9مئی سے 8مئی تک

تحریر : سیدہ عنبرین
9مئی 2023ء کو ملک کی اہم شاہراہوں اہم کنٹونمنٹ میں ہونے والا تماشا ادھورا تھا، کوئی لاٹھی چارج، آنسو گیس، واٹر کینن، موقع سے گرفتاریاں نہ ہوئیں، تخریب کار تھے اور شہر ان کے حوالے تھے، وہ اہم تنصیبات کو نذر آتش کرتے، توڑ پھوڑ کرتے ملک کی سالمیت کیلئے جانوں کی قربانیاں دینے والوں کی یاد میں تعمیر یادگاروں کو تہس نہس کرتے نظر آئے، ہر محب وطن شہری یہ منظر دیکھ کر اشکبار ہوا، کچھ ایسے بھی تھے جو یہ سب کچھ ٹی وی سکرینوں پر گھر بیٹھ کر دیکھنے کی بجائے اپنی آنکھوں سے دیکھنے ’’ آن دی سپاٹ‘‘ پہنچے، کچھ اس شوق میں پہنچے کہ بتا سکیں جب فلاں واقعہ ہوا تو ہم وہاں موجود تھے، سیلفیاں بنانے کی شوقین بھی بڑی تعداد میں پہنچے، جو کچھ ہوا بہت افسوس ناک ہوا۔ جب ایک حاضر سروس جنرل کی پتلون کو سوٹی پر ٹانگ کر تمسخرا اڑایا گیا تو یہ دیکھا نہ جا سکتا تھا، ملک سے محبت کرنے والے سکتے میں آ گئے اور سب ایک دوسرے کی آنکھوں میں اپنے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے لگے، جہاں سوال ہی سوال تھے کوئی جواب نہ تھا۔
سال بیت گیا، کچھ سوالوں کے جواب آج تک نہیں مل سکے، وہ مضبوط کندھے جن پر سر رکھ کر قوم کا ہر فرد رو لیا کرتا تھا، اپنا غم ہلکا کر لیتا تھا، آج خود کوئی کندھا تلاش کرتے نظر آتے ہیں تاکہ اس پر سر رکھ کر رو سکیں، یہ منظر دیکھ کر دکھوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تخریب کاری کرتے نظر آنے والے، جلوس کی شکل کور کمانڈر ہائوس کی طرف آنے والے، دوسروں کو ادھر چلنے کا پیغام دینے والے، سب کچھ جلا کر راکھ کر دینے کی خبر سنانے والے گرفتار تو ہوئے لیکن آج تک گرفتار ہی ہیں، وہ جو کہا گیا تھا کہ انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، وہ کردار کہاں ہیں، جرم تو سب کا ایک جیسا ہی تھا پھر صرف انہیں ضمانت کی سہولت کیوں ملی جو اقتدار کے ایوانوں میں اور زندگی کے ہر شعبہ میں اثر و رسوخ رکھتے تھے، وہ دہشت گردی کی عدالتیں، وہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات چیونٹی کی رفتار سے آگے کیوں بڑھ رہے ہیں، ایسے مقدمات جھوٹے ہیں، ان میں ثبوت موجود نہیں یا انہیں سزا دینا مقصود نہیں، اس حوالے سے تفتیش کرنے والوں کی رپورٹس کیا کہتی ہیں، کچھ مقدمات میں جب سب کچھ مکمل ہو گیا تو یہ فیصلہ کس نے اور کیوں کیا کہ ان ملزمان کی سزا کا فیصلہ آنے والی حکومت کرے گی۔ پی ڈی ایم حکومت سے تعلق رکھنے والی جماعتیں نگران سیٹ اپ میں نمائندہ تھیں، کسی نہ کسی حیثیت میں اگر ان کے عہدیدار بذات خود شامل نہ تھے تو انہی جماعتوں نے اپنی پسند کی شخصیات کو نامزد کیا تھا جنہوں نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینا تھا لیکن نگران سیٹ اپ میں رہ کر بعض حساس امور کی حسب منشا نگرانی کرنا تھی، وہ سب کچھ خوشی خوشی کرنا چاہتے تھے ان ملزمان کی سزائوں کا فیصلہ کرنے میں کیوں دلچسپی نہ رکھتے تھے، وہ جو سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں انہوں نے ملک میں تباہی پھیلانے اور اس کیلئے اکسانے کے جرم میں ملوث افراد کو مقدمات کے بعد سزا دینے کا نیک کام کیوں نہ کیا جو عبادت کے زمرے میں آتا ہے؟
