Column

واٹس ایپ صحافت، اقدمات ناگزیر!

تحریر: رائو غلام مصطفیٰ
صحافت کی ایک اصطلاح جسے’’ زرد صحافت‘‘ کہا جاتا ہے۔ اخباری رپورٹنگ کا ایک انداز تھا جس میں حقائق کے برعکس خبر کو سنسنی بنا کر پیش کیا جاتا تھا۔ ایسی خبریں جو بہتر طریقے سے رپورٹ شدہ خبروں کو پہنچانے کے بجائے لوگوں کی توجہ مبذول کرنے پر مرکوز ہوں ایسی طرز صحافت کو زرد صحافت کہا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں کسی بھی خبر، تصویر یا ویڈیو کو فوری طور پر لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ واٹس ایپ ہے۔ واٹس ایپ اس وقت دنیا میں کروڑوں صارفین استعمال کرتے ہیں۔ واٹس ایپ کو ایک بزنس مین، بیوروکریٹس سے لے کر بس ڈرائیور حتی کہ ایک مزدوری کرنے والا شخص بھی استعمال کرتا ہے۔ واٹس ایپ صحافت کے ظہور نے بلاشک و شبہ صحافت کے شعبہ اور تصورات کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات اور ان سے مرتب ہونے والے نتائج نے اطلاعات عامہ کے توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ادارہ جاتی اعداد و شمار سے مرضی کے حصوں کو استعمال کرنا، جعلی تصاویر اور تحریف شدہ دستاویزات کو شیئر کرنا اب عام ہے۔ یہ نام نہاد واٹس ایپ گروپ کسی نہ کسی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے دانستہ طور پر جھوٹی بے بنیاد اور غلط معلومات کے ذریعے منفی پراپیگنڈے میں مصروف کار نظر آتے ہیں۔ ان گروپوں کے خود ساختہ صحافی کسی بھی خبر کا تناظر تبدیل کر کے عوامی رائے عامہ کو یرغمال بناتے اور یوں ایک متعصبانہ منظر نامہ کھڑا کر کے اپنے آقائوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہیں۔
اس سماجی لعنت کے پیچھے پورا ایک نظام ایک طریق کار کارفرما ہے۔ کسی بھی خود ساختہ صحافی کی طرف سے ایک ادھورے سچ پر مبنی یا تحریف شدہ خبر شیئر کی جاتی ہے اور پھر یہ مواد باقی اراکین بنا سوچے سمجھے برقی میڈیا یا اخبارات کے ذریعے دھڑا دھڑ پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح کی جھوٹی اور بے بنیاد خبروں اور بیانات کو ایسے گروپوں کے ذریعے پھیلانے والے لوگ عام طور پر کسی تادیبی کاروائی سے اس لئے بچ جاتے ہیں کیونکہ اس طرح کی کارروائیوں کے سد باب کے لئے کوئی باقاعدہ قانون موجود نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے بعد پچھلے چند سالوں میں صحافیوں کی ایک نئی کھیپ متعارف ہوئی ہے جو نہ صرف تعلیمی بلکہ اخلاقی لحاظ سے بھی صحافت کی الف،ب سے ناواقف ہے۔ اہلیت اور قابلیت کا ان برساتی واٹس ایپ صحافیوں کا معیار یہ ہے کہ کسی کی بھی پگڑی اچھالنے میں اخلاقی گراوٹ کی حد عبور کرنے میں فخر سمجھتے ہیں۔ واٹس ایپ گروپوں میں موجود صحافیوں کی تعلیمی استعداد کا جائزہ لے لیں اردو بھی نہ ٹھیک سے بولنا آتی ہے اور نہ ہی لکھنا جانتے ہیں۔ ایسی نام نہاد خود ساختہ صحافت سے جڑے یہ افراد صحافت جیسے مقدس پیشہ پر ایک سیاہ دھبہ ہیں۔ جن کا مقصد صحافت نہیں بلکہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ یہ صحافی نما لوگ مختلف مضحکہ خیز ڈمی اخبارات کے ذریعے واٹس ایپ پر عجیب و غریب ناموں سے گروپ بنا کر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے لوگوں کو بلیک میل کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسی طرز صحافت کے حامل یہ صحافی نما لوگوں کا ٹارگٹ پولیس کے افسران اور ملازمین ہوتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ پولیس کا محکمہ ہی ایسا ہے جہاں انکوائری سے پہلے سزا سنائی جاتی ہے۔ اگر ان کی من گھڑت خبر سے کوئی پولیس ملازم معطل ہو گیا تو سمجھیں ان صحافی نما لوگوں کی ویلیو بڑھ گئی۔ پولیس کے افسران اور ملازمین ان جیسے صحافی نما لوگوں سے بہتر تعلقات رکھنے کے لئے ہفتہ یا مہینہ وظیفہ بھی مقرر کر دیتے ہیں۔