سوال یہ ہے کہ پولیس کرپٹ ہے کہ معاشرہ

تحریر : فیاض ملک
ہر دوسرا شہری سفارش اور رشوت کے بل بوتے پر مکمل پروٹوکول کے ساتھ اپنے جائز و ناجائز کام کو بروقت کرانے کو حق سمجھتا ہیں، ہر شخص نجانے کس جلدی میں ہے، پورا معاشرہ اسی دوڑ میں ہے کہ بس جلد سے جلد ان کا کام ہوجائے باقی جائے سب بھاڑ میں، اس قوم میں انتظار کرنے کی عادت بالکل ختم ہوچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیر قانونی کام میں رشوت لینا اور دینا تو عام سی بات بن چکی ہے، ہر روز ہزاروں افراد اپنے قانونی کام کرانے کیلئے بھی پولیس سمیت ہر سرکاری محکمے میں اپنا جائز و ناجائز کام کروانے کیلئے پیسوں کی پیشکش کرتا دکھائی دیتا ہے، یہاں مجھ کو عظیم چینی مفکر کنفیوشس کی کہی ہوئی بات شدت سے یاد آرہی ہے کہ آنکھ والا وہ ہے جو اپنے آپ کو دیکھے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر شخص اندھا ہے ہم لوگ صرف دوسروں کو ہی برا بھلا کہنا جانتے ہیں، کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، پولیس کو رشوت کی لت لگانے میں معاشرے کے شرفا کا اہم کردار رہا ہے، پولیس کرپٹ نہیں، دراصل پورا معاشرہ کرپٹ ہے، جو اپنے کام نکلوانے کیلئے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپناتا ہے۔ چلچلاتی دھوپ میں چوراہے پر کھڑا ٹریفک وارڈن جب کسی شہری کو روک کر لائسنس یا ضروری کاغذات طلب کرتا ہے تو حیلے بہانوں سے کام لیا جاتا ہے۔ اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ منت سماجت سے ہی کام بن جائے، لیکن اگر پھر بھی بات بنتی مشکل دکھائی دے تو بند مٹھی کے سلام کا آخری حربہ اپنایا جاتا ہے۔ کرپشن اور بے ایمانی کا راگ الاپنے والی قوم کی اس حالت پر صرف ترس ہی کیا جاسکتا ہے، ہمارے معاشرے میں بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے نرم اور شائستہ رویے سے کام لیا جاتا ہے، کیونکہ ہر وقت کی بلاوجہ سختی سے بچے ضدی اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور اسی مثال کو اگر محکمہ پولیس کیلئے لاگو کیا جائے تو یقینا غلط نہیں ہوگی کیونکہ ان کیلئے ہر طرف سے ہر وقت کرپٹ، بے ایمان اور رشوت خور کی صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں جس سے پولیس اہلکاروں کے رویے میں سختی اور چڑچڑا پن عام فہم بات بن کر رہ گئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پولیس اہلکاروں کے رویوں میں کڑواہٹ کی اصل وجہ معاشرے میں ہر طرف سے ملنے والی نفرت ہے جس کی وجہ سے معاملات سلجھنے کے بجائے مزید سنگینی کا باعث بن رہے ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کے کرپٹ کردار کے اصل ذمے دار ہم خود ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک کی پولیس کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں، لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں پر پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت کا زہر مکمل طور پر سرایت کر چکاہے، ملک کی اشرافیہ اپنا ہر جائز و ناجائز کام کروانے کیلئے پولیس کو استعمال کرتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ہماری پولیس کو سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ نفسیاتی تربیت ہے، سب سے پہلے انہیں یہ باور کروایا جائے کو وہ عوام ہی ہیں اور عوام ہی کیلئے ہیں۔ وہ ایک پل ہیں ریاست اور عوام کے درمیان میل ملاپ اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ، مگر یہ پہل کریں گا کون اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک کی پولیس کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں، لیکن بدقسمتی یہ بھی ہے کہ یہاں پر پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت کا زہر مکمل طور پر سرایت کر چکاہے، ملک کی اشرافیہ اپنا ہر جائز و ناجائز کام کروانے کیلئے پولیس کو استعمال کرتی ہے۔ پولیس فورس کا ایک امن و امان قائم اور قانون پر عملدرآمد کروانے کا پابند ادارہ ہے جو ملک بھر میں امن و امان برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے، یہ پولیس ایکٹ 1861اور 2002کے تحت مجرموں کیخلاف کارروائی کرکے تمام فوجداری مقدمات کو کنٹرول کرتا ہے۔ پولیس کو بنانے کا مقصد ایسی ٹیم کا قیام تھا جو نہ صرف قوانین پر عمل درآمد کرواسکے بلکہ شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے،کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ لفظ پولیس کن الفاظ کا مخفف یا مجموعہ ہے اور اس کا کیا مطلب بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کا زندگی میں پولیس سے واسطہ بھی پڑتا ہے لیکن بہت کم لوگ ہی ایسے ہیں جنہوں نے لفظ پولیس کی تعریف سمجھنے کی کوشش کی ہوگی، اگر ہم ان الفاظ کے الگ الگ معانی لکھیں تو وہ کچھ یوں بنیں گے، خوش اخلاق، فرمانبردار، فرض شناس، عَقل مند، دلیر، ہیں۔ گزشتہ دنوں پولیس کرپشن کا ذکر چھڑا تو ایک اہلکار گلہ کرنے لگا کہ پولیس اتنی کرپٹ نہیں ہے لیکن اس کی کرپشن دوسروں کو نظر آ جاتی ہے۔ پولیس افسران گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ تھانہ کلچر نے پولیس کے محکمے کو بدنام کر رکھا ہے، ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس کے سارے مسائل کی وجہ کرپٹ تھانے دار اور اہلکار ہیں۔ اس محکمہ کو ہر حکومت نے تجربات کیلئے اپنی اپنی تجربہ گاہ میں ٹیسٹ سے گزارا ہے، گو پولیس نظام میں اصلاحات ضروری ہیں لیکن زیادہ تر حکومتیں نمائشی تبدیلیاں ہی کرتی آئی ہیں۔ ابھی تجربات کی بھٹی چل رہی ہے نت نئے تجربے کیے جا رہے ہیں مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ اعلیٰ تربیت اور ٹھوس حکمت عملی کی فقدان کا اعتراف کرنے میں پولیس عموماً ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پولیس کے نظام میں کافی اصلاحات کا ہونا باقی ہیں جوکہ محض اس لیے نہیں کی جا رہیں کیونکہ اس سے اشرافیہ اور ان کے حواری دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں، پولیس اور عوام میں دوریوں کو کم کرنا بلکہ مسائل کے پیچھے چھپی اصل وجوہات کو جاننا نہایت ضروری ہے، پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں، جبکہ اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ادارہ خود ہی پولیس اہلکاروں کو رشوت لینے پر مجبور کرتا ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کیلئے حکمران طبقے اور انتظامیہ کیلئے یہ معاملہ انتہائی غور طلب ہے۔ معاشرے میں جاری پولیس کی تذلیل کو بند کیا جانا چاہیے۔ والدین اپنے بچوں میں پولیس کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، کیونکہ پولیس اہلکار بھی اتنے ہی احترام کے مستحق ہیں جتنا کہ معاشرے کا کوئی اور فرد۔ حکام کی جانب سے عوام دوست میٹنگز کا انعقاد کیا جائے، جس سے نہ صرف پولیس اور عوام کے درمیان خلا کو پر کرنے میں مدد مل سکے بلکہ پولیس اہلکاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔ اس ملک میں پولیس کی نوکری سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے، میرے کئی احباب اس شعبہ میں ملازمت کر رہے ہیں۔ جب کبھی بھی ان سے ملاقات ہوئی، شدید پریشانی اور اضطراب میں مبتلا نظر آئے، ایک اور مسئلہ جو پولیس کی کارکردگی کو بہتر نہیں ہونے دیتا وہ ہے ڈیوٹی ٹائم، دنیا بھر میں کسی ملک میں کسی شعبہ میں ڈیوٹی کا دورانیہ 24گھنٹے نہیں ہے مگر حیران کن طور پر پاکستان میں ایک کانسٹیبل کو ہر روز 12سے 16گھٹنے ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے، کئی بار شفٹ سسٹم کے نفاذ کا عندیہ دیا گیا ہے مگر تاحال ایسا نہیں ہوا ، اب انسانی فطرت ہے کہ جب انسان کو ذہنی سکون میسر نہ ہو تو وہ بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سکون کی عدم دستیابی معمول بن جائے تو اس کا نفسیاتی مریض بننا یقینی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے محکمے کو مزید نمائشی تجربات سے بچایا جائے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے پولیس کو وسائل، تربیت، ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ فراہم کیا جائے اور اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے۔ ڈیوٹی ٹائم 24گھنٹے کی بجائے شفٹ کے نظام کے ذریعے کم کیا جائے، سیاسی مداخلت ختم کی جائے، تحقیق و تفتیش کے شعبہ میں روایتی انداز کی بجائے جدید طریق ہائے کار کو اپنایا جائے، اہلکاران اور افسران کو جسمانی کے ساتھ نفسیاتی تربیت بھی مہیا کی جائے، تنخواہوں میں معقول اضافہ کیا جائے اور سب سے اہم یہ کہ پولیس ایکٹ 2002کو اس کی اصل حالت میں نافذ کیا جائے۔





