نئی بساط پہ پٹے ہوئے مہرے

تحریر : سیدہ عنبرین
حملے جاری رکھو اور جنگ بندی کی باتیں کرتے رہو، ایک گروپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ دشمن کو پیغام دیتا رہے آخری فتح تک جنگ رہے گی، دوسرا گروپ پسپائی کی صورت متبادل بیانیے پر کام کرتا رہتا ہے، سیاسی جنگ بھی انہی اصولوں کے مطابق لڑی جاتی ہے۔
ملک میں جاری سیاسی جنگ میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملا، حملے جاری رکھے گئے، جنگ بندی کے امکان کو خارج از امکان قرار دیا گیا، صلح صفائی سے انکار بھی سامنے آیا لیکن چند روز قبل نو مئی کے حوالے سے اہم ترین بیان سامنے آنے اور دو ٹوک موقف اختیار کرنے کے بعد سیاسی صورتحال یکسر تبدیل نظر آتی ہے اور بیان جاری کرنے والوں کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، روز اوّل سے ان کا یہی موقف تھا لیکن اس موقف کو کمزور کرنے کیلئے اور یہ تاثر دینے کیلئے کہ ہماری طاقت دیکھ کر وہ اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، کام جاری رکھا گیا اس پراپیگنڈے کا کوئی سیاسی فائدہ تو نہ ہوا البتہ ملک کو اس کا اقتصادی نقصان کسی حد تک ضرور ہوا، کاروباری طبقہ سیاسی صورتحال پر ہر دم نظر رکھتا ہے، کاروباری شخصیات کے سیاست میں آنے اور حکومت میں آنے کے بعد سیاست اور کاروبار اب دوپٹہ بدل نہیں ہیں، دونوں کے مفادات سود و زیاں مشترک ہے، ہوائوں کا رخ بدلنے کی افواہیں پھیلانے والے حلف پر بیان دیتے نظر آئے اور تاریخیں دینے پر اتر آئے کہ اسی پندرواڑے میں نہیں تو اسی مہینے سب کچھ طے ہو جائے گا۔ کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے تصوراتی جہاز کے بارے میں اطلاعات دینا شروع کر دیں کہ اب طیارہ جدہ سے فضا میں بلند ہوا ہے، اتنے گھنٹے بعد اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترے گا، اتنی دیر میں ری فیولنگ ہو گی۔ اتنی دیر میں سامان بمہ سیاسی سازو سامان لوڈ ہو جائیگا اور اتنے بجے طیارہ پرواز کر جائے گا۔ کچھ ذمہ داروں نے تو ایک مرتبہ پھر سرور پیلس کی تزئین و آرائش کی اطلاع بھی دی لیکن وہ یہ بھول گئے ہر محل کے دروازے ہر ایک کیلئے نہیں کھلتے، خواہ کتنے ہی خضو و خشو سے ’’ کھل جا سم سم‘‘ کا ورد جاری رکھا جائے۔ قفل کی چابی اور قفل کھولنے والے اسلام آباد کے سائے میں رہتے ہیں، وہ اگر ایسا کرنے پر آمادہ ہوتے تو بقول شخصے ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسے جاتے اور مومنین کی فہرست سے خارج ہو جاتے، یوں ان کی طرف سے جاری بیان کو اس نظر سے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ انہوں نے ’’ عزت سادات‘‘ بچائی ہے۔ تعلقات میں بہتری کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر ایسا ہو بھی جاتا تو انجام وہی ہونا تھا جو ناجائز تعلقات کا ہوتا ہے۔
سیاسی مطلع صاف ہونے کے بعد متحارب سیاسی جماعت کی حکمت عملی تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔ پہلے پے در پے حملوں کی منصوبہ بندی تھی، اب دفاعی حکمت عملی اختیار ہوتی نظر آئے گی۔ ہر اول دستہ پیچھے ہٹایا جارہا ہے، ہر کام کیلئے بہانے پہلے سے موجود ہوتے ہیں، یہ بہانے کچن کیبنٹ تیار کرتی ہے، جو پارٹی کے اقتدار میں یا اپوزیشن میں ہونے کی ہر دو صورتوں میں اپنا کام جاری رکھتی ہے، اس کا اہم ترین کام پارٹی سربراہ کے کان بھرنا ہوتا ہے۔ ایک دو کو چھوڑ کر یہی دیکھنے میں آیا کہ پارٹی سربراہ کانوں کے کچے ہوتے ہیں، انہیں بتایا جائے کہ جناب کتا آپ کا کان لے گیا تو کتے کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں، کان کو ہاتھ لگا کر نہیں دیکھتے۔ اگر خود کتے کے پیچھے دوڑنے کی ہمت حوصلہ اور رفتار نہ رکھتے ہوں تو اس کام کیلئے ذمہ داریاں کچن کیبنٹ کے کچھ اور لوگوں کو دے دی جاتی ہیں۔ کیچن کیبنٹ میں دو قسم کے افراد شامل کیے جاتے ہیں اول وہ جو پارٹی کے خرچے اٹھاتے ہیں، دوئم وہ جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننیں کا تاثر مضبوط کر چکے ہوتے ہیں۔ وہ سربراہ پارٹی کو روزمرہ بنیادوں پر یقین دلاتے رہتے ہیں کہ وہ آج بہت حسین لگ رہے ہیں۔ عام طبقے کی نوجوان لڑکیوں کے علاوہ اعلیٰ طبقے کی خواتین ان کے عشق میں مبتلا ہیں، وہ ان کے ایک اشارے پر سب کچھ کرنے کو ہمہ وقت تیار ہیں۔ ان جیسا دماغ فہم و فراست نپولین کے حصے میں آئی نہ آئن سٹائن کو ملی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے کسی بہت بڑے کام کیلئے چنا ہے، شاید ایسا کام جس سے امت مسلمہ کی تقدیر بدل جائے گی۔ اس قسم کی بکواس پر یقین کرنے اور اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے بعد پھر وہ شخصیت، وہ پارٹی سربراہ گھر کا رہتا ہے تا گھاٹ کا، یہ المیہ متعدد شخصیات، متعدد سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ ہو چکا ہے۔ حقیقت فارم45اور فارم 47کی زبانی آشکار ہوئی ہے۔ یکے بعد کئی شخصیات کی زبانوں پر تالے پڑے ہیں، کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے جگ ہنسائی کے خوف سے مستقلاً ماسک کے پیچھے بناہ لے لی ہے۔ ملک کی ایک مقبول جماعت کی چیئرمینی جناب گوہر کے ہاتھ سے نکلتی لگتی ہے حالانکہ عرصہ دراز بعد ایسا گوہر ہاتھ آیا تھا جس کے دامن پر کوئی داغ نہ تھا، پاکستان کے سابق صدر جناب عارف علوی عہدہ صدارت چھوڑنے کے بعد متحرک ہو گئے ہیں، خیال تھا کہ وہ دو برس تک شاید سیاست میں حصہ نہ لیں لیکن سابق چیئرمین سے جیل میں ملاقات کے بعد انہیں اہم ذمہ داری دے کر آگے لایا جارہاہے۔ جناب عارف علوی صاحب دھیمے مزاج اور شائستہ اطوار رکھتے ہیں وہ اپنے کردار میں کتنا کامیاب ہونگے اس کا فیصلہ وقت کریگا۔
کچن کیبنٹ نے جناب افضل مروت کا پتہ صاف کرا دیا ہے۔ جارحانہ طرز عمل رکھنے والے صاف گو اور دو ٹوک موقف رکھنے والوں کیلئے ہماری طرف سیاست اور مفاداتی سیاسی گروہوں میں جگہ مشکل سے بنتی ہے، وہ جونہی مقبولیت کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکلتے ہیں، ان کی ٹانگ کھینچ لی جاتی ہے۔ تحریک انصاف میں ایسے کئی رہنما موجود وہیں جن کی ایک نہیں دونوں ٹانگیں کھینچ لی گئی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ افضل مروت پارٹی سے نکالے جانے کے بعد کتنا عرصہ خان کے سیاسی منصب پر اپنے آپ کو قائم رکھتے ہیں۔ اور کب نا امید ہو کر تحریک انصاف میں سے استحکام پارٹی نکلنے کے بعد اب ایک اور انقلابی دھڑے کو اپنے ساتھ ملا کر کوئی اور نیو انصافی یا نیو استحکامی پارٹی بناتے ہیں۔ یا پہلے سے موجود ہم خیال انقلابی پارٹیوں میں سے کسی ایک میں شامل ہو کر پارٹی کی خوراک بن جاتے ہیں۔ ان جیسے سیاستدانوں کو نا امید ہو کر گھر نہیں بیٹھنا چاہیے، بس ذرا جوش اور ہوش کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ وہ اصحاب جنہیں آنے والے ایام میں پارٹی سے نکالا جانا ہے، انہیں مروت کی مثال سامنے رکھ کر آج ہی کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے۔ کچن کیبنٹ کے نشانے پر درجن بھر نئے رہنما ہیں، انہیں پیچھے کر کے پیچھے رہ جانے والے مفاد پرستوں کو ایک مرتبہ پھر آگے لا نے کا پروگرام ہے۔ شطرنج کی نئی بساط بچھ چکی ہے، پٹے مہرے آگے پیچھے ہو رہے ہیں۔





