مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کی یاد میں

تحریر : روہیل اکبر
بزرگ سیاستدان اور سیاسی درویش سید منظور علی گیلانی جب سے لاہور سے اسلام آباد شفٹ ہوئے ہیں تب سے لاہور ہائیکورٹ بار کی وہ مجلسیں بھی ختم ہوگئی ہیں جو وہ یاد رفتگان کے نام سے کروایا کرتے تھے۔ گزشتہ روز وہ لاہور آئے تو انکی آمد کو غنیمت جان کر متحدہ جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ علامہ قاری پیر غلام شبیر قادری نے مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی کی یاد میں لاہور ہائیکورٹ میں ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں پاکستان پیپلز موومنٹ کے سنیئر وائس چیئرمین پیر نو بہار شاہ ، سیکرٹری جنرل ڈاکٹر نور محمد شجرا سمیت دیگر شرکا نے بھی مولانا عبدالستار خان نیازی کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو بڑے ہی خوبصورت انداز میں بیان کیا۔ میں سمجھتا ہوں لاہور ہائیکورٹ بار میں تو یہ ایک اچھا سلسلہ شروع ہوا ہے جسے رکنا نہیں چاہیے اس کے ساتھ ساتھ اس سلسلہ کو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کی سطح تک بھی لایا جائے یہ وہ لاگ ہیں جو تعبیر وطن سے تعمیر قوم تک سر فہرست رہے۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں انکا کردار ناقابل فراموش رہا ہے اور پھر جب پاکستان بن گیا تو پھر انہوں نے قوم کی تربیت کا بیڑا بھی اٹھایا ۔ مولانا عبدالستار خان نیازی یکم اکتوبر 1915کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی پنجاب برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے لاہور میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور 1940میں اسلامیہ کالج لاہور سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی 1947تک اسلامک اسٹڈیز کے ڈین بنے اور پھر فعال سیاست میں شامل ہوئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نے قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کی سیاسی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور 1938میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بنے اس کے بعد انہوں نے 1947میں قیام پاکستان تک صوبائی ( پنجاب) مسلم لیگ کے صدر کے عہدے پر خدمات انجام دیں۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کو علامہ محمد اقبالؒ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ دونوں کے معتبر ساتھیوں میں شمار کیا جاتا تھا، احمدیوں کے خلاف 1953کے لاہور فسادات کو مبینہ طور پر اکسانے کے الزام میں ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ مولانا عبدالستار خان نیازی کو بھی گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی دونوں کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا۔ دونوں رہنمائوں کی پھانسی کی سزا معطل ہونا ایک اچھا فیصلہ تھا کیونکہ اس ملک میں ان دونوں رہنمائوں کے حق میں احتجاج کی تحریک زور پکڑ چکی تھی۔ اس لیے یہ سوچا جارہا تھا کہ اگر مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار نیازی کو فوج کی طرف سے سزائے موت سنائی گئی تو کیا ہو گا لیکن ان کی رہائی کے بعد ملک کا سیاسی ماحول بھی سرد ہونا شروع ہوگیا جو اس وقت شدید گرم ہو چکا تھا ۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نے 1973سے 1989تک سنی بریلوی سیاسی جماعت مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کیا اور 1989میں مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے صدر منتخب ہوئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی ضلع میانوالی کے ایک قابل احترام رہنما اور طاقتور سیاستدان تھے جنہوں نے دن رات قومی خدمت کی اور پھر عوام نے انہیں مجاہد ملت کا خطاب بھی دیا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی 1947سے 1949تک پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہے۔ اس کے بعد وہ 1988اور 1990 میں دو بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی 1994میں چھ سال کی مدت کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے لیے منتخب ہوئے۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کا انتقال 2001میں ہوا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نے عمر بھر شادی نہیں کی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی تحریک پاکستان کے وہ ہیرو ہیں کہ جنکی خدمات پر قائداعظمؒ نے بھی اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس قوم کے پاس عبدالستار خان نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ مولانا عبدالستار خان نیازی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار تھے اور تحریک ختم نبوت میں ان کی خدمات کو سنہری الفاظ سے لکھا جائے گا ۔ مولانا نے اپنی پوری زندگی اسلام دشمن قوتوں کے خلاف لڑنے میں وقف کردی نہ صرف مولانا عبدالستار خان نیازی بلکہ ان جیسے دوسرے بہادر سپوتوں کی یاد میں ایسے سیمینار ہوتے رہنے چاہیے جن کی محنتوں اور کوششوں سے ہم آج آزاد پاکستان میں بیٹھے سکون کی سانس لے رہے ہیں ان جیسے لیڈروں کو آگے لایا جائے تاکہ پاکستان مزید ترقی کر سکے نہ کہ مفاد پرستوں کو گھسیٹ کر ایوان اقتدار پر بٹھایا جائے ۔ جو لوگ کچھ عرصہ پہلے ایک دوسرے پر کرشن اور چور بازاری کے الزامات لگاتے نہیں تھکتے تھے۔ آج وہ ایک دوسرے کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں، اس سے بڑی بدقسمتی اس قوم کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے سارے دعوے اور پھر سڑکوں پر گھسیٹنے کے سارے وعدے بس ایک پھونک میں اڑ گئے۔ ہمارے سیاستدانوں کو چاہیے کہ ایسی باتیں نہ کیا کریں جو حقیقت کے قریب تر بھی نہ ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے کو بدنام کرنے کیلئے ایسے جھوٹے الزامات لگائے جائیں سبھی سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد ہے ۔ عوام بھی وہ جو اپنا پیٹ کاٹ کر انہیں ایوان صدارت سے لیکر تمام ایوانوں تک خرچہ اپنے خون پسینے کی کمائی سے فراہم کرتے ہیں لیکن شاید باربار کے اقتدار کے مزے نے ہمارے حکمرانوں کو عوام کے دکھوں سے آزاد کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف اپنے اقتدار کو طویل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے اس دور میں ہمارے کسان اپنی ہی لگائی ہوئی گندم سے پریشان ہیں کیونکہ اسے حکومت خرید نہیں رہی اور نہ ہی ان لوگوں کے پاس کوئی پالیسی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم باہر سے منگوا لیتے اور اپنے کسانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنی گندم کو بطور احتجاج سڑکوں پر پھینک دیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم کسانوں سے ایک ایک دانہ گندم خرید کر اسے باہر ایکسپورٹ کرتے تاکہ ہمارا کسان بھی خوشحال ہوتا اور ملک بھی لیکن ایسا کام وہی لوگ اور سیاستدان کرتے ہیں جنہیں ملک کا احساس، عوام کا دکھ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہو ۔ اگر اقتدار انہیں سونپ ہی دیا گیا ہے تو یہ لوگ پاکستان سے زراعت کے حوالے سے اپنے لیے کوئی اچھے مشیر ہی رکھ لیتے جو انہیں اس حوالے سے قیمتی مشوروں سے نوازتے جس کی بدولت ملک ترقی کرتا اور کسان برباد ہونے سے بچ جاتا۔







