باوقار قوم، با عزت حکمران

تحریر : عبد الحنان راجہ
غیر منظم اور منقسم جاپان کا سمورائی قبیلہ بارہویں صدی میں اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ اس نے عشروں سے بگڑے نظام کو منظم اور جدید خطوط پر استوار کر دیا مگر جاپانیوں کی بدقسمتی کہ جاپانی ترقی اور خوشحالی کی چند دہائیاں ہی دیکھ پائے کیونکہ منگول حملہ آوروں نے سب کچھ برباد کر دیا، پھر اگلے کئی سو سال وہ سنبھل نہ سکے۔ پھر دنیا نے 20ویں صدی کے جاپان کو سائنسی ترقی کے عروج پر پایا، کہ امریکہ جیسا ملک بھی خوفزدہ اور ایٹم بم گرا کر اس کی پیش قدمی کو روکنے پر مجبور ہوا۔ اس اندوہناک تباہی کے بعد بھی جاپانیوں ہمت نہ ہاری اور نئے عزم اور ولولے سے تعمیر نو کی طرف ایسے بڑھے کہ چند عشروں میں ترقی یافتہ اقوام کے امام بن گئے۔ اس کے مقابل اگر ہم اپنے احوال کو دیکھیں تو سر شرم سے جھکتے ہیں کہ 15سال پہلے زلزلے اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات اب بھی باقی کہ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ممالک سے بھی اتنی امداد ملی تھی کہ کئی نئے شہر آباد ہو سکتے تھے مگر کرپشن امداد کا زیادہ حصہ چٹ کر گئی۔ ہمارے ہاں ہر روز اخلاقیات کے جنازے اٹھتے ہیں اور ہر دن ایک نیا سانحہ جنم لیتا ہے۔ ظلم کے نت نئے طریق سامنے آتے ہیں، مگر ہم ہیں کہ بدلنا تھا نہ بدلے، سانحات اور واقعات سے سبق سیکھنا تھا نہ سیکھے۔ اب تو نوبت یہاں تک ان پہنچی کہ آسمانی آفات اور قدرت کی تنبہات سے بھی ہم سچائی، دیانت اور توبہ کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ تباہ حال جاپان نے ترقی کا آغاز دولت، امداد یا بھیک سے نہیں کیا اور نہ جدید مشینری کا حصول ان کے پیش نظر تھا۔ بلکہ انہوں نے ترقی کے اس سفر کا آغاز اعلیٰ اخلاقی روایات کی بنیاد سے کیا کہ حادثات اور سانحات کبھی بھی سرمایہ اور ٹیکنالوجی کو برباد کر سکتے ہیں مگر اقدار باقی رہنے والی چیز۔ جاپان کا نظام تعلیم پوری دنیا سے مختلف کہ وہاں پہلے پانچ، چھ سال طلبہ کو صرف اخلاقیات اور اقدار پڑھائی جاتی ہیں کہ اس عرصہ میں وہ نونہالوں کے دل و دماغ پر نظم و ضبط، دیانت و امانت اور اعلیٰ کردار، صفائی ستھرائی، اخلاق، حب الوطنی، دوسروں کے لیے ہمدردی اور محبت جیسے جذبات نقش کرتی ہیں۔ صفائی پر مامور عملہ کو بہت قدر کی نگاہ سے اور انہیں ہیلتھ انجینئر کہا جاتا ہے۔ دفاتر اور گھروں میں صفائی ستھرائی کے لیے نوکر کا تصور نہیں۔ نظم و ضبط اور جذبہ مواخات ایسا کہ سونامی جیسی تباہی کے بعد ہر شہری نے زائد از ضرورت سامان دیگر شہریوں کے لیے وقف کر دیا۔ وقت کی قدر بھی کوئی چاپانیوں سے سیکھے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے اوقات میں محض چند سیکنڈ کا فرق، شور شرابہ اور بے ہنگم زندگی سے وہ اس طرح دور جس طرح ہم اسلامی ملک میں رہ کر اسلام سے۔ عوامی مقامات اور دفاتر میں سیل فون بجنے یا لمبی گفتگو کا تصور تک نہیں اور نظم و ضبط اتنا مثالی کہ دنیا بھر کے لیے قابل تقلید. مگر حیف کہ ھم نے ان کی اعلی اقدار اور ترقی کے حقیقی راز سے کچھ سیکھنے کی کوشش نہ کی۔ نظام بدلا نہ نصاب۔ نوجوانوں کی اس نہج پر تعلیم و تربیت کا سامان ہی نہ کیا کہ وہ معاشرے کے کارآمد فرد بن سکتے، قوم بن سکتے اور قومی روایات کے آمین۔ بلکہ طبقاتی نظام تعلیم نے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان ریاست کے لیے بوجھ بنا دئیے ہیں۔ کسی حکومت نے مسائل کو جڑ سے ختم اور وسائل کو بہترین انداز سے استعمال کرنے کی سعی نہ کی، بلکہ جز وقتی اقدامات سے اپنے اقتدار اور سیاست کو دوام اور رہنمائوں نے سیاسی میدان میں زندہ اور شہرت کے لیے عارضی سہارے لیے۔ ہر دور کے حکمرانوں کے بالواسطہ یا بلاواسطہ مالیاتی سکینڈلز بنے مگر کمال حوصلہ ہمارے نظام انصاف اور عوام کا، کہ ہر خطا معاف کی۔ سرکاری وسائل کا ذاتی نمود و نمائش کے لیے استعمال معمولی بات بلکہ عوامی ٹیکسز سے بننے والے ترقیاتی منصوبہ جات کی تشہیر کا کسی نے کوئی موقع ضائع نہ ہونے دیا۔ افسوس کہ ہمارے حکمرانوں نے جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل کی اقتدار اور سیاست سے باوقار اور باعزت رخصتی سے بھی کچھ نہ سیکھا۔ تین بار مسلسل اقتدار کے باوجود ان کے رویہ میں رعونت آئی اور نہ ذاتی زندگی
میں سادگی و کفایت کا دامن چھوٹا، طاقت اور اقتدار کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا اور نہ اپنی کاروباری ایمپائر بنائی کہ جو کئی ممالک تک ہو۔ حیرت یہ کہ پورے دور اقتدار میں کوئی مالیاتی سکینڈل تک نہ بنا۔ اپنے اور اپنے خاندان کے لیے سرکاری وسائل کے دروازے کھولے اور نہ قیمتی پلاٹس کی الاٹمنٹ کرائی۔ پروٹوکول اور کروفر کے لیے قیمتی گاڑیاں خریدی گئیں اور نہ طویل اقتدار کے دوران کبھی آئین و قانون سے انحراف کی جرات کی۔ مخالفین کو جیل بھجوانے اور نشان عبرت بنانے کی بڑھکیں ماریں اور نہ میڈیا کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کیا۔ معاشرہ انصاف پر قائم اور آئین و قانون کی بالا دستی ہو تو ایسے حکمران اچنبھا نہیں۔ جرمنی نے اس وقت شام کے مہاجرین پر اپنے دروازے کھولے جب اپنوں نے بند کر دئیے تھے۔ لاکھوں تباہ حال مسلم مہاجرین کو پناہ دی۔ اتنی شاندار کامیابیوں، اور طاقت ور ہونے کے باوجود ان کے سر پر کبھی پورے یورپ کا راہنما بننے کا خبط سوار ہوا اور نہ اپنے شاندار دور اقتدار کو مستقل طور پر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کا خیال۔ سال 2021میں جرمن قوم نے اپنی عظیم راہنما کو منٹوں تالیاں بجا کر باوقار انداز سے رخصت کیا۔ معیشت کو چار ہزار ارب ڈالرز سے زائد تک پہنچانے والی اس عظیم خاتون کے اپنے گھر کے معاشی حالات دگرگوں ہی رہے کہ اقتدار کا سارا عرصہ عام فلیٹ اور محدود آمدنی میں نوکروں کی فوج کے بغیر ہی گزارا۔ قدرت کا ہے کہ اصول علم، فن اور ترقی کو کسی کی میراث نہیں رکھا، اور ’’ کوئی قابل ہو تو ھم شان کئی دیتے ہیں‘‘ کے مصداق کوئی فرد ہو یا قوم اگر دیانت، امانت، عدل اور انصاف کو اپنا لے تو ترقی اور عظمت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہم اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ کیا کبھی پاکستانی عوام جاپانیوں کی طرح اعلیٰ اقدار کی حامل قوم بن پائے گی اور سیاست دان مرکل جیسے دیانت دار حکمران ! مگر یہ طے ہے کہ احوال بدلے بغیر نہ عوام بدلے گی نہ حکمران۔







