ColumnTajamul Hussain Hashmi

انسان ناسمجھی کا شکار

تحریر : تجمل حسین ہاشمی
چائے کے کپ پر ہونیوالی ملاقات کے نتیجہ سے میں بالکل لاعلم تھا۔ تعارف کے بعد یقیناً میں محمد علی بٹ صاحب کو سننا چاہتا تھا کیوں کہ میزبان کی شخصیت اور مرتبے کے لحاظ سے مجھے لگتا تھا کہ جناب کے پاس معلومات کا بھر پور خزانہ ہو گا کیونکہ ایک دوست کے توسط سے ہونے والی پہلی ملاقات میں کوئی اہم یا کوئی خاص بات نہ ہو سکی۔ لیکن جناب محترم محمد علی بٹ صاحب نے میری دلی خواہش کو تسکین دی جب مجھ سے دوبارہ ملنے کا کہا۔ رمضان المبارک کی آمد آمد تھی، پھر رمضان بھی گزر گیا۔ کئی بار خیال آیا کہ بٹ صاحب سے ملا جائے۔ لیکن وہ مصروف رہے۔ بہرحال رمضان کے بعد ملاقات کا وقت فائنل ہوا۔ گزشتہ روز سیکنڈ ہاف میں ان کے دفتر پہنچ گیا۔ اللہ نے ان کو بڑی عزت سے نوازا ہے، وہ اچھے ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ سٹاف کمرہ تک لے گیا اور چائے کا پوچھ کر چلا گیا۔ محترم بٹ صاحب چند منٹ کے بعد آگئے۔ ان کے آنے کے ساتھ ہی سٹاف چائے اور بسکٹ بھی لے آیا۔ جناب محمد علی صاحب نے خیریت پوچھنے کے بعد مصروفیات کا دریافت کیا۔ بات چیت میں ایسا محسوس ہونے لگا جیسے بٹ صاحب کو میری سوچوں کا پہلے سے علم تھا۔ محمد علی بٹ صاحب میں مجھے وہی بابا محسوس ہونے لگا، وہی بابا جس کا ذکر اشفاق احمد صاحب اپنی کتاب "زاویہ” میں لکھ چکے ہیں۔ ان کی باتیں عملی تھیں۔ روحانیت اور قربت خداوندی واضح تھی۔ مجھے کہنے لگے کہ ہم لوگوں کی ظاہری چیزوں، ان کے ایسے عملوں سے بہت جلد متاثر ہوتے ہیں جو دراصل انکے فرائض میں شامل ہوتے ہیں، لوگ ان سے متاثر ہیں۔ لوگ ان کو زمینی خدا بنا دیتے ہیں۔ دیکھیں ہمارے ہاں ٹیکس دینے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے، جب ہم ٹیکس نہیں دیں گے تو ریاست پر کیسے دبائو ڈال سکیں گے کہ وہ اپنی ذمہ داری پورا کرے اور عوام کے حقوق مہیا کرے۔ معاشرے میں موجود ہر اکائی کو اپنا اپنا فرض اور ذمہ داری انفرادی طور پر ادا کرنی ہوگی۔ مگر ہماری قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم دوسروں کی قانون شکنی اور غلطی کو بطور جواز استعمال کرتے ہیں اور اس طرح اجتماعیت کے تصور کی نفی کر رہے ہوتے ہیں۔ اکائیاں جب اپنا اپنا کام کرتی ہیں تو ایک مجموعے کی شکل اختیار کرتی ہیں اور اجتماعیت کا یہی عمل کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ ایک رہنما یا فرد ٹیکس دے کر اس کو احسن سمجھ لیتا ہے، ایک اکائی کا مثبت کردار بہت ضروری ہے۔ ذمہ داری کو پکچرائز نہ کریں۔ یہ کافر کیا کیا نہیں کر رہا۔ ان کی امن داری دیکھیں۔ ہر عمل سے سچائی ملے گی۔ ملک سے وفاداری ملے گی۔ دنیا میں نئی نئی ٹیکنالوجی لیکر آ رہا ہے۔ اس جدت سے مسلم، کافر دونوں فیض یاب ہورہے ہیں۔ ہمیں جہاں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے وہ ہم دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ جھوٹی قسمیں، قرآن اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے اور اسی رب سے عزت چاہتے ہیں۔ وہ خالق ہے، معاف کرنے والا ہے۔ میں نے پوچھا کہ جو کچھ ہمارے ہاں چل رہا ہے کیسے بہتر ہوسکے گا۔ کہنے لگے معاشرے کی ایک اکائی کو خود بہتر کرنا ہوگا۔ پھر قوم بن سکیں گے۔ کہنے لگے مجھے اللہ کے گھر جانا نصیب ہوا، میں نے ایئرپورٹ پر دیکھا کہ امیگریشن کائونٹرز انتہائی سست روی کا شکار تھے اور ان پر لائنز لگی ہوئی تھیں، ہمارے پاکستانی بھائی بے حسی کے ساتھ ایک ریوڑ کی صورت چہ میگوئیوں میں اپنی توانائیاں خرچ کر رہے تھے۔ اسی اثنا میں ترکی کی بھی ایک فلائٹ اتری اور انہوں نے افسر کو جلدی کام کرنے کا کہا، اسی دوران انہوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ ان کا احتجاج ہمارے ہاں جیسا نہیں تھا کہ توڑپھوڑ شروع کر دیتے، نہیں ان تمام افراد نے تالیاں بجانا شروع کر دیں، دیکھتے ہی دیکھتے وہاں موجود تمام ترک اپنے بھائیوں سے اظہار یکجہتی کا جذبہ لئے احتجاج کا حصہ بن گئے اور ایئرپورٹ پر ایک عجیب سا سماں ہوچکا تھا۔ انتظامیہ حرکت میں آئی اور چند ہی منٹ میں انہیں علیحدہ کائونٹر فراہم کر دیئے گئے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک متحد قوم ہیں۔ ہم لوگ آج تک ایک قوم نہیں بن سکے، تقسیم کا شکار ہیں۔ تبدیلی چاہتے ہیں لیکن عملی اقدامات سے بہت دور ہیں۔ معاشرہ کی اصلاح اور تعمیر و ترقی میں ہمارے ہاں کسی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ پھر ایسے میں اچھے کی کیسے امید رکھ سکتے ہیں؟ میں نے بٹ صاحب سے پوچھا کہ جناب انسان خود کو تو بہتر کر سکتا ہے لیکن وہ اسی معاشرہ سے جڑا ہوا بھی تو ہے، جس میں قتل، حقوق غضب ہوتے ہیں، حق تلفی عام ہے۔ دوسرے انسانوں کے رویے بھی تو اثرانداز ہوتے ہیں، تو ان سے کیسے بچا جائے؟
محمد علی بٹ صاحب نے کوئی لمبی چوڑی دلیل نہیں دی۔ ایک بات سے مجھے لاجواب کر دیا۔ کہا یہی تو تقویٰ ہے۔ ہمارے پیاروں کے واضح ارشاد ہیں کہ راستے کے دونوں طرف کانٹے دار جھاڑیاں ہوں تو خود کو سمیٹ کر گزرنے میں کامیابی (تقویٰ) ہے۔ خود کو اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں سے بچانے کی تدبیر کرنا آپ کی اپنی ذمہ داری ہے۔ وقت کا پتہ نہیں چلا، میں نے ایک کپ چائے مزید پینے کا اظہار کیا، ہم نے ملکر ایک کپ چائے پی، مجھے جناب کے قیمتی وقت کا بھی احساس تھا۔ بات چیت کے دوران سٹاف کو ہدایت بھی دیتے رہے۔ آفس کے ماحول سے اچھا تاثر مل رہا تھا۔ سٹاف نمازی تھا۔
ایسے نفیس انسان ملک کا فخر ہیں اور یقیناً ہمارے لئے قابل فخر ہیں، اداروں کے سربراہ ہی ملک کی ترقی کے ضامن ہیں۔ سربراہوں کی مثبت سوچ کامیابی کی ضمانت ہے۔ اپنے ملک سے محبت اور خاص کر اکائی (فرد) کے کردار کو مثبت بنانے میں اپنے اپنے عمل کی درستی کی ضرورت ہے۔ کئی اور پہلوئوں پر بھی بات چیت رہی، جو پھر کسی وقت شیئر کرونگا۔ حالات و واقعات انسان کو مضبوط کرتے ہیں لیکن ذہنی دبائو انسان کی استعداد کار کو بھی متاثر کرتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button