فوجی عدالتوں کی قانونی حیثیت

تحریر : امتیاز عاصی
سانحہ نو مئی کو ایک برس بیت گیا عسکری اور حکومتی حلقوں کی طرف سے سانحہ کے ملزمان کو سزا دینے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ سانحہ کے ملزمان کے خلاف چالان دہشت گردی کی عدالتوں میں نہیں بھیجا گیا بھیجا گیا تو بھی نامکمل چالان ۔ جہاں تک فوجی عدالتوں میں ملزمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت کے اختیار کی بات ہے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے قرار دیا تھا سانحہ نو مئی کے ملزمان کا ٹرائل ملٹری کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔ چنانچہ اس عبوری حکم کو حکومت نے چیلنج کیا۔ ابھی اس پر سپریم کورٹ میں حکومتی اپیل کی سماعت جاری تھی کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا سانحہ نو مئی کے ایسے ملزمان جن کا جرم معمولی نوعیت کا ہے یا جو ملنے والی سزا کا عرصہ پورا کر چکے ہیں انہیں عید سے قبل رہا کر دیا جائے جس کے بعد سانحہ نو مئی کے بہت سے ملزمان کو جیلوں سے رہائی مل گئی گویا سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس بارے لارجر بینچ کا فیصلہ آنے سے قبل ایک طرح سے ملٹری کورٹس کی قانونی حیثیت کو تسلیم کر لیا تھا۔ جن ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلے گا ان کا کیس سپریم کورٹ میں ہے تاوقتیکہ عدالت عظمیٰ اس کا کوئی فیصلہ نہیں کرتی ملزمان کے خلاف مقدمہ کی سماعت ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ جن ملزمان کے مقدمات دہشت گردی کی عدالتوں میں ہیں بہت سوں کو عدالت نے ضمانت دے دی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا فوج پر حملہ آور ہونی والوں سے بات نہیں ہوگی صرف ایک راستہ معافی مانگیں اور تعمیری سیاست کا وعدہ کریں ۔ اب سوال ہے سانحہ میں ملوث وہ لوگ جو جیلوں میں ہیں معافی مانگ کر تعمیری سیاست کا وعدہ کریں یا پی ٹی آئی کے بانی عمران خان معافی مانگ کر مثبت سیاست کا وعدہ کریں؟ پاک فوج کے ترجمان کے بیان سے یہ بات واضح نہیں آیا عمران خان معافی مانگ کر تعمیری سیاست کا وعدہ کریں یا وہ لوگ سانحہ میں گرفتار ہو کر جیلوں میں معافی مانگیں۔ جہاں تک سانحہ میں عمران خان کے ملوث ہونے کے قانونی پہلو کا تعلق ہے سانحہ کے روز پی ٹی آئی کے بانی جوڈیشل کسٹڈی میں تھے اس اعتبار سے دیکھا جائے قانون کی نظر میں انہیں سانحہ کا براہ راست ملزم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ فوجداری مقدمات میں ملزمان کو سزا دینے کے لئے موقع کے گواہان کا ہونا ضروری ہے اگر حالات اور واقعاتی شہادت
ملزم کے خلاف جرم ثابت کریں تو بھی عدالتیں سزا دے سکتی ہیں۔ عسکری ترجمان نے اسلام آباد ہائی کوٹ کے چھ ججز کے معاملے پر بات کرتے ہوئے واضح کیا الزام تراشی کا ثبوت ہونا ضروری ہے شکایت گزار کو الزامات ثابت کرنے ہوتے ہیں۔ عسکری ترجمان کی پریس کانفرنس کے جواب میں پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن اور دیگر رہنمائوں نے تحریک انصاف کے سانحہ نو مئی میں ملوث ہونے کے شواہد منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی رہنمائوں نے سانحہ نو مئی کو اپنی جماعت کے خلاف ظلم کا دن قرار دیتے ہوئے کہا ہے اگر ان کے خلاف اس سانحہ میں ملوث ہونی کے شواہد ہیں تو انہیں منظر عام پر لانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے اس وقت ملک پر ایک خاص طبقہ قابض ہے اور طاقتور حلقے اس کا حصہ ہیں۔ عمران خان کا دفاع کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا عمران خان نے فوج کے حق میں بیانات دیئے پی ٹی آئی نے کبھی انتشار نہیں پھیلایا۔ پاک فوج کے ترجمان نے سانحہ نو مئی پر عدالتی کمشن کے قیام کو لاحاصل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کمیشن کی ضرورت تب ہوتی ہے جب کسی بات پر ابہام ہو۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کمیشن کا کوئی فائدہ نہیں تاہم اس کے باوجود وہ کمیشن بنانے پر تیار ہیں پھر کمیشن اس بات کا تعین کرے 2014 کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے؟ دوسری طرف جیل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان نے دھرنے کی انکوائری میں پیش ہونے پر رضامند ی ظاہر کی ہے۔ سپریم کورٹ نے عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز خط کے حوالے سے از خود کیس کی سماعت کے دوران وکلاء
تنظیموں کی طرف سے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے اور عدالتی امور میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف
کارروائی سے متعلق پیش کی گئی تجاویز پر وکلا ء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردی۔ درحقیقت یہ وقت گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے بات چیت سے مسئلے حل کرنے کا ہے جس میں فریقین میں نہ کوئی اپنی جیت اور نہ کوئی اپنی ہار سمجھے تو معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ذمہ دار حلقوں کو بات چیت سے مسائل کے حل کی طرف بڑھنا ہوگا۔ سانحہ نو مئی کے ملزمان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں ان کے خلاف سانحہ میں ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد نہ ہوئے تو ملزمان کی بریت یقینی ہے۔ ملک کی کوئی سیاسی جماعت پاک فوج کی قربانیوں سے انحراف نہیں کر سکتی پاک فوج کا ہر فرد ملک و قوم کے لئے واجب الااحترم ہے ۔ حکومت اور ذمہ دار حلقوں کو ملک وقوم کے مفاد کی خاطر افہام و تفہم کا کوئی راستہ نکالنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے بانی کو اپنے رویئے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ماضی میں جو ہوگیا سو ہوگیا۔ ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ہمارا ملک چاروں طرف سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ ملک اسی وقت ترقی کر سکتا ہے جب ملک کے اندر امن ہو سیاسی استحکام ہو۔ ملک کے مسائل باہر سے آکر کسی نے حل نہیں کرنے ہیں سیاسی جماعتوں کو باہمی اتفاق سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلایا جائے تو کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہ ہو سکے۔ سیاسی جماعتوں کو افواج پاکستان کو سیاسی عمل میں گھیسٹنا نہیں چاہیے اور افواج کا بھی سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھنا اس کی عزت اور احترام میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ سیاسی حکومتوں کی کارکردگی کا یہ عالم ہے سانحہ نو مئی کو ایک سال گزرنے کے باوجود ملزمان کے خلاف عدالتوں میں مکمل چالان پیش نہیں کئے جا سکے ہیں جو موجودہ حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہرکیف ایک سال گزر گیا آخر اس قضیے کا تصفیہ تو ہونا چاہیے۔
یادداشت کے مسائل میں اضافہ
تحریر : تجمل حسین ہاشمی
