Column

زبان

تحریر : علیشبا بگٹی
مغل شہزادے جہانگیر نے ایک دن اپنی نجی محفل میں ایک خواجہ سرا کو فارسی میں گدھا کہہ دیا۔ بادشاہ تک بات پہنچنے پر شہزادے کی دربار میں طلبی ہوئی۔ تو اس نے اپنے جرم کو تسلیم کرتے ہوئے زبان پھسلنے کا عذر پیش کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ بادشاہ اور کمہار میں فرق ہونا چاہیے۔ اگر آپ کو اپنی دو تولے کی زبان پر قابو نہیں ہے۔ تو لاکھ کوس وسیع سلطنت پر کیسے قابو رکھو گے؟ بادشاہت زبان سے شروع ہوتی ہے اور زبان پر ہی ختم ہوتی ہے۔
کہتے ہیں کہ زبان کا نشتر لوہے کے تیز تلوار سے زیادہ گہرا زخم کرتا ہے۔ کیونکہ تلوار کا زخم تو بھر سکتا ہے، مگر زبان کا زخم کبھی بھی نہیں بھرتا اور نہ کبھی بھولتا بھی ہے۔ کسی نے کہا جب میں کوئی لفظ زبان سے نکالتا ہوں تو اس کے اختیار میں ہو جاتا ہوں پھر وہ میرے اختیار میں نہیں رہتا، اور جب تک وہ لفظ زبان سے نہیں نکالتا۔ اس وقت تک وہ میرے اختیار میں رہتا ہے۔ زبان انسان کا راز فاش کرتا ہے۔ جب ایک انسان کسی سے مخاطب ہوتا ہے، تو وہ حقیقت میں اس سے نہیں، بلکہ اس کے ذہن سے مخاطب ہوتا ہے۔ اور ساتھ اپنی ذہنیت بھی بتا رہا ہوتا ہے۔ یہ زبان ہی شخصیت کی پہچان کرانے میں بہتر رہنمائی بھی کرتی ہے۔ اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے۔ کہ زبان میں الفاظ ہی اہم نہیں ہوتے، بلکہ لہجہ اور بولنے کا انداز بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ زبان اتنی اہم ہے کہ ایک فقرہ انسان کا خاندان اُس کی پوری تاریخ تعلیم تربیت اور تہذیب کو بیان کر دیتا ہے۔ اسی لیے حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ’’ کلام کر تاکہ پہچانا جائے‘‘۔ انہوں نے ہی کہا کہ ’’ آدمی کی قابلیت زبان کے نیچے پوشیدہ ہے‘‘۔ کہا گیا اور لکھا گیا ہر لفظ انسان کے علم، کم علمی یا جہالت کا ثبوت مہیا کرتا ہے۔ اس کے مہذب یا غیر مہذب ہونے کی شہادت فراہم کرتا ہے۔ اس کی محبت اور اس کی نفرت کو بیان کرتا ہے۔ اس کے تعلق اور بے تعلقی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی امیدوں اور اس کی مایوسیوں کو آشکار کرتا ہے۔ چنانچہ علم رکھنے والے ایک فقرے سے بھی انسان کو پہچان جاتے ہیں۔
انسان کی جانوروں پر سب سے بڑی فضیلت یہ ہے۔ کہ وہ زبان کا استعمال کرتا ہے، انسان اسی زبان کی وجہ سے حیوان پر فضیلت رکھتا ہے۔ انسان اور جانور میں یہی فرق ہے۔ انسان اپنے دماغ کا استعمال کرکے اپنی زبان چلا سکتا ہے۔ اگر ہم وہ بھی نہیں کر سکتے ناں تو ہم نے اپنے آپ کو جانور مان لینا چاہیے۔ زبان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ مگر اِس کو سنبھال کے استعمال کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ زبان وہ عضو ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی سوچ اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کے ذریعے اپنے جذبات و خیالات اپنے ساتھیوں تک پہنچاتا ہے۔ یعنی زبان خیال کے ساتھ ساتھ جذبے کی بھی ترسیل کرتی ہے۔ انسان کی لسانی اہلیت صرف شعر و ادب یا فکر و فلسفے کو سمجھنے کے حوالے ہی سے اہم نہیں۔ بلکہ اخلاق سے تمیز سے بات کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہے۔ کیونکہ زبان صرف الفاظ کے برسات بولنے کا نام نہیں، بلکہ شائستگی اور معنوی اعتبار سے الفاظ کی اہمیت بھی معلوم ہو۔ اور بولنے کا انداز بھی معلوم ہو۔ دنیا میں لاکھوں ’’ خطیب‘‘ یا مقرر موجود ہیں۔ اور جب کہ اصل خطیب وہ ہے۔ جس کی بات دل میں اتر جائے۔
انسان اسی زبان کی وجہ سے باعزت مانا جاتا ہے۔ اور اسی کی وجہ سے ذلت و رسوائی کا مستحق بھی ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ غلطیاں انسان زبان سے ہی کرتا ہے۔ لہٰذا عقلمند لوگ اپنی زبان کو سوچ سمجھ کر اور اچھے طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ زبان کو غلط اور بری باتوں سے بچا کر اچھے طریقے سے استعمال کرنا زبان کی حفاظت کہلاتا ہے۔ ہمارے دین اسلام میں زبان کی حفاظت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ لوگوں سے اچھے طریقے سے بات کرنا‘‘۔ ( سورۃ البقر، آیت نمبر 83)۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے‘‘۔ ( مومنون ) ۔۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’ بد زبانی‘‘ دوزخ کی راہ دکھاتی ہے۔
حضرت سیدنا ابوایوب انصاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریمؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی: مجھے کوئی مختصر نصیحت فرمائیے۔ سرورِ کونینؐ نے فرمایا: ’’ جب تم اپنی نماز کے لئے کھڑے ہو تو رخصت ہونے والے کی سی نماز پڑھو، اور کوئی ایسی بات نہ کرو، جس کے بارے میں بعد میں معذرت کرنی پڑے‘‘۔۔ حضرت عمرؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ نیکی ایک آسان عمل ہے اور وہ یہ کہ خندہ پیشانی سے پیش آئو اور نرم گفتگو کرو۔ زبان قلوب و اذہان کی ترجمان ہے، اس کا صحیح استعمال حصول ثواب کا ذریعہ اور کامیابی کا سبب ہے۔ ایک کامل مومن مسلمان کی اہم صفات میں سے ایک یہ ہے، کہ وہ رب العالمین اور اس کے محبوبِ کریم خاتم النبیینؐ کی محبت اپنے دِل میں سماتے ہوئے ہر وقت اور ہر ہر لمحہ اپنی زبان کو ذکر ِ خیر سے تَر و تازہ رکھتا ہے۔ انسان کی خوبیاں و خامیاں اُس کے اندازِ کلام میں چھپی ہوئی ہیں۔ زبان چونکہ ایک عظیم نعمت ِ خداوندی ہے اور قاعدہ ہے کہ تمام نعمتوں کو اسی طرح استعمال کرنا ضروری ہے جس طرح اِستعمال کرنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے، ورنہ نعمت کا غلط استعمال، نعمت کی ناقدری اور ناشکری کے زُمرے میں آتا ہے جو عذابِ شدید کا موجب ہے۔ زبان کی حفاظت کے حوالے سے رسول کریم خاتم النبیینؐ کا یہ فرمان بڑی اہمیت کا حامل ہے، ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ خیر بھلائی کی بات کہے ورنہ خاموش رہے‘‘۔ یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ اِس حدیث مبارکہ میں زبان کو ہاتھ پر مقدم اِس لیے رکھا گیا کہ اتنی اذیت کے کام ہاتھ سے نہیں ہوتے جتنے زبان سے ہوتے ہیں۔ سرکشی، بے دریغی اور سب سے زیادہ فساد و نقصان اِسی عضو’’ زبان ‘‘ سے رونما ہوتے ہیں۔ لہٰذا زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے، اور اس پر کنٹرول کرنے کے لیے بڑی کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ زبان کی حفاظت اور اس کا صحیح استعمال یہ ہے کہ جو لفظ بھی زبان سے نکالیں، اس کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے، خوب سوچ سمجھ کر نکالیں، بات کہیں تو سچی اور اچھی کہیں، ورنہ کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے۔ زبان کی حفاظت، جنت کی ضمانت ہے۔ آدمی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا۔ جب تک اس کا دِل سیدھا نہ ہو اور دِل اُس وقت تک سیدھا نہیں ہوتا جب تک زبان سیدھی نہ ہوجائے۔ حفاظت زبان سے اعمال صالحہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ زبان کی حفاظت کرنے والا دنیاوی آفات اور آخروی عذاب سے محفوظ رہتا ہے۔ بدزبانی بہت دفعہ بڑے بڑے فتنوں اور فساد کا ذریعہ بنتی ہے اور اِن کا خمیازہ بعض اوقات دنیا میں ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ عارفین کے ہاں ایک کہاوت معروف ہے کہ ’’ جب نیک کام میں مشغولیت ہو تو گناہ خود بخود ختم ہوجاتے ہیں‘‘ ۔۔۔ تو زبان کے بھی ایسے نیک اعمال و مشاغل ہیں جن میں مشغول ہونے سے زبان آفات سے محفوظ ہوجاتی ہے، اِن میں سے چار بڑے اعمال یہ ہیں
1۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر
21۔ اللہ تعالیٰ کا شکر
3۔ تلاوتِ قرآن
4۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
نیز زبان کی شر و آفات سے بچنے کے لیے خاموشی سے بہتر کوئی چیز نہیں اور یہ عقل مندی کی نشانی بھی ہے۔ کیوں کہ عقل مند سوچتا زیادہ اور بولتا کم ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں، ’’ پہلے تولو، پھر بولو‘‘ ۔
بد زبانی بہت بری عادت ہے کہ جس میں یہ عادت پائی جاتی ہے، پھر لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں، وہ شخص دوسروں کی نظر سے گر جاتا ہے، سب اُس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اور ملنا پسند نہیں کرتے۔ امام ابو محمد غزالیؒ اپنے مشہور زمانہ تصنیف ’’ احیاء العلوم‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ زبان کو غلط حرکت دینے سے بیس بڑے بڑے گناہ وجود میں آتے ہیں، جن میں جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان، الزام تراشی، فضول بحث، فحاشی، گالم گلوچ، پُرتکلف مصنوعی گفتگو، لعن طعن، گانا بجانا، دوسروں کا مذاق اڑانا، وعدہ خلافی کرنا، دوسروں کے راز فاش کرنا، دوسروں کی چاپلوسی کرنا اور خوشامد کرکے ان کی تعریف کرنا، دینی معاملات میں غیر محتاط گفتگو کرنا شامل ہیں۔ یہ سب بڑے گناہ زبان کو حرکت دینے اور بولنے سے وجود میں آتے ہیں۔ جبکہ زبان پر قابو پانے اور خاموش رہنے میں ان سب گناہوں سے نجات ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے الفاظ کی ان تمام آفات سے حفاظت کرے۔ جس میں مفت کا گناہ ملتا ہے۔
زبان بے شک اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جس کا شکر ہم زندگی بھر کما حقہ ادا نہیں کر سکتے، مگر ہم نے اس بے مثال نعمت کی قدر نہیں کی۔ بلکہ اس کے برعکس اس کے ذریعے ہم نہ جانے کیسے کیسے غیر شرعی کام کر لیتے ہیں۔ اور نہ جانے کتنے گناہ کما لئے ہیں۔ بلا شک زبان اور بولنے کی صلاحیت قدرت کا مفت عطا کردہ بیش قیمتی تحفہ ہے۔ مگر وہیں زبان کی عطا اور بولنے کی صلاحیت پر ہر وقت قدرت کا شکر ادا کرنے کی بجائے اسی زبان کے ذریعے صرف شکوہ شکایت ہے۔ جبکہ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایا کہ زبان کو شکوہ سے روکو، خوشی کی زندگانی عطا ہوگی۔
اور اسی زبان سے انسان کے پیدا ہونے والے گناہوں نے بھی معاشرے میں اپنے قدم جما رکھے ہوئے ہیں۔ جس کے نتائج سے معاشرے میں نکھار کی بجائے تخریب کاری اور ایک دوسرے سے نفرت و دوری کی وبا پھیل رہی ہے، جو معاشرے کو سانپ کی طرح ڈس رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر و اسلاف زبان کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ جب تک کوئی ضرورت یا حاجت داعی نہ ہوتا۔ تو بلاوجہ بولنے سے پرہیز کرتے تھے۔ اور آجکل لوگ تو بس بلا وجہ بولے ہی جاتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ کا فرمان ہے: ’’ جس نے اپنی زبان کی حفاظت نہ کی اس نے دین کو نہیں سمجھا‘‘۔
امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’ اے عزیز معلوم ہونا چاہیے کہ زبان عجائبات صفات الٰہی میں سے ہے، اگرچہ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ لیکن حقیقت میں جو کچھ موجود ہے وہ سب کچھ اس کے تصرف میں ہے، کیوں کہ وہ موجود و معدوم دونوں کا بیان کرتی ہے، زبان عقل کی نائب ہے اور عقل کے احاطے سے کوئی چیز باہر نہیں ہے اور جو کچھ عقل و وہم اور خیال میں آتا ہے، زبان اس کی تعبیر کرتی ہے‘‘۔
حضرت ابراہیم بن ادہم کہتے ہیں کہ آدمی مال اور کلام کی زیادتی سے تباہ ہوتا ہے۔ بو علی سینا نے کہا: شیریں زبان دنیا کی بہترین چیز ہے۔۔۔۔۔ بدگوئی بد کلامی اور بکواس یہ زبان کے گناہ ہیں۔ پرندے اپنے پائوں کے باعث دام میں پھنستے ہیں اور انسان اپنی زبان کے باعث۔ اور اپنی زبان کا ہمیشہ درست استعمال کریں کیوں کہ بسا اوقات انسان زبان کی وجہ سے ایسی مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جن سے نکلنا امر مشکل ہوجاتا ہے۔ اور ان کی وجہ سے زندگی میں موجود سکون بے سکونی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ انسان کی نجات یا گرفت اُس کی زبان کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ یعنی وہ اپنے الفاظ سے بچ بھی سکتا ہے اور پھنس بھی سکتا ہے۔
قرآنی آیات کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا ایک ایک بول محفوظ ہے۔ اور روزِ قیامت اِن سب کا حساب دینا پڑے گا۔ اگر انسان یہ سوچے کہ مجھ سے ہر لفظ کا محاسبہ کیا جائے گا۔ اور زبان ایک جال ہے جو گناہوں کے دلدل میں پھنسا سکتا ہے۔ تو پھر انسان کبھی فضول بات نہیں کرے گا۔ یہ زبان ہی انسان کے جنت اور جہنم میں جانے کا سبب ہے۔

جواب دیں

Back to top button