Column

جب حقائق مسخ کر دئیے جائیں

ساجد علی شمس

آج کا دور سائنسی ایجادات کے حوالے سے بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ نت نئی ایجادات نے انسان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے بے تحاشہ استعمال نے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا بہت ہی مشکل بنا دیا ہے۔ آج کے دور کو اگر گوئبلز کے دور سے تشبیہ دی جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ پروپیگنڈہ آج کے دور کا سب سے خطرناک ہتھیار ہے، جس کی وجہ سے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا آسان نہیں رہا۔
اگر عصر حاضر میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یقیناً اس میں فرق کرنا بہت مشکل ہوگا کہ دو ہزار اٹھارہ سے پہلے حالات اچھے تھے یا اس کے بعد، یا پھر کرونا وائرس کے ایام میں پاکستان کی معیشت ترقی کر رہی تھی یا پھر اس وقت آٹے اور کھاد کے حصول کیلئے لوگوں کی لائنیں لگی ہوتی تھیں۔
اگر آج ہم تقریباً سات سال پیچھے نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان، آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ چکا تھا، جس آئی ایم ایف سے آج ہم قرض لینے کیلئے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگا رہے ہیں، آئے دن بجلی مہنگی کر رہے ہیں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کے مطالبے پر اضافہ کر رہے ہیں۔ لیکن پھر کیا ہوتا ہے کہ جب حقائق مسخ کر دئیے جائیں تو ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل کر دیا جاتا ہے، اور ایک کھلاڑی، ریاست پر مسلط کر دیا جاتا ہے جو صرف اور صرف اپوزیشن کو ہی چور ڈاکو، چور ڈاکو کہتے ہوئے ملک کی معیشت کو زمیں بوس کر دیتا ہے اور ہم پھر سے آئی ایم ایف کو السلام علیکم کہنے کی شروعات کر دیتے ہیں۔
اس طرح حقائق بھی مسخ ہوتے رہتے ہیں اور وہ حکومت جسے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے نام سے جانا جاتا ہے وہ ہر پندرہ دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرتی رہتی ہے لیکن ان کی پروپیگنڈہ مشینری عوام کو مایوس نہیں ہونے دیتی اور ان کی ذہن سازی کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ پچھلے والے چور اور ڈاکو تھے، اور لوگ تو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لوگ تین سو روپے لیٹر پیٹرول بھی خرید سکتے ہیں۔ دراصل اس وقت کے وزیر فیصل واوڈا نے آج کے دور میں پٹرول کی قیمت کی چار سال پہلے ہی پیشیگوئی کر دی تھی، موصوف یقیناً بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہیں۔ اُس وقت عوام پی ٹی آئی حکومت سے تنگ آجاتے ہیں کیونکہ مہنگائی عوام کا کچومر نکال دیتی ہے، اُس وقت کی اپوزیشن اس موقع کا فائدہ اٹھا کر تحریک عدم اعتماد کا کارڈ کھیلتی ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوجاتی ہے اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف صاحب مخلوط حکومت کے وزیر اعظم بنتے ہیں لیکن جب حقائق مسخ کر دئیے جائیں تو یہ تحریک عدم اعتماد پی ڈی ایم کی سیاست کو ختم کرنے کا موجب بھی بن جاتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے تحت وزیراعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے والے عمران احمد خان نیازی امریکی سازش کا بیانیہ بنا کر ایک بار پھر عوام کے دلوں پر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھتے ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ سب پروپیگنڈا ہوتا ہے جو رائے عامہ کو خان صاحب کی حمایت کرانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ موصوف ایک بار پھر سے حکمرانی کے خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں اور امریکی سازش میں ملوث کرداروں کے خلاف اٹھنے کیلئے لوگوں سے حلف لینے لگ جاتے ہیں، اپنے خطابات میں حکومت کے خلاف بغاوت کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ جب موصوف ایک کیس کے سلسلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں نو مئی رونما ہوجاتا ہے، پورے ملک میں ہنگامے اور جناح ہاس سمیت کور کمانڈر آفس جلادئیے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ورکرز ریڈیو پاکستان پشاور کے آفس کو جلا دیتے ہیں لیکن پھر جب حقائق مسخ کر دئیے جاتے ہیں تو ان ہنگاموں کا الزام بھی اسٹیبلشمنٹ پر لگ جاتا ہے۔ عوام ایک بار پھر سے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اپنی ہی فوج کے خلاف ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوتا ہے حقائق کو مسخ کرنے کا نتیجہ کہ آپ پروپیگنڈے کی زد میں آکر سچ اور حقائق جاننے کی طاقت کھو بیٹھتے ہیں۔ آٹھ فروری دو ہزار چوبیس کے الیکشن میں بھی پروپیگنڈے نے بھرپور حقائق مسخ کیے۔ دس یا پندرہ فیصد رزلٹ کی بنیاد پر امیدواروں کی جیت کی خوشخبریاں سنانے والوں نے الیکشنز کو اس قدر مشکوک بنا دیا کہ آج ہر شخص اس حکومت کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جب حالات ایسے ہوں تو بھلا ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کیسے آسکتا ہے؟ جب عوام کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ ان کا وزیراعظم دھاندلی سے آیا ہے یا شفاف طریقے سے تو اس وقت تک عوام کھلے دل سے حکومت وقت کے ساتھ کیسے تعاون کر سکتی ہے؟ جب تک حقائق کو مسخ کیا جاتا رہے گا ہم آئے روز مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کی چکی میں پستے جائیں گے، ہم اسی طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی امداد کے محتاج ہی رہیں گے۔۔۔ حقائق جو بھی ہوں، عوام کے سامنے ضرور آنے چاہئیں تاکہ ہم اس گول چکر سے نکل سکیں اور ہم بھی اپنے آپ کو خوشحال اور ترقی یافتہ قوم کہلانے کے قابل ہو سکیں۔
کاش! وہ وقت آئے ۔۔۔

جواب دیں

Back to top button