Column

بلاول بھٹو زرداری صاحب نوٹس لیجئے

عبد الماجد ملک
ہر ذی شعور شخص کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دیس میں امن ہو اور پیار کے کھیت لہلہاتے رہیں تاہم ہمارے یہاں کا نظام بھی عجب ہے اور باوا آدم ہی نرالا ہے، اس لیے تو انتشار ہے اور لوگ بے چین ہیں۔
بے روزگاری کا طوفان ہے، مہنگائی کا سیلاب ہے اور غربت کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے، جب بیروزگاری اور مہنگائی کا جن بے قابو ہوتا ہے تو پھر یہ نقصان پہنچاتا ہے، آج نظر دوڑایئے تو عیاں ہو گا کہ ہر طرف تباہی ہے، بربادی ہے اور بدقسمتی یہ ہے قانون بھی شاید بے بس ہے یا نظام کے ہاتھوں مