Column

زیرو کے ساتھ جمع زیرو ہی ہوتا ہے

محمد ناصر شریف
زیرو کے ساتھ جو بھی جمع کریں وہ زیرو ہی ہوتا ہے،جو پارٹیاں الیکشن میں حصہ نہیں لیتیں خصوصی نشستوں پر ان کا حق نہیں بنتا۔ پشاور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستیں خارج کردیں۔عدالت نے قراردیا کہ یہ سیٹیں دوسری جماعتوں کو دی جاسکتی ہیں ،آپ نے ایسی پارٹی جوائن کی جس نے کوئی سیٹ نہیں جیتی ، اس پارٹی کے سربراہ نے بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا،مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو نہ دی گئیں تو پارلیمنٹ مکمل نہیں ہوگی۔ اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ سنی اتحاد کونسل سے اتحاد ہماری غلطی تھی جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ عمران خان مخصوص نشستوں پر پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے سے انتہائی ناخوش اور مایوس ہوئے، عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے، ہم نے دو غلطیاں کیں جن کی ہم بھاری قیمت ادا کررہے ہیں، پہلی غلطی تب ہوئی جب عمران خان نے ہمیں شیرانی صاحب کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے کیلئے کہا تاکہ بلے کا نشان ہاتھ سے جاتا ہے تو شیرانی صاحب کی پارٹی کی شکل میں متبادل ہو، اس کیلئے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان، اسد قیصر اور مجھے ٹاسک دیا گیا، شیرانی صاحب کی پارٹی سے اتحاد کی بات ہونے کے بعد اچانک ان کا پتہ کٹ گیا، اس کے بعد بلے باز سامنے آگیا، بلے باز کیوں آیا، شیرانی صاحب کو کیوں ہٹایا گیا اس پر آج بھی سوالیہ نشان ہے، پارٹی سطح پر اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہئے، اگر وہ غلط فیصلہ نہیں کیا جاتا تو پی ٹی آئی انتخابی نشان سے محروم نہیں ہوتی، بے شک ہمیں بلے کا نشان نہیں ملتا لیکن ہم شیرانی صاحب کی پارٹی سے انتخابات لڑتے۔ شیرافضل مروت کی گفتگو سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے تحریک انصاف میں مختلف امور پر شدید اختلاف ہیں اور فیصلے کہیں اور ہی ہورہے ہیں یہاں تک کہ پارٹی کے بانی عمران خان کی رائے کو بھی پس پشت ڈال کر فیصلے کیے جارہے ہیں جس سے تحریک انصاف اپنے فیصلوں کی باعث نقصان پر نقصان اٹھارہی ہے او ر اس کا الزام کبھی کسی ادارے اور کبھی کسی ادارے پر ڈال دیاجاتا ہے۔ میں نے مانوں کے مصداق تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا کہ یہ عمل یقینا عدالتوں کے وقت کا ضیاع ہی ہوگا کیونکہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں وہ تمام وجوہات بیان کردی گئیں ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو صحیح قرار دیاگیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر مزاحمت کی سیاست کے موڈ میں ہیں جبکہ مزاحمت کیلئے بنایا جانے والا وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور مفاہمت کی راہ پر چل نکلا ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف کی حلف برداری تقریب میں شرکت نہ کرنے کا انتہائی فیصلہ کا جواز خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے یہ پیش کیا تھا کہ صدر اور وزیراعظم دونوں ہی فارم 45نہیں بلکہ 47والے ہیں ،ہم ان کو آئینی صدر اور وزیراعظم نہیں مانتے، انہیں مینڈیٹ چور صدر اور وزیراعظم قرار دیا اس لئے تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کرینگے،اس طرح وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے اتحادی جماعتوں کی وفاقی حکومت کو سخت پیغام دیا تھا جسے طبل جنگ بجانے کے مترادف قرار دیا جا رہا تھا لیکن گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ان کی وزیراعظم شہبازشریف سے طویل ملاقات کو جہاں پی ٹی آئی کی ’’ مفاہمت کی پالیسی‘‘قرار دیا جارہا ہے وہاں اس ملاقات کے تناظر میں متضاد قیاس آرائیوں اور خدشات نے بھی جنم لیا، ایک طرف تو تندخو وزیراعلیٰ اپنے مزاج کے برعکس نرم خو نظر آئے۔ وزیراعظم سے وزیراعلیٰ کے پی کے کی یہ پہلی ملاقات تھی جس میں انہوں نے وزیراعظم کو صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی اور صوبے کو درپیش مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیا۔ اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین نے یہ ملاقات پی ٹی آئی کے کسی رہنما کی ہمنوائی کے بغیر کی یعنی ان کے علاوہ تحریک انصاف کا کوئی رہنما اس ملاقات میں شریک نہیں تھا۔ شائد ایسا کرکے علی امین گنڈاپور چاہتے تھے کہ ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے مندرجات کسی طور پر بھی ان کی جماعت اور خصوصا خان صاحب تک نہ پہنچیں اور صرف وہی بات ان تک پہنچے جو وہ خود بتائیں دوسری جانب مسلم لیگ کی پوری ٹیم شریک تھی لیکن لیگی لوگوں کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ ملاقات کے مندرجات کم ہی شیئر کرتے ہیں۔ اب یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے کہ کیا اس ملاقات کے لیے عمران خان کی آشیرباد حاصل تھی اگر نہیں تو پھر علی امین کے لیے کے پی کے اور پارٹی میں مشکلات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
پیپلزپارٹی نے شہبازشریف کی جانب سے چیئرمین ارسا ظفر محمود کی تقرری پر اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم کو تقرری کے احکامات واپس لینے پر مجبور کردیا۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے موقف اپنایا سی سی آئی میں طے ہو چکا کہ چیئرمین کی تعیناتی روٹیشن بنیاد پر صوبوں کے ممبر سے ہوگی۔نہ صرف تعیناتی بلکہ جس شخص کو تعینات کیا گیا اس پر بھی اعتراض ہے، ارسا کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس میں وفاق کا کوئی اثر انداز نہ ہو، نگران حکومت نے آرڈیننس سے ترمیم کردی کہ وفاق کا ایک نمائندہ ارسا کا ممبر ہوگا۔اس حوالے سے پی پی رہنما نوید قمر نے قومی اسمبلی میں اس تقرری پر دھواں دھار تقریر بھی کی۔ پیپلزپارٹی نے اس معاملے پر اسٹینڈ لیکر نہ صرف سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا بلکہ یہ بھی واضح کیا کہ مستقبل میں وہ کس موڈ کے ساتھ سیاست کرے گی۔ شہباز شریف بطور وزیراعظم سارے فیصلے تنہا نہیں کرسکیں گے اگر انہوں نے فیصلوں میں پیپلزپارٹی کواعتماد میں نہیں لیا تو اس طرح کی مزاحمت ہوتی رہے گی اور وزیراعظم کو اپنے فیصلوں پر بار بار نظرثانی کرنا پڑے گی۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ایک بار پھرشدید اختلافات کا شکار ہو گئی ہے اسے دو اہم ایشوز کا سامنا ہے ہیں ان میں سے ایک گورنر سندھ کی تقرری اور دوسرا ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کا وزیر بننا شامل ہے ایم کیو ایم پاکستان کے اندرونی ذرائع کے مطابق گورنر سندھ کے لئے اہم حلقوں نے خوش بخت شجاعت کے نام کو فائنل کیا ہے جس پر ایم کیو ایم پاکستان کے مقتدر حلقوں کو شدید تحفظات ہیں ان کا کہنا ہے کہ گورنر کے نام کے لیے ان سے کوئی رائے نہیں لی گئی، ایم کیو ایم پاکستان میں اندرونی اختلافات اس وقت شدید ہو گیا جب ایم کیو ایم پاکستان کی ایڈ ہاک کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے وفاقی وزیر کا حلف اٹھایا ایم کیو ایم پاکستان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جب پی ایس پی ایم کیو ایم پاکستان میں ضم ہوئی اور فاروق ستار سمیت پرانے لوگ واپس آئے تو اس وقت سب نے متفق ہو کر فیصلہ کیا تھا کہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا کوئی بھی رکن یا سربراہ کوئی بھی سرکاری عہدہ یا وزارت نہیں لے گا تاہم ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کی جانب سے خود وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے سے آپس کے اختلافات اور بھی شدت اختیار کر گئے ہیں جس کے باعث ایم کیو ایم پاکستان ایک بار پھر مشکلات کا شکار ہو گئی ہے اور سینئر رہنما پارٹی کو اس مشکل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

جواب دیں

Back to top button