Column

خلائی جہاز میں کائو بوائز

تحریر : محمد رائد خاں
دنیا بہت تیزی سے بدلتی جارہی ہے اور اس تیز بدلتی دنیا کے آپ سنگین مسائل ہیں کہ جن کی پاداش میں ہی زیر نظر مضمون رقم کیا جارہا ہے۔ لیکن مذکورہ ’’سنگین مسائل‘‘ کی چھان پھٹک کرنے اور ان کے اسباب و سدباب جانچنے سے پہلے مضمون کے عنوان پر کچھ سطریں لکھ دینا ناگزیر ہے۔
خلائی جہاز میں کائو بوائز بظاہر تو یہ عنوان کسی ہالی ووڈ فلم کا ٹائٹل محسوس ہوتا ہے لیکن دراصل یہ کرہ ارض پر ہم انسانوں کے رہن سہن، اصراف اور طرز زندگی کی بالکل صحیح عکاسی کرتا ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ ہم انسان اس کرہ ارض پر (جس کے وسائل محدود ہیں) کے بے دریغ استعمال بلکہ انہیں نچوڑنے میں مصروف عمل ہیں۔ ماحولیات اور ارضیات کی جدید تحقیقات نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ زمین کے وسائل، جنہیں ہم لامحدود اور کبھی نہ ختم ہونیوالا سمجھتے ہیں، دراصل تیزی سے سکڑ رہے ہیں جبکہ انسانی آبادی و اصراف کی دن بدن بڑھتی شرح سے ہی زمین کے وسائل میں تیز کمی آرہی ہے اور وہ وقت دور نظر نہیں آتا کہ جب زمین اپنے وسائل سے کلی طور پر خالی ہوجائے گی اور ہم انسانوں کیلئے یہ سیارہ جو ایک ’’وشال سورج‘‘ کے گرد گھوم رہا ہے، محض ایک وسیع بنجر میدان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھے گا۔
البتہ، کچھ حلقوں کی جانب سے یہ طرز فکر اپنایا جاتا ہے کہ دنیا کے وسائل لامحدود ہیں، مثلاً زمین اس قدر بڑی ہے کہ بڑھتی آبادی کی بھوک پیاس کو بجھانے کیلئے کافی ہے اور دنیا کی وسیع و عریض زرخیز زمینوں پر کھیتی باڑی کرکے اناج وافر مقدار میں اگایا جاسکتا، جس سے آئندہ کئی صدیوں تک فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے لیکن شاید یہ حضرات اس سوال کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ کیا اصراف اور ماحولیاتی تبدیلی کی موجودہ صورتحال کے پیش نظریہ دنیا آنے والی صدیوں یا دہائیوں میں اناج اگانے کے قابل بھی ہوگی یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ’’آئیں بائیں شائیں‘‘ میں گول کر دیا جاتا ہے۔
الغرض، تاریخ انسانی کے گزشتہ و دیرینہ ابواب میں انسانی آبادی اور اشرافیہ کا اصراف اس قدر نہ بڑھا تھا کہ جس سے کرہ ارض کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہو لیکن اکیسویں صدی میں انسانوں کی بڑھتی آبادی اور اشرافیہ کے کبھی نہ ختم ہونیوالے اصراف سے زمین پر بوجھ اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ زمین کا اسے سنبھال پانا ناممکن ہے۔ انسانوں کی کل آبادی تقریباً 8ارب کے قریب پہنچ چکی ہے، ساتھ ہی ساتھ اصراف کا بھی یہ عالم ہے کہ آج محض ایک عام کروڑ پتی اتنا صَرف ( خرچ، ضیاع) کرتا ہے جتنا کبھی مصر کے فراعنہ و عراق کے نمائردہ نے نہ کئے ہونگے۔
یہی وجہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہمیں برباد کرتی جارہی ہے جبکہ ہم اس کا حل تلاش کرنے کے بجائے، اسے مزید بڑھاوا دینے میں مشغول ہیں۔ گلیشیرز پگھل رہے ہیں اور ان کے پگھلنے سے سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے اور یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ مجموعی طور پر دنیا میں گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے جو ناصرف جز وقتی مسائل کو سامنے لاکھڑا کر سکتی ہے بلکہ کسی عظیم تباہی و بربادی کا بھی پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ اسی طرح کاربن کے اضافی اخراج کی وجہ سے بھی اوزون شدید متاثر ہورہی ہے اور اس شدید گرمی اور خطرناک و جان لیوا تابکاری کو بھی کرہ ارض میں داخل ہونے کی اجازت دے رہی ہے جو ناصرف انسانی زندگی بلکہ کل حیات کیلئے تباہ کن ہوسکتی ہے اور ماحولیاتی تباہی کا بھی سبب بن سکتی ہے، بلکہ بن بھی رہی ہے۔
دبئی میں عالمی کلائمٹ سمٹ 2023سے قبل شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی دنیا کی معیشت کو اربوں کا نقصان پہنچا رہی ہے اور ترقی پذیر ممالک کو سب سے زیادہ متاثر کر رہی ہے۔ یہ رپورٹ امریکہ کی ڈیلاویئر یونیورسٹی نے شائع کی۔ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایسی موسمیاتی تبدیلیاں جن کی وجہ انسان ہیں یا جو’’ ہیومن کاز‘‘ کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں، ان کے اثرات نے سال (2022میں) عالمی اقتصادی پیداوار میں 6.3فیصد کمی پیدا کی ہے۔ یہ اندازہ دنیا کی تمام آبادی کو ملحوظ رکھتے ہوئے لگایا گیا۔ یہ اعدادوشمار موسمیاتی تبدیلی کے دونوں براہ راست نتائج یعنی زراعت اور مینوفیکچرنگ میں رکاوٹ اور زیادہ گرمی سے پیداوار میں کمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیز عالمی تجارت اور سرمایہ کاری پر پڑنے والے اثرات کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے۔ ڈیلا ویئر یونیورسٹی کی اس اسٹڈی کے مرکزی مصنف جیمز رائزنگ کا کہنا تھا ’’موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کو کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس کا زیادہ تر بوجھ غریب ممالک پر پڑا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ معلومات ان چیلنجوں کو واضح کر سکتی ہیں، جن کا سامنا بہت سے ممالک کو پہلے سے ہی ہے اور ان سے نمٹنے کیلئے انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے‘‘۔
اگر موسمیاتی تبدیلی میں ایک عام فرد کی وجہ سے پڑنے والے اثرات کو مدنظر رکھا جائے تو 2022ء میں عالمی جی ڈی پی کو موسمیاتی تبدیلی کے سبب 1.8فیصد کا یا تقریباً 1.5ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچا تھا۔ ان اعدادوشمار کے درمیان پایا جانے والا فرق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی غیر مساوی تقسیم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کم آمدنی والے ممالک اور زیادہ آبادی اور کم جی ڈی پی کے حامل خطوں میں خاص طور سے نظر آتے ہیں۔ سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کو آبادی کے لحاظ سے جی ڈی پی میں 8.3فیصد کے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا، جس میں جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی افریقہ کے ممالک خاص طور پر متاثر ہوئے۔ ان خطوں کے ممالک کو بالترتیب اپنی جی ڈی پی کے 14.1فیصد اور 11.2فیصد کا نقصان ہوا۔ دوسری جانب کچھ ترقی یافتہ ممالک جن کا تعلق یورپ سے ہے، کم سردیوں یا سردی کی کم شدت والے موسم سرما کے سبب گزشتہ سال جی ڈی پی میں تقریباً پانچ فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم مذکورہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اس طرح کے فوائد عارضی ہوسکتے ہیں کیونکہ بہت گرم موسم گرما ہلکی سردی کے مثبت اثرات پر حاوی آ سکتا ہے۔
