کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

تحریر : ساجد علی شمس
ہر سال یکم مئی کو ’’ یوم مزدور‘‘ پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ جلسوں، ریلیوں، کنونشنز، تقاریب اور تحریروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ ملک کی باگ ڈور پر قابض اشرافیہ اور ایک بااثر طبقہ، جو سارا سال غریب کش اور مزدور دشمن پالیسیوں پر گامزن رہتا ہے، یکم مئی کو وہ مزدوروں اور غریبوں سے وقتی ہمدردی اور دکھاوے کی محبت کا دم بھرتا نظر آتا ہے۔
اسلام کے نظام سیاست اور نظام حکومت کے علاوہ دنیا میں عموماً دو نظریات کا راج رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ دو نظریات ہی جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوم کا موجب ہیں اور وہ نظریات ہیں، کمیونزم اور کیپٹل ازم۔
کارل مارکس اور ان کے ساتھی فریڈرک اینگلز نے خدا، نبوت اور آخرت سے انکار کر کے دنیا کو ایک نیا نظام پیش کیا، جس کی بنیاد محض مادیت پر تھی۔
کمیونزم کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس میں فرد کیلئے کوئی محرک نہیں ہوتا تھا جس میں وہ اپنے ادارے کیلئے اپنی خدمات کو اعلیٰ ترین انداز میں پیش کر سکے اور اس کیلئے زیادہ سے زیادہ محنت کر سکے اور کمیونزم کی دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ پورے نظام کو جبر کی بنیاد پر قائم کیا گیا، مذہبی اور شخصی آزادی بالکل ہی ختم ہو کر رہ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یو ایس ایس آر کی معیشت کمزور ہوتی گئی بالآخر یہ ملک 1990ء میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس کے ساتھ ہی کمیونزم بھی دفن ہو گیا۔
کمیونزم نظام کا حامل دوسرا بڑا ملک چین تھا، جس کی معیشت بھی مسائل کا شکار تھی چنانچہ اس نے بھی کمیونزم کو خیر آباد کہہ دیا اور اپنی مارکیٹ کو اوپن کر کے کیپٹل ازم کو قبول کرلیا۔ چونکہ یہ سب کچھ فطری اصولوں کے منافی تھا، اس لیے پون صدی کے بعد یہ نظریہ دم توڑ گیا۔ کیپٹل ازم جس نے جاگیرداری کے بطن سے جنم لیا، نقائص و خامیوں کا مجموعہ اور عیوب کا منبع ہے۔ کیپٹل ازم کا نظریہ ایڈم سمتھ کے اصول و قوانین پر مشتمل ہے جس میں ہر سرمایہ دار کو یہ آزادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ دولت کے جتنے چاہے انبار لگا لے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امیر، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ جاگیردارانہ نظام کی طرح اس نظام میں بھی سرمایہ دار غریب کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس کا استحصال کرتا ہے۔ اس استحصالی کشمکش نے انسانیت کو امیر اور غریب نامی دو طبقات میں تقسیم کر دیا۔ مئی کے مہینے کی ابتدا لیبر ڈے سے کرنے والے ان ظالم سرمایہ داروں کی دو رنگی پہ صد حیف کہ اس دن تمام لیبر یونینز کو اکٹھا کر کے نعرے تو لگوائے جاتے ہیں مگر ان پسے ہوئے طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین نہیں کیا جاتا، نہ ہی مزدور کے فرائض کی کوئی حد ہے اور نہ ہی اس کے حقوق کا کوئی پیمانہ۔ دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی کا شور مچانے والا طبقہ اس واضح حقیقت کو فراموش کر دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ وسائل میں بھی اضافہ فرما دیتے ہیں۔ درحقیقت دنیا میں بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ وسائل میں کمی یا آبادی میں اضافہ نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ دولت کی غیر منصفانہ اور غیر متوازن تقسیم اور گردشِ زر کی کمی ہے۔ تمام سرمایہ اور دنیا کے سب وسائل چند ہاتھوں میں ہیں اور دنیا کا سرمایہ دار طبقہ ہی ان پر قابض ہے۔ دنیا کو شمالی گلوبل اور جنوبی گلوبل میں تقسیم کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے آدھے سے بھی زیادہ وسائل پر اشرافیہ قابض ہے اور جب دن بھر مجبور ہو کر مزدوری کرنے والا مزدور جب اپنی مشقت اور محنت سے بہت ہی کم مزدوری لیکر اپنے بچوں کے پاس لوٹتا ہے تو اس کے چہرے پر مایوسی، غم، غصہ اور خشک مزاجی عیاں ہوتی ہے۔ اور وہ اپنے ہی بچوں سے نظریں چرا کر کہتا ہے۔۔۔
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کر زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں
سرمایہ دارانہ نظام معیشت نے جہاں معاشی مسائل پیدا کئے ہیں وہیں ہماری روحانی اور ذہنی افکار و روایات کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کہ لیبر ڈے منانا اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتا جب تک ہم اس نظام کے خلاف نبردآزما نہیں ہو جاتے اور اسلام کے ان اصولوں کی طرف رجوع نہیں کر لیتے جنہوں نے معاشرے کے ہر فرد کے حقوق کی حفاظت کی ہے۔ اسلام ہی وہ نظام ہے جس نے درس دیا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ مزدور پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جس کو اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔
مزدور کو اس سے کچھ زیادہ بھی دے دیا جائے جو آپ نے اس کے ساتھ طے کیا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر بنی نوع انسان کی آزادی اور حقوق میں برابری کا جو اعلان کیا ہے اس میں مزدور کی شخصی آزادی اور کام کی آزادی کے حقوق بھی شامل ہیں۔ قرآن کریم میں تمام لوگوں کے درمیان برابری اور مساوات کا اعلان کیا گیا ہے، ملازم یا خادم آجر اور مالک کا بھائی ہے اور اسی جیسے حقوق و مراعات بھی رکھتا ہے۔ ان کی اجرت اور حاصلِ محنت اتنی ہونی چاہئے کہ جس سے وہ اچھا کھا اور اچھا پہن سکیں۔ مزدوروں کے اوقات کار ان کی طاقت اور استعداد کے مطابق ہونے چاہئیں۔ ایسا سخت اور مشقت والا کام کرنے کو نہ کہا جائے جو ان کیلئے کرنا مشکل ہو بصورت دیگر ان کی مدد کی جائے یعنی یا خود مدد کرے یا دوسرے افراد کے ذریعے اس کی مدد کی جائے۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ ہمارے ملک سمیت دیگر مغربی و اسلامی ممالک میں رائج نظام معیشت اسلام کے سنہری اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا، بلکہ یہ سرمایہ داروں کا ایجاد کردہ وہ بدبودار نظام ہے جس کی عمارت سود، رشوت اور چور بازاری کی بنیاد پر قائم ہے۔
اگر آج ہم نے اس نظام سے پیچھا نہ چھڑایا تو ہم غربت کی دلدل سے نکل نہیں پائیں گے، ہمارا مزدور لٹتا رہے گا اور امیر حکومت کرتا رہے گا۔ تمام طبقات کو اس استحصالی اور جابرانہ نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہو گی۔ اور قرآن و سنت کے بیان کردہ نظام معیشت کو اپنانا ہو گا اسی بغاوت کی طرف علامہ اقبالؒ نے اپنے اشعار میں اشارہ کیا ہے۔۔۔
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے درو دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو





