پابند ہوگی ۔ اس طرح اجیر کو بھی اتنے مطالبہ کا حق نہیں دیا جائے گا کہ جس کے نتیجہ میں اس کے آجر کے کام کو فائدے کے بجائے نقصان میں تبدیل کر دے۔
عالمی بینک کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا آٹھ کروڑ حصہ افرادی قوت (Labour force)پر مشتمل ہے جو ایک عظیم افرادی قوت کے لحاظ سے دنیا میں دسویں نمبر پر ہے۔ وطن عزیز کی یہ عظیم افرادی قوت شب و روز محنت و مشقت کرکے ملک کی معاشی، پیداواری، کاروباری اور تجارتی ترقی میں نہایت فعال ادا کر رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کروڑوں نفوس پر مشتمل یہ محنت کش طبقہ درجہ سوم کے محروم شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ المیہ ہے کہ ملک کے اس کثیر طبقہ کو ملک کی کسی سیاسی اور مذہبی جماعت سمیت کسی عوامی ایوان میں کوئی نمائندگی تک حاصل نہیں ہے اور سخت ظلم و جبر اور نا انصافی کا شکار اس مظلوم طبقہ کی کہیں کوئی شنوائی بھی نہیں ہے۔ اس تشویش ناک صورتحال کے نتیجہ میں ملک کے کروڑوں کارکن اپنے بنیادی حقوق خوراک، رہائش، پینے کے صاف پانی، علاج و معالجہ، بچوں کی تعلیم اور ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں۔
جبکہ اس صورتحال کے برعکس دنیا کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں صنعتی، پیداواری، کاروباری اور تجارتی شعبوں میں خدمات انجام دینے والے کارکنوں کو انسانی وسائل (Human Resource)کا درجہ دیا گیا ہے جو دیگر قدرتی و مادی وسائل کی طرح ملک کے لئے قیمتی انسانی سرمایہ (Human Capital)میں شمار ہوتے ہیں۔ ان ترقی یافتہ ممالک میں انسانی وسائل کے فروغ اور ترقی کو ترجیحی اہمیت حاصل ہے۔ کارکنوں کو ضروری پیشہ ورانہ فنی تربیت ملک اور بیرون ملک باوقار روزگار کے ذرائع پیدا کئے جاتے ہیں۔ کارکنوں کو بہتر حالات کار، منصفانہ اجرتوں اور ضروری سہولیات فراہم کرکے انہیں معاشرہ میں ایک باعزت اور باوقار مقام عطا کیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ معاشرہ میں طبقاتی لحاظ سے کسی قسم کے امتیازی سلوک کا کوئی تصور نہیں ہے۔
حکومت وقت محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے بنیادی عنصر کے طور پر ان کی محنت کے جائز معاوضہ کے لئے منصفانہ اجرت کے نظام کے نفاذ کی پابند ہے۔ معروف ریسرچ اسکالر اور کتاب ’’ محنت کش مسائل، مشکلات اور حل‘‘ کے مصنف جناب شفقت مقبول کے 2015ء کے ’’ لیبر پالیسی آف پاکستان 2010ء کا تحقیقی مقالہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں‘‘ کے مطابق پاکستان میں 1969ء میں پیش کی جانے والی تیسری لیبر پالیسی کی سفارشات کی روشنی میں 1969ء میں کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت 115 روپے ماہانہ مقرر کی گئی تھی۔ جبکہ اس دور میں ملک میں 10گرام سونے کی قیمت 57روپے تھی۔ جس کی بدولت کارکن کی قوت خرید 20گرام سونا تھی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی روپے کی قیمت میں شدید گراوٹ ، بلند افراط زر اور ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب کارکنوں کی قوت خرید میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ اگرچہ 1969ء کی کم از کم اجرت 115روپے ماہانہ کے مقابلہ میں اب محنت کشوں کی موجودہ کم از کم اجرت 32000روپے ماہانہ مقرر ہے۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
لیکن اس کے باوجود ایک عام مزدور اپنے بچوں کی شادی بیاہ کے موقع پر سونے کے زیورات خریدنا تو درکنار موجودہ کم از کم اجرت سے اپنے اور اپنے کنبہ کے لئے خوراک، رہائش، علاج و معالجہ، بچوں کی تعلیم، ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور دینی تہواروں پر نئے ملبوسات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ کارکنوں کی موجودہ کم از کم اجرت ان کے بھاری گھریلو اخراجات اور بنیادی ضروریات زندگی کے مقابلہ میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔
حکومت کی جانب شہریوں کو فراہم کی جانے والی مفاد عامہ کی خدمات بچوں کی تعلیم، علاج و معالجہ، پینے کے صاف پانی، بجلی، گیس اور پٹرول کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے نتیجہ میں ایک عام محنت کش کے لئے اپنا اور اپنے کنبہ کا وجود برقرار رکھنا نا ممکن بن گیا ہے۔ اس تشویشناک معاشی صورتحال کے نتیجہ ملک کے محنت کشوں میں شدید احساس محرومی اور سنگین خلفشار جنم لے رہا ہے۔ قلیل آمدنی، بڑھتے مصارفی اخراجات اور حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں صنعتوں اور کاروباری اداروں کی بندش کے باعث کارکنوں کی بے روزگاری میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
اس مایوس کن صورتحال کے باعث محنت کش طبقہ میں شدید مایوسی، ذہنی امراض، نشہ کی لت، انتہا پسندی، عدم برداشت، چوری چکاری، لوٹ مار، قتل و غارت گری، خودکشی اور اجتماعی خودکشی جیسے ہولناک واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ اس تمام تر بدترین صورتحال کی ذمہ داری حکومت اور معاشرہ کے متمول طبقہ پر عائد ہوتی ہے۔ حتیٰ کہ اکثر کارکنوں کو اپنے کنبہ کی کفالت کے لئے قلیل معاوضوں پر دن میں دو دو اور تین تین جز وقتی نوکریاں بھی کرنا پڑ رہی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ان کارکنوں کی جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ملک کی تاریخ کی بد ترین مہنگائی کے نتیجہ میں آبادی کی اکثریت تیزی سے غربت کی لکیر(Line of Poverty) عبور کر رہی ہے۔ اس کا اندازہ ملک کے مختلف شہروں میں خیراتی تنظیموں کی جانب سے نادار اور بے روزگار افراد کے لئے قائم کھانے کے مفت دستر خوانوں پر کم آمدنی والے کارکنوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
بدترین معاشی بحران، شدید مہنگائی، قلیل آمدنی، زائد اخراجات اور بیروزگاری کے باعث پورے معاشرہ میں عجیب نفسا نفسی کا عالم برپا ہے۔ معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے الجھنا، لڑائی جھگڑے، مزاج میں چڑچڑا پن، غیض و غضب، سنگدلی، سفاکی اور بے رحمی کے ایک سے بڑھ کر ایک واقعات آئے دن سوشل میڈیا، اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی زینت بن رہے ہیں، جنہیں سن کر اور دیکھ کر انسان کا دل دہل جاتا ہے۔ اسی طرح سیاسی و معاشی بحران اور کمزور طرز حکمرانی کے باعث پیدا شدہ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث پورا معاشرہ جان و مال اور اپنے مستقبل کے متعلق شدید عدم تحفظ اور ایک انجانے خوف میں مبتلا ہوچکا ہے۔
انجمن اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ، عالمی ادارہ محنت(ILO)دنیا بھر میں کارکنوں کے لئے سماجی انصاف، باوقار روزگار ، امتیازی سلوک کے خاتمہ، منصفانہ اجرتوں اور کام کی جگہ صحت و حفاظت کے نفاذ کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ عالمی ادارہ محنت کے ایک رکن ملک کی حیثیت پاکستان اب تک اس عالمی ادارہ کے 36عہد ناموں (Conventions)کی توثیق کر چکا ہے۔ جن میں کارکنوں کے لئے جبری مشقت کے خاتمہ، 8گھنٹے کے مقررہ اوقات کار، انجمن سازی کی آزادی اور حقوق کے تحفظ، مساوی معاوضہ، سہ فریقی مشاورت ، نوجوان کارکنوں کے لئے شبینہ اوقات کار، ہفتے وار آرام اور مساوی سلوک قابل ذکر ہیں۔
کارکنوں کی اجرت کا تعین کسی بھی کام کے انجام دینے کی سب سے اہم شرط میں شمار کیا جاتا ہے۔ لہذا عالمی ادارہ محنت نے کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت کے متعلق ایک پالیسی گائیڈ لائن بھی مرتب کی ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک کے اکثر صنعتی ، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں مروجہ مزدور قوانین اور عالمی ادارہ محنت کے توثیق شدہ ان36 عہد ناموں پر سرے سے کوئی عملدرآمد نہیں۔
8اپریل 2010ء میں منظور ہونے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم کے نتیجہ میں وفاق کی ہم درجہ فہرست (Concurrent list)سے شعبہ محنت ( Labour Subject ) کو کالعدم قرار دیئے جانے کے بعد محنت جیسا اہم شعبہ صوبوں کو منتقل کر دیا گیا تھا ۔ جس کے نتیجہ میں 1969ء کا کم از کم اجرت قانون بھی کالعدم قرار پایا تھا ۔ تب سے ملک کے چاروں صوبوں کے محکمہ ہائے محنت اور انسانی وسائل، حکومت، آجران اور کارکنوں کے نمائندوں پر مشتمل سہ فریقی کم از کم اجرت بورڈ کارکنوں کے لئے کم از کم اجرت کا تعین کرتے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ کم از کم اجرت پر اکثر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور ملک کے اکثر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں کے آجران حکومت کی مقرر کردہ کم از کم اجرت کی ادائیگی نہ کرکے اپنے کارکنوں کی اجرت کی چوری (Wage Theft)میں ملوث ہیں۔ لیکن طاقتور آجروں کے ہر آنے والی حکومت، سیاسی جماعتوں اور سرکاری اداروں میں موجود زبردست اثر و رسوخ کے باعث ان سے جوابدہی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق اس وقت دنیا کی734ملین آبادی پوری طرح غربت کی لپیٹ میں ہے ۔ جبکہ عالمی بینک نے دنیا بھر کے کارکنوں میں بڑھتے ہوئی غربت و افلاس اور کم آمدنی کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے ستمبر 2022ء میں غربت کی عالمی لکیر (International Poverty Line)(IPP)کے عالمی پیمانہ کے تحت کارکنوں کی مساوی قوت خرید (Purchasing Power Parity)کو مد نظر رکھتے ہوئے کارکنوں کے لئے کم از کم2.15ڈالر یومیہ آمدنی، کم اوسط آمدنی والے ممالک کے کارکنوں کے لئے3.65ڈالر یومیہ آمدنی اور بالائی اوسط آمدنی والے ممالک کے کارکنوں کے لئے6.85ڈالر یومیہ آمدنی مقرر کی گئی تھی۔ تادم تحریر ایک امریکی ڈالر پاکستانی 278روپے کے مساوی ہے اور کارکنوں کی کم از کم اجرت 32000روپے ماہانہ ہے جو یومیہ 1066روپے بنتی ہے۔ جس سے پاکستانی کارکنوں کی اکثریت کا غربت کی لکیر سے نیچے ہونے کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اگر ہم دنیا میں کارکنوں کے لئے مقرر کی گئی اجرتوں کے نظام کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اب کم از کم اجرت (Minimum Wage)کا تصور کافی حد تک فرسودہ ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں کارکنوں کی اجرتوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک عالمی، آزاد اور غیر منافع بخش تنظیم دی ویج انڈیکیٹر فائونڈیشن (TheWageIndicatorFoundation) قائم ہے۔ سال 2000ء میں قائم ہونے والی فائونڈیشن کارکنوں، ان کے نمائندوں، آجران اور پالیسی سازوں کو کارکنوں کی منصفانہ اجرتوں کے تعین میں رہنمائی اور معاونت فراہم کرتی ہے اور دنیا کے 206ممالک کو ایک آزاد اور قابل رسائی لیبر مارکیٹ کی بابت مربوط معلومات بھی مہیا کرتی ہے۔ فائونڈیشن دنیا بھر میں کارکنوں کی اصل اجرتوں (Actual Wages)، مصارفی اجرتوں(Living Wages)اور کم از کم اجرتوں (Minimum Wages)، مزدور قوانین، عارضی کارکنوں(Gig Workers)اور پلیٹ فارم ( Platform Workers ) کارکنوں کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے، تجزیے کرنے اور ان معلومات کا باہمی تبادلہ بھی کرتی ہے ۔ فائونڈیشن کا عزم ہے کہ دنیا بھر کے کارکنوں، آجران اور پالیسی سازوں کے لئے لیبر مارکیٹ کو زیادہ شفاف بنایا جائے اور یہ کارکن فلاحی تنظیم اس امر کی بھی بھرپور وکالت کرتی ہی کہ تمام کارکنان اچھے ماحول کار میں منصفانہ اجرت کمائیں۔
حکومت کا کام ہر سال سالانہ بجٹ کے موقع پر لکیر کے فقیر کی طرح محض کم از کم اجرت کا اعلان کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس حکم نامہ پر سو فیصد عملدرآمد کو یقینی بنانا بھی حکومت کی لازمی ذمہ داری میں شمار ہوتا ہے۔ کم از کم اجرت قانون کے مطابق صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں متاثرہ کارکن اپنی شکایت کے ازالہ کے لئے تحریری شکایت کے ذریعہ محکمہ محنت اور انسانی وسائل سے رجوع کر سکتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں کم از کم اجرت قانون کی خلاف ورزی کرنے والے متعلقہ آجران کو جرمانے، سزائے قید اور کاروبار کی بندش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صورتحال کی سنگینی اس بات کی متقاضی ہے کہ ملک کو درپیش سنگین معاشی بحران اور بدترین مہنگائی کے پیش نظر معاشی ترقی میں اپنا خون پسینہ بہانے والے کروڑوں کارکنوں کو معاشرہ میں باعزت اور باوقار زندگی اور انکی منصفانہ اجرتوں (Fair Wages)کے تعین کے لئے حکومت، آجران اور کارکنوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک سہ فریقی قومی ویج کمیشن(National Wage Commission)تشکیل دیا جائے ۔