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ڈائنیمک میموری لیبارٹری کے ڈائریکٹر پروفیسر چرن رنگناتھ ان نیورو سائنسدانوں میں سے ایک ہیں جو یادداشت اور اسے بحال رکھنے پر تحقیق کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ پروفیسر چرن کے مطابق چار ایسی بُری عادات ہیں جن کے باعث ہمارا ذہن چیزیں بھولنا شروع کر دیتا ہے یعنی یادداشت کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پروفیسر چرن نے وہ تدابیر بھی بتائی ہیں جن کو اختیار کر کے یادداشت کی کمزوری سے بچا جاسکتا ہے جس میں سب سے پہلے آرام اور نیند کی قلت کو پورا کرنا ہے۔ جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ویسے ویسے ہماری نیند کا دورانیہ کم ہوتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کام ( نوکری)، مالی حالات اور صحت سمیت دیگر مسائل بھی ہماری نیند کے معیار کو متاثر کرتے ہیں اور یوں صحت کے سنگین مسائل جنم لیتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارا معاشرہ بھی اس وقت دوسرے مسائل کے ساتھ یادداشت میں کمی میں اضافہ ہوا ہے۔ میری رائے کے مطابق روزگار انسانی زندگی کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے ، اچھی سہولیات اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں، تحفظ کے احساس کا یادداشت کی بہتری میں اہم کردار ہے۔ پروفیسر چرن کے مطابق دماغ کا ایک نظام ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اندر جمع ہونیوالے زہریلے مواد کو باہر نکالتا ہے۔ ان میں امیلوئیڈ پروٹین شامل ہیں، جن کا تعلق الزائمرز سے ہے۔ یہ نظام رات کے وقت متحرک ہوتا ہے۔ پروفیسر چرن نے دماغ پر تحقیق میں 25سال گزارے ہیں۔ چرن کہتے ہیں کہ نیند ہماری صحت اور جسم کی بحالی میں اہم کام کرتی ہے۔ اگر کسی شخص کو نامناسب نیند ملتی ہے تو یقینا اس کے دماغ کی کارکردگی متاثر ہوگی۔ اس سے تنائو کے خلاف برداشت کی سطح بھی گِر جاتی ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے لوگ صحیح طرح کسی کام پر فوکس نہیں کر پاتے۔ تاہم رات کے وقت دماغ نہ صرف زہریلے مواد کو نکالتا ہے اور ایک طرح سے اپنی بیٹری ریچارج کرتا ہے بلکہ یہ یادداشت کو بھی ترتیب دیتا ہے۔ چند تجاویز ہیں جس سے بہتری ممکن ہے۔ انسان سونے سے قبل فون اور کمپیوٹر استعمال نہ کریں، زیادہ کھانا نہ کھائیں اور نہ ہی نشہ یا الکوحل والے مشروبات پیئں اور کیفین سے اجتناب کریں تاکہ آپ کو اچھی اور آرام دہ نیند مل سکے۔ جن لوگوں کو رات میں اچھی نیند نہیں آتی تو انہیں دن کے اوقات میں سونے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ دن کے اوقات میں بھی ( نیند کے ذریعے) یادداشت کو بہتر رکھنے کے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔ دوسرا ایک وقت میں کئی کام کرنا آج کی مشکل اور مصروف دنیا میں ملٹی ٹاسکنگ یعنی ایک وقت میں کئی کام سرانجام دینا عام ہو چکا ہے اور اس عمل کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پروفیسر چرن کا کہنا ہے کہ یہ یادداشت کیلئے بہت بُرا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ کا حصہ پریفرنٹل کورٹیکس ہماری توجہ برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے تاکہ ہم اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ مسلسل ایک مقصد سے دوسرے مقصد کی طرف چھلانگیں لگانے سے انسانی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ جب آپ مقاصد تبدیل کرتے ہیں جیسا کہ موبائل فون چیک کرنا تو نیورانز کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ وہ اس دوران یادداشت میں محض کچھ چیزیں رکھ پاتے ہیں کیونکہ آپ ایک کام سے دوسرے کام کی طرف جانے سے انہیں ملنے والے حکم کو تبدیل کر دیتے ہیں اور اس سے میموری میں چیزیں نہیں رہ سکتیں۔ ملٹی ٹاسکنگ کے خاتمے کیلئے تجویز ہے کہ دوسرا کام شروع کرنے سے قبل پہلا کام ختم کریں۔ ایسی چیزوں سے بچیں جو مقاصد سے آپ کی توجہ ہٹاتی ہیں۔ جب کوئی اہم کام کیا جارہا ہو تو اپنے فون کو سائلنٹ پر لگائیں۔ پروفیسر چرن کی یہ بھی یہی تجویز ہے کہ کام کے دوران بریک لیں اور اپنی ٹانگوں کو پھیلائیں۔ سمارٹ فون پر وقت گزارنے سے آج کے بچوں اور نوجوانوں پر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ پروفیسر کا کہنا تھا کہ اس کے مثبت اور منفی نتائج ہیں۔ سنہ 2023کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکی نوجوان اور بچے روزانہ پانچ سے آٹھ گھنٹے اپنے سمارٹ فون استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ چند دن پہلے پیر سلام دین صاحب جن کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے کے پاس 4سالہ بچی
کے والدین دم کروانے آئے۔ بچی کی بیماری کے حوالہ سے معلوم ہوا کہ وہ سارا دن روتی ہے یا پھر ہنستی رہتی ہے۔ تفصیل کے بعد معلوم ہوا کہ چھوٹی عمر میں ماں اس کو کارٹون لگا کر دیتی تھیں جس سے اب بچی کی یادداشت میں کارٹون کے علاوہ کھچ نہیں تھا۔ دم کرنے کے بعد بچی کی حالت بہت بہتر ہے۔ یادداشت میں آپ کا خود کا عمل دخل بہت اہم ہے۔ چرن کا کہنا ہے زندگی کا ایک ہی دائرے میں پھنس جانا آپ کی سوچ کے برعکس انسانی دماغ کو اس طرح پروگرام نہیں کیا گیا کہ یہ سب یاد رکھی یہ مخصوص چیزوں کو یاد رکھنے کے لیے بنا ہے ۔ صرف وہ تجربے یا واقعات ہمارے دماغ میں محفوظ رہتے ہیں جن میں غصہ، خوف، خواہش، خوشی، حیرانی یا کوئی اور جذبہ ہو۔ ان جذبات سے ہمارے دماغ میں ایڈرینالن، سروٹن، ڈوپامین اور کورٹسول جیسے کیمیائی مادے خارج ہوتے ہیں، یہ کیمیائی مادے ہماری یادداشت محفوظ رکھنے کیلئے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر کے مطابق دماغ میں یہ صلاحیت عمر کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔ اسی لئے وقت گزرنے کے ساتھ بینک اکائونٹ، موبائل فون یا ای میل کا پاسورڈ یاد رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب آپ پاسورڈ بدلتے ہیں تو پرانے پاسورڈ والے نیوران نئے پاسورڈ والوں سے لڑتے ہیں، جسمانی ورزش، خاص طور پر ایروبکس اچھی ہے کیونکہ یہ دماغ میں کیمیائی مادے خارج ہونے میں مدد کرتی ہے جس سے ذہنی اور یادداشت کی صلاحیتیں بہتر ہوتی ہیں۔ مطالعے سے پتا چلا ہے کہ دانتوں اور سماعت کی اچھی صحت بھی ضروری ہے کیونکہ جو لوگ دانتوں کی صفائی کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں یا جو اپنے کانوں کا خیال نہیں رکھتے وہ مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور آخر میں سماجی تعلقات اور نئی چیزوں کی آزمائش میں پھنس جاتے ہیں، اچھی عادات سے لوگوں نے اپنی یادداشت بڑھائی اور ڈیمنشیا کے خطرات کو ایک تہائی تک کم کیا۔ اعدادوشمار بھی حوصلہ افزا ہیں۔ کینیڈین الزائمر سوسائٹی کے مطابق 65سال کی عمر کے بعد 40فیصد لوگوں کو کسی نہ کسی طرح کی یادداشت کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔





