اے میری ماں میرا سارا مقام تم سے ہے

تحریر : ایم فاروق قمر
دین اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بدسلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔ اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان کیا ہے۔ نبی کریمؐ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔
والدین سے بدسلوکی کرنے والے بد نصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا گیا ہے والدین کے حق کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنی بندگی اور اطاعت کے فورا بعد ذکر فرمایا:
یہ بات اس کی طرف اشارہ ہے کہ تمام رشتوں میں سب سے زیادہ حق والدین کا ہے۔
قران پاک میں ارشاد پاک: ’’ اور تیرے رب کا حکم ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں چاہے ان میں ایک یا دونوں پہنچے ہیں اور ان کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ان سے کبھی اف بھی مت کرنا اور نہ ہی جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان ان سے شفقت سے انکساری کے ساتھ بات کرنا اور یوں دعا کرنا: اے میرے پروردگار تو ان پر رحم فرما جیسا کہ ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا ‘‘۔ ( سورۃ اسرا، آیت نمبر 24)
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ: ’’ ماں باپ سے حسن سلوک کرنے والی اولاد جب بھی نظر رحمت سے اپنی ماں باپ کو دیکھے تو ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول حج کا ثواب اس کے لیے لکھ دیا جاتا ہے ‘‘۔ ( مشکوٰۃشریف: 46)
غور کا مقام ہے کہ اولاد پر یہ کیسی نعمت ہے گھر بیٹھے دن میں ہزار بار بھی وہ اپنے ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھے تو حج اکبر کا ثواب پائے۔
قرآن پاک میں والدین خصوصا والدہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد ربانی ہے:
’’ اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کے ساتھ حکم دیا اس کی ماں نے اس کو کمزوری پر کمزوری اٹھاتے ہوئے پیٹ میں رکھا‘‘۔ ( سورۃ لقمان)
والدہ فطری طور پر پیدائش اولاد کی تکالیف برداشت کرتی ہے۔ بچے کی پرورش اور تربیت میں عزم و حوصلہ محنت اور لگن سے بے غرض اور بے لوث محبت کرتی ہے۔ دن رات کا چین لٹا کر بچے کو پروان چڑھاتی ہے باپ اس کے مقابلے میں اس طرح محنت نہیں کرتا اسی وجہ سے ماں کا درجہ دین اسلام نے بلند کر رکھا ہے اور جنت اس کے قدموں تلے ٹھہرائی ہے۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ: ایک شخص رسول کریمؐ کے پاس آیا اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری بھلائی اور حسن معاملہ کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟۔ آپؐ نے فرمایا’’ تیری ماں‘‘، اس نے عرض کیا اس کے بعد کون؟ آپؐ نے پھر فرمایا’’ تیری ماں‘‘۔ اس نے عرض کیا اس کے بعد کون؟، تو کریم آقاؐ نے فرمایا ’’ تیری ماں‘‘، اس نے عرض کیا پھر کون؟، آپ نے فرمایا’’ پھر تیرا باپ‘‘۔ ( بخاری شریف، جلد دوم ص 883، مسلم جلد دوم ص 312)۔
نبی کریمؐ اپنے قول و فعل سے رضائی ماں جس نے صرف انہیں دودھ پلایا تھا، جنا نہیں تھا، ان کی بے حد عزت و تکریم کیا کرتے تھے تو جس نے جنا اس کا رتبہ و مقام کتنا ہوگا۔ حضرت ابو طفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں میں نے پیارے محبوبؐ کو دیکھا کہ آپؐ مقام جعرانہ میں گوشت تقسیم فرما رہے تھے۔ اس موقع پر ایک عورت آگئی تو آپؐ نے ان کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا دی، جس پر وہ بیٹھ گئیں، یہ ماجرہ دیکھ کر میں نے کسی سے پوچھا یہ کون صاحبہ ہیں؟، اس پر لوگوں نے بتایا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضائی ماں ہیں۔ جس نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔( ابو دائود جلد دوم)۔
میرے کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: اللہ تعالیٰ نے مائوں کی نافرمانی اولاد پر حرام کر دی ہے، والدین کی نافرمانی کرنے والے کو دنیا میں ہی سزا مل جاتی ہے۔
مشہور واقعہ صحابی رسول حضرت علقمہؓ کا ہے۔ ان کی موت کا وقت قریب تھا اور حلق سے جان نکل نہیں نکل رہی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے نبی پاکؐ سے عرض کیا یا رسولؐ اللہ حضرت علقمہؓ کی روح نکل نہیں رہی، روح نہیں نکل رہی اور زبان پر کلمہ جاری ہو رہا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا اس کی ماں اس سے ناراض ہے، تو صحابہ کرامؐ نے فرمایا جی ہاں ناراض ہے۔ اس کی ماں کو بلایا گیا تو میرے کریم آقاؐ نے فرمایا: اے علقمہ کی ماں اپنے بیٹے کو معاف کر دو تو انہوں نے فرمایا کہ میں اسے معاف نہیں کر سکتی، یہ مجھے بہت اذیتیں دیتا تھا۔ تو میرے کریم آقاؐ نے فرمایا جائو لکڑیاں اکٹھی کرو آگ جلائو اور اس آگ میں اس کو پھینک دو۔ جب یہ کہا تو حضرت علقمہؐ کی ماں رونے لگی اور کہنے لگی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کریں۔ میں نے اس کو معاف کر دیا۔ اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ حضرت علقمہؐ کی روح پرواز کر گئی۔
روایت ہے کہ حضرت جاہمہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ یا رسولؐ اللہ! میں نے جہاد پر جانے کا ارادہ کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لینے آیا ہوں، میرے کریم آقا نی دریافت فرمایا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے۔ اس نے عرض کیا، ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں کی خدمت کرو، اس لیے کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔
حضرت اویس قرنیؓ یمن کے رہنے والے تھے۔ ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر الطابعین فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ ان سے اپنے لیے دعائے مغفرت کرانا۔ انہوں نے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام قبول کیا تھا لیکن والدہ کی خدمت کی وجہ سے بارگاہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر نہ ہو سکے اور شرف صحابیت سے محروم رہے۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس عمل کی قدر فرمائی اور ارشاد فرمایا: اویس کی والدہ نحیف و کمزور ہے۔ اس کے ساتھ اویسؓ نے حسن سلوک کیا ہے، اگر اویس کسی بات میں اللہ پر قسم کھا لے تو اللہ کریم ضرور اس کی قسم پوری کرے گا ان سے دعا کرایا کرو ( صحیح مسلم)۔
حضرت اویس قرنیؓ کو جو مقام و مرتبہ ملا تو وہ ماں باپ کی وجہ سے ملا ہے.۔ حضرت حادثہ بن نعمان کو مقام و مرتبہ ملا وہ بھی صرف ماں کی وجہ سے ہے کیونکہ وہ اپنی ماں کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتے تھے ۔ حضرت بایزید بسطامیؒ کو جو مقام و مرتبہ ملا وہ بھی ماں کی وجہ سے ملا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا یا اللہ جنت میں میرا ساتھی کون ہوگا تو اللہ کریم نے فرمایا موسیٰ فلاں آبادی میں چلے جائو، وہاں ایک قصاب ہے، وہ تمہارا جنت کا ساتھی ہے۔ تو موسیٰ علیہ السلام جب وہاں گئے تو دیکھا وہ قصاب نہ تو ایماندار ہے اور ناپ تول میں بھی کمی کرتا ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام دیکھتے رہے، اس نے کچھ گوشت کا حصہ اچھا اچھا جو تھا وہ علیحدہ رکھ لیا۔ شام کو وہ گوشت گھر لے گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے پیچھے چل دئیے، اس گوشت کو پکایا اور اپنے منہ میں اس کی بوٹی کو نرم کر کے اپنی والدہ کے منہ میں ڈالا تو والدہ نے دعا دی۔ اے میرے بیٹے اللہ پاک تجھے موسیٰ علیہ السلام کا جنت میں ساتھی بنائے۔ اس قصاب کو اگر موسیٰ علیہ السلام کے جنت میں ساتھی ہونے کا شرف حاصل ہوا تو ماں کی بدولت سے ہوا۔