ملک کی بااثر ترین شخصیات نے ایک ملزمہ کو ریلیف دلوانے کیلئے کراچی سے خیبر تک کے درودیوار ہلا دئیے، وہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں زلزلہ لے آئے۔ خدیجہ شاہ کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ تمام ثبوت موجود ہیں، کیس دیکھا جائے گا فیس نہیں، یہ بھی کہا گیا تھا کہ عبرت کی مثال بنا دیا جائے گا، پھر جو کچھ ہوا جس طرح ہوا سب نے دیکھا وہ معصوم تھی تو اس کی اور اس کے خاندان کی کردار کشی کیوں گئی تھی۔ درحقیقت تخریب کاری میں ملوث تھی تو رہائی کس نے اور کیوں دلوائی، ملزمان مجرمان کی پشت پناہی کرنے والے قانون کے تحت ملزم اور مجرم ہی ہوتے ہیں، سائیکل چور کا تو تمام خاندان گرفتار ہو جاتا ہے، یہاں تو ملزمہ ہی رہا ہو گئی، رہائی ہوئی تو ضمانت کے قانون کے تحت تھی اب اس کے خلاف فیصلہ اس لئے نہ سنایا جائیگا کہ وہ ملک میں موجود نہیں اور فیصلہ اس وقت سنایا جاتا ہے جب مجرم عدالت میں موجود ہو، کیا واہیات قانون ہے، مقدمہ کی کارروائی مکمل کر کے سزا سنا کر مجرم کو گرفتار کر کے جیل میں کیوں نہیں ڈالا جا سکتا؟
ایک اور ملزم کو ریلیف دلوانے کیلئے وہ لوگ ایوان صدر پہنچے جو ملک کی محبت میں برسوں سے دیوانے ہونے کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں جبکہ ملک کو لوٹنے میں کسی سے پیچھے نہیں کچھ آگے ہی نظر آتے ہیں، انہوں نے ایوان صدر میں ’’ ان‘‘ سے ملاقات کی، پھر خصوصی ملاقات کی، جن کی پتلون سوٹی پر ٹانگ کر لہرائی گئی تھی، خیال تھا خدیجہ شاہ کے ساتھ ساتھ اس ملزم کو بھی سخت ترین سزا سنائی جائے گی لیکن نہیں اسے محفوظ مقام پر رکھ کر ریلیف دیا گیا ہے، کوئی نہیں جانتا وہ ہے کہاں، کوئی نہیں جانتا اس کے مقدمے کا فیصلہ آج تک کیوں نہیں ہو سکا، ثبوت تو ساری دنیا کے سامنے آ چکا تھا، پھر رعایت کی گنجائش کیسے بنی؟ 50سے 100کے قریب مختلف خواتین اور مرد اپنی عدالتی پیشی پر وکٹری کے نشان بناتے نظر آتے ہیں، وہ سب پرامید ہیں انہیں کچھ نہیں ہو گا، بس کچھ عرصہ کی مہمان داری ہے، سو وہ ہنسی خوشی مہمان بنے ہیں، وہ مجرم ہیں تو سزا سنائیں، معصوم ہیں تو بری کریں۔ سرکاری لاٹھیاں سٹورز میں پڑی رہیں تو انہیں دیمک کھا جاتی ہے، آنسو گیس کے شیل زیادہ عرصہ استعمال نہ ہوں تو انہیں نمی چڑھ جاتی ہے، قابل استعمال نہیں رہتے۔ واٹر کینن اپنے اپنے شیڈ میں کھڑے رہیں تو اس کے پرزوں کو زنگ لگ جاتا ہے، یہ سب کچھ استعمال ہو گا تو سمجھا جائے گا کہ ان اشیاء کی خریداری پر جو بجٹ خرچ ہوا وہ درست تھا، ان کے استعمال کے بعد ہی معلوم ہوتا ہے اب سٹورز خالی ہو گئے ہیں، مزید ’’ سامان برائے سولہ سنگھار‘‘ درکار ہے، یہ بھی تخمینہ لگانے میں سہولت رہتی ہے کہ آئندہ برس ان ضروری اشیاء کی زیادہ ضرورت ہو گی۔ ان اشیاء کی درآمد بھی گندم کے سنہری ریشے اور گندم درآمد کرنے کے سنہری اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے، یعنی وافر سٹاک ختم ہونے سے قبل نیا سٹاک منگوانا ضروری سمجھا جاتا ہے، پس نظریہ ضرورت کے تحت 8مئی کو لاہور کے مال روڈ پر ہائیکورٹ کے سامنے رونق میلہ لگایا گیا ہے، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن متحرک نظر آئے۔ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں، ایک شب قبل گرفتاریاں، ایک روز بعد ضمانتیں ہونگی، پھر مذاکرات ہونگے، ہر مرتبہ مذاکرات کامیاب رہتے ہیں، بس ایک معاملے پر کوئی ایک میز پر نہیں بیٹھے گا نہ مذاکرات نہ ہوں نہ سزائیں ہونگی نہ رہائی ملے گی، حالانکہ پراجیکٹ بند ہوئے سال بیت گیا ہے، کوئی 9مئی بھی نہیں ہوسکتا۔ بس 8مئی پر گزارا کریں۔