ایسے صحافی کسی بھی علاقے میں ہونے والے جرم کی ادھوری خبر کو سنسنی خیز بنا کر گروپوں میں پہلے وائرل کرتے ہیں اور ساتھ لکھ دیتے ہیں تفصیل جلد جاری کی جائے گی اگر متعلقہ محکمہ خبر وائرل کرنے والے صحافی سے رابطہ کر لے تو پھر وہ خبر کبھی شائع نہیں ہوتی۔ آپ گروپوں میں اکثر دیکھتے ہوں گے کہ کسی پولیس افسر کی تعیناتی پر دبنگ، کرائم فائٹر، ایماندار وغیرہ لکھا ہوتا ہے اور اس پولیس افسر کو ایسے تعریفی القابات سے نواز کر علاقہ کے پولیس سٹیشن میں خوش آمدید کہا جاتا ہے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے صحافی کے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں۔ محکموں میں اچھے، برے کردار کے حامل افسران اور ملازمین ہوتے ہیں لیکن جو اچھے کردار کے حامل ہوتے ہیں وہ ان جیسے صحافیوں سے نہیں ڈرتے۔ ایسی صحافت کو ’’ زرد صحافت‘‘ نہیں بلکہ(Black Journalism)کہنا چاہئے کیوں کہ ایسی صحافت کا مقصد اپنی خبر کو بیچنا اور گروپ فالوونگ بڑھانا مقصود ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسے جعلی صحافیوں کی بھر مار ہے ۔ اس لعنت سے چھٹکارا پانے کے لئے حکومت کو مختلف زاویوں سے ایک مربوط اور منظم پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ سماجی میڈیا کی تہذیب و اصلاح کے لئے قوانین وضع کئے جائیں اور انہیں لاگو کیا جائے۔ جو افراد قومی اداروں، تنظیموں اور شخصیات کو نشانہ بنانے کے لئے اُن کے خلاف پراپیگنڈا کرنے یا جھوٹی خبروں اور من گھڑت قصوں کو پھیلانے میں ملوث پائے جائیں اُن کے خلاف تادیبی قانونی کاروائی کرنے کے لئے ایک قانونی ڈھانچہ اور طریق کار وضع کیا جائے۔ تاکہ ایسے عزائم رکھنے اور ایسی کارروائیاں کرنے والے افراد کو جواب دہ قرار دیا جا سکے۔ مزید برآں ایسے پلیٹ فارمز پر خفیہ قومی دستاویزات شیئر کرنے والے افراد کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کاروائی کی جا سکے۔ گزشتہ چند دن قبل وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے برطانوی ہائی کمیشن کی پولیٹیکل قونصلر مس ذوئی وئیر سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر سب سے بڑا چیلنج جعلی خبریں ہیں صحافیوں کو سوشل میڈیا پر تصدیق کے عمل کو اپنانا چاہئے۔ المیہ ہے حکومت کو جب خود ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسے بیانات دے کر اس کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا پر بے بنیاد صحافت کرنے والے ایسے لوگوں کے سامنے روک لگانے کے لئے ضروری عملی اقدامات نہیں کرتے۔ واٹس ایپ گروپوں میں جن لوگوں کے پاس ڈمی اخبارات نہیں ہیں وہ فرضی جرنلسٹ تنظیموں ( جو صرف ٹائٹل کی حد تک محدود ہیں) کے عہدہ دار بن جاتے ہیں اور واٹس ایپ گروپوں میں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اس وقت اشد ضرورت ہے حکومت خود ساختہ واٹس ایپ صحافت پر قانون سازی کے ذریعے قدغن لگائے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طور دراز ہوتا رہا تو جہاں حکومت کو منفی صحافت کا سامنا کرنا پڑے گا وہیں معاشرے پر اس کے بد اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ تجربات میں چیزیں سامنے آئی ہیں بہت معمولی واقعہ کی بھی خبر اور ویڈیو وائرل کر دی جاتی ہے کیوں کہ واٹس ایپ استعمال کرنے والے نووارد صحافی نوے فیصد کسی تصدیق کے بغیر ویڈیو یا میسج فارورڈ کر دیتے ہیں۔ اس پر روک لگانے کے لئے صرف بیانات کی حد تک حکومت کو محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ سوشل میڈیا کے بے جا اور منفی استعمال کو روکنے کے لئے قانون سازی کر کے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے۔

جواب دیں

Back to top button