Column

سیاست سیاست کا کھیل اور میڈیا

تحریر : آصف علی درانی
آج کل پاکستانی میڈیا پر صرف ایک موضوع پر بحث ہوتی ہے۔ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ہر بندہ صرف سیاست پر گفتگو کر رہا ہوتا ہے ۔ یہ بھی پاکستانی میڈیا کی ایک تاریخ ہے کہ اس میں صرف اور صرف سیاست پر ہی بات ہوتی ہے۔ پاکستان میں آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد کیا گیا، اس کے بعد میڈیا پر سیاسی تجزیے اور تبصرے زور و شور سے شروع ہوگئے۔ اگر دیکھا جائے تو میڈیا کا کام یہی ہے کہ وہ لوگوں کو معلومات فراہم کرے ان کو باخبر رکھے۔ پاکستانی میڈیا کی ایک تاریخ ہے کہ اس میں زیادہ تر سیاست پر بات چیت ہوتی ہے لیکن سیاست کے علاوہ بھی بہت سے ایسے موضوعات ہیں کہ جن پر بات کرنا میڈیا کا کام ہے، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی میں مغربی ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ اکیسویں صدی میں ہم آج بھی باہر ممالک سے سائنس و ٹیکنالوجی میں مدد حاصل کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان بھی ان ممالک کا مقابلہ کرتا۔ اگر نوجوان نسل کی بات کریں تو وہ اپنی تعلیم سے زیادہ سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں، سیاست پر بحث کرتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ کیونکہ میڈیا پر ہر وقت سیاست سیاست کا کھیل نشر ہورہا ہوتا ہے۔
سیاست پر بحث کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان عام زندگی میں بھی سیاست پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں اور آج کل کے جو حالات ہیں اس میں تو ہماری نوجوان نسل ہر جگہ چاہے گلی ہو یا محلہ یا گائوں کی دکان، ہر جگہ چار پانچ لوگ کھڑے ہوکر سیاسی گفتگو کرتے ہوئے آپ کو دیکھنے کو ملیں گے۔ ایک بندہ ایک سیاستدان کے حق میں تو دوسرا اس کیخلاف بولتا ہوا آپ کو دکھائی دے گا۔
اگر اسی سیاست کے بجائے سائنس و ٹیکنالوجی، لٹریچر، فلسفہ اور ادب پر بات ہوتی تو آج کی ہماری نئی نسل کا رجحان بھی اسی طرف ہوتا، یہی وجہ ہے کہ آج اگر ہماری اسی نئی نسل کے سامنے غالب یا کسی دوسرے شاعر کا ایک شعر رکھ دیں تو وہ اس کی تشریح تو کیا اس کو صحیح طریقے سے پڑھ بھی نہیں پائیں گے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی ان سے یہ پوچھے کہ پاکستان کا قومی پھول کونسا ہے یا ذائدا نہیں صرف چھ شعراء کا نام پوچھے تو ان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا، ہمارے یہ نوجوان سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک جیسی آن لائن ایپس کو بخوبی جانتے ہیں۔ بارہ سال کا بچہ بھی یہ تو سمجھتا ہے کہ ٹک ٹاک کیسے استعمال کرنا ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہمارا قومی شاعر کون تھا، میں تعلیم کیوں حاصل کر رہا ہوں اور ایسے لاتعداد چھوٹے چھوٹے بنیادی سوالات جس سے یہ بارہ سال کا بچہ لاعلم ہوتا ہے۔ تو اس میں قصور صرف ایک بندے کا نہیں بلکہ والدین، معاشرہ، ماحول، میڈیا یہ سب قصوروار ہیں۔ جس طرح میں نے سیاست سے بات شروع کی تھی تو اگر اسی میڈیا کے ذریعے بچوں کو کارٹون یا ڈرامے کی شکل میں ایسی سبق آموز کہانیاں دکھائی جائیں تو بچوں کو حقیقی معنوں میں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا، جس کا یقینی طور پر ہمارے معاشرے پر ایک مثبت اثر پڑے گا۔
اسی طرح اگر ٹی وی ڈراموں کی بات کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ جو ڈرامے بن رہے ہیں ان کی کہانیوں کا اگر آپ غور سے مشاہدہ کریں تو وہ ساری کہانیاں لڑکی، پیار، محبت اور دولت کے گرد گھومتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز دوشیزہ اپنے آشنا کے ساتھ رات کے اندھیرے میں گھر سے فرار اور غیرت کے نام پر باپ کے ہاتھوں بیٹی قتل جیسے واقعات معمول بن چکے ہیں اور وجہ یہی پاکستانی ڈرامے ہیں۔ اسی طرح اگر صحافت کی بات کی جائے تو صحافت ایک عظیم پیشہ ہے، ایک وقت تھا صحافی کے قلم میں بہت طاقت ہوا کرتی تھی لیکن آج کے دور میں وہ طاقت کہیں بھی نظر نہیں آرہی، وجہ سطور بالا میں کافی تفصیل سے بتا چکا ہوں۔ آج کل کے صحافیوں کو چاہئے کہ سیاسی باتوں پر اخبار کے پیج کالے کرنے کے بجائے بنیادی حقوق کے بارے میں لکھیں۔ اسی طرح جو اینکر پرسنز ہیں ان کو بھی چاہئے کہ وہ سماجی مسائل کے بارے میں بات کریں اور عوام کی آواز وزیروں اور مشیروں تک پہنچائیں۔ بہت ہوگیا۔ روز ٹی وی پر دو تین لوگ سیاست پر گفتگو کرتے ہیں اس کے علاوہ پرنٹ میڈیا پر زیادہ تر صحافی حضرات سیاست کے بارے کبھی ایک زاویے تو کبھی دوسرے زاویے سے لکھتے ہیں، کئی سال سے یہ سلسلہ چلا آرہا ہے۔ لیکن عوامی مسائل اور عوام کے جو بنیادی حقوق ہیں ان کے بارے میں لکھنا کوئی ضروری نہیں سمجھتا۔ صحافی کا کام ہے کہ وہ بنیادی عوامی مسائل کے بارے میں لکھیں۔ یا ٹیلی ویژن شو میں اس پر بات کریں تاکہ نئی حکومت کو یہ معلوم ہوجائے کہ سب سے پہلے کن کن مسائل کو حل کرنا ہے، عوام کو بھی چاہئے کہ وہ انتخابات سے پہلے جس طرح ان سیاستدانوں کیلئے سوشل میڈیا پر کمپین چلاتے رہے بالکل اسی طرح عوام کے بنیادی مسائل کے حوالے سے بھی کمپینز چلانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس طرح اگر سوشل میڈیا پر صحافیوں کی بات کی جائے تو جو اینکر آن ایئر پروگرام کرتے ہیں تو پیمرا یعنی پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے وہ ان موضوعات پر بات نہیں کر سکتے جو ملک اور مفاد عامہ کیخلاف ہوں۔ تو ایسے حضرات نے اپنے لئے یوٹیوب چینل بنا رکھے ہیں اور جو باتیں وہ ٹی وی پر نہیں کہہ سکتے وہ اپنے یوٹیوب چینل پر کرتے ہیں۔
(باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)

اور اس کے فالورز اس کو دیکھ کر اس پر یقین کرتے ہیں اور پھر آپس میں دوستوں میں بیٹھ کر اس پر بحث شروع کر دیتے ہیں۔ بعض جنونی تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس اینکر کی ویڈیو کا ایک چھوٹا سا کلپ بھی اپنے اکائونٹ سے اپ لوڈ کر دیتے ہیں اس لئے تاکہ میرے بھی فالورز بڑھیں اور میں بھی مشہور ہو جائوں۔ یہ لوگ جو اس قسم کے کام کرتے ہیں یہ بھی ایک نفسیاتی بیماری ہیں۔
ہر عام و خاص بخوبی جانتا ہے اگر کسی بھی وقت ٹیلی ویژن اون کریں تو اس میں صرف سیاست پر گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ پاکستان کے بڑے نیوز چینلز ہر وقت صرف اور صرف سیاست پر بحث کرتے ہیں۔ اگر کوئی سیاستدان پیشی کیلئے کورٹ جائے تو میڈیا کو موقع مل جاتا ہے کہ کس طرح جلدی اس پر گفتگو شروع کرے۔ موصوف عدالت سے نہیں نکلا ہوتا اور یہاں ٹیلی ویژن سکرین پر بڑے بڑے تجزیہ نگار اور اینکرز حضرات نے تجزیے شروع کئے ہوئے ہوتے ہیں۔
اسی وجہ سے میڈیا بھی اس قسم کی سیاسی گفتگو کو زیادہ وقت دیتے ہیں میڈیا کا سارا دارومدار عوام پر ہے بلکہ میڈیا کا ایک اصول ہے کہ جو دکھے گا وہ بکے گا، یہی وجہ ہے کہ میڈیا مالکان اینکرز کو ہدایت دیتے ہیں کہ اس موضوع کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے تاکہ لوگ اس کو زیادہ دیکھیں اور میڈیا مالکان کے چینلز کی ریٹنگ بڑھے۔
لہٰذا آخر میں یہی گزارش ہے کہ خدارا سیاست کے ساتھ ساتھ عوام کے مسائل بھی اجاگر کرکے حکام بالا تک پہنچائیں اور ان کے حل کیلئے بھی ان کو صحیح سمت کا تعین کرایا جائے تاکہ ان مظلوم لوگوں کی داد رسی ہو۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب میڈیا صحیح معنوں میں اپنا مثبت کردار ادا کرکے حکومت کے ہر اچھے اقدام پر ان کو سراہے اور برے اقدام پر انکا مواخذہ کرے، تبھی اس ملک کا نظام بدلے گا، وگرنہ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

جواب دیں

Back to top button