اسی طرح جب موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر جاتے ہیں تو پیچھے سے ماں دعا کرتی ہے۔ اور جب ماں کی وفات کے بعد موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر اللہ پاک سے ہم کلام کرنے کے لئے گئے، ابھی پہاڑ پر چڑھنے لگے تھے کہ وحی آگئی اے موسیٰ! دھیان سے آنا اور جوتے اتار کے آنا۔ موسی علیہ السلام نے عرض کیا یا اللہ پہلے کبھی آپ نے یہ نہیں فرمایا تو اللہ پاک نے فرمایا کہ جب پہلے تو مجھ سے ہم کلام ہونے کے لیے آتا تھا تو تیری ماں پیچھے دعا کرتی تھی اور مجھے حیا آتی تھی مگر اب تیرے پیچھے کوئی دعا کرنے والا نہیں ہے، تو جوتے اتار کر آنا اور مجھ سے کلام کرنا۔
ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک صرف یہی نہیں کہ ان کی زندگی میں ان کی خدمت کی جائے اور وفات کے بعد دعائے مغفرت کی جائے بلکہ یہ بھی ہے ایک والدین کے رشتہ داروں اور دوست احباب سے اچھے تعلقات رکھے جائیں کیونکہ اس سے بھی والدین کو خوشی ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی احادیث آتی ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسولؐ اللہ میں نے بڑا گناہ کر لیا ہے، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تیری والدہ ہے؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا کیا تیری خالہ ہے؟ عرض کیا، جی ہاں خالہ ہے۔ فرمایا اس سے حسن سلوک کرو ( ترمذی شریف جلد دوم ص 12)۔
ماں باپ کی مانی ہوئی نذر کو پورا کرنا بھی ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ ان کی جگہ پر حج کرنا یا عمرہ کرنا ماں کے ساتھ حسن سلوک ہے۔
اللہ پاک نے مائوں کی نافرمانی کو اولاد پر حرام کر دیا ہے۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کے(1)صدقہ جاریہ (2)وہ علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں(3 )نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہے۔
یہ وہ تین چیزیں ہیں کہ مرنے کے بعد ان کا ثواب مرنے والے کو پہنچتا رہتا ہے کوئی ایصال ثواب کرے نہ کرے۔ صدقہ جاریہ سے مراد مسجدیں، مدرسے، کنویں وغیرہ بنوانے اور نیکی اور لوگوں کی بھلائی کے کام ہیں۔ علم سے مراد دینی تصانیف اور نیک شاگرد جن سے دینی فیضان پہنچتا رہے۔ نیک اولاد سے مراد اچھے اعمال کرنے والے جو اپنے ماں باپ کے لیے دعا کرتے رہیں۔ مرنے والے کی اولاد کو بیر صورت دعا و استغفار کرنی چاہیے کہ بھرنے والا دعائوں کا منتظر رہتا ہے۔
لوگ یہ بھی پوچھتے ہیں
ماں کا حق سب سے زیادہ کیوں ہے؟
اسی سے معلوم ہواکہ ماں کا حق باپ سے تین گنا زیادہ ہے کہ باپ نے مال سے بچے کو پالا اور ماں نے خون سے۔
علما ء فرماتے ہیں، حقِ خدمت ماں کا زیادہ ہے اور حق اطاعت حکم بجا لانا باپ کا زیادہ ہے اسی لئے حضور نے فرمایا کہ جنت تمہاری مائوں کے قدموں کے نیچے ہے اور فرمایا تو اور تیرا مال باپ کا ہے۔
کائنات میں کوئی نہیں جو ماں جیسی محبت کر سکتا ہو۔ اس لیے تو اللہ رب العزت کائنات کی سب سے عظیم محبت یعنی ماں کی محبت سے اپنی محبت کو منسوب کیا۔ بیشک قادر و کارساز اور شفیق و مہربان اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اللہ کا واسطہ! اپنی مائوں اور زندگی میں جنت کی چھائوں کی قدر کریں، ان سے محبت کریں کیونکہ ماں کی پریشانی دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے صفا و مروہ کو حج کا اہم رکن بنا دیا تھا۔
لبوں پہ اس کے کبھی بد دعا نہیں ہوتی
بس اک ماں ہے جو کبھی خفا نہیں ہوتی