گزشتہ سال (2023)مصر میں ہونے والے سی او پی 27کے مذاکرات میں تمام ممالک نے موسمیاتی آفات اور شدید موسم کے نقصان سے نمٹنے کے لیے کمزور ممالک کی مدد کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا گیاتھا۔ تیس نومبر سے دبئی میں شروع ہونے والے عالمی ماحولیاتی سمٹ کے مذاکرات میں مرکزی اہمیت اسی موضوع کو حاصل رہی کہ اس فنڈ میں کون سا ملک کتنی رقم دینے پر آمادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک نے گزشتہ 30سال میں سرمائے اور جی ڈی پی میں مجموعی طور پر 21 ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے، جو کہ ترقی پذیر دنیا کے 2023ء کی کل جی ڈی پی کا نصف ہے۔
بہرحال، دنیا کے اقتصادی و سیاسی پس منظر کو سامنے رکھ کر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری پالیسیاں ماحول دوست تو کجا ماحول کی تباہی کا سبب بنتی ہیں۔ عالمی جمہوریتوں اور حکومتوں کا رہن سہن اور اس تباہی پر ردعمل بالکل کسی کائو بوائے جیسا ہے جو کسی کھلے میدان میں رہتا ہے جہاں زمینی وسائل کی بھرمار ہوتی ہے اور آبادی بھی کم ہی ہوتی ہے، اس لئے وسائل کا بے دریغانہ استعمال کسی پریشانی کا باعث نہیں ہوتا اور اسکے وہم و گمان میں نہیں آتا کہ یہ وسائل ختم ہوسکتے ہیں اور میں بھوک، پیاس یا پھر کسی دوسری آفت سے مر بھی سکتا ہوں۔ دنیا بھر کی تمام حکومتوں کی ماحولیاتی پالیسی اسی ’’کائو بوائے‘‘ والے مفروضے کی بنیاد پر قائم ہے۔
جبکہ زمین کی حالت یہ ہے کہ یہ ایک خلائی جہاز ہے جس کے وسائل محدود ہیں اور جو خلا کی وسعتوں میں اپنے محور کے گرد زیر گردش ہے۔ بجائے اس کے ہمیں اپنی پالیسیاں ایسی بنانی چاہئیں کہ جیسے ہم کسی خلا نورد کی طرح کسی خلائی جہاز میں سفر کر رہے ہیں۔ بلکہ ہمارے سارے اقدامات اور نظریات ’’ کائو بوائے‘‘ کی سوچ کے غماز ہوتے ہیں۔ اسی سوچ کے پیش نظر ہم اس دہانے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ترقی اور ٹیکنالوجی کے پہیے کو ماحول دوست پالیسیز کی جانب نہیں پھیرا گیا تو پھر ہم اپنی تباہی کو آپ دعوت دیں گے اور انسان اپنی معدومیت کے خود ذمہ دار ہونگے۔
ایک بات جو بیان کرنا ناگزیر ہے، وہ یہ ہے کہ کائو بوائے سوچ کے معمار دراصل ’’کارپوریٹ مفاد‘‘ کے حامی ہیں، جن کا کاروبار ہی زمین کے وسائل کو نچوڑنے سے پھلتا پھولتا ہے۔ اسی لئے وہ کیسے کسی ایسی پالیسی کو نافذ ہونے دے سکتے ہیں جو انکے مفادات کیخلاف ہو؟ پوری دنیا پر بڑی بڑی کارپوریشنوں کی حکمرانی ہے جو حکومتی پالیسیوں کو اپنی من مرضی سے بدلواتی ہیں اور جمہوریتوں کو اپنے مطابق چلاتی ہیں۔ گویا یہ کارپوریشنز، عالمی مافیاز کے روپ میں کام کرتی ہیں اور یہی عالمی سرمایہ داریت، سامراج کی بدترین شکل ہے۔

جواب دیں

Back to top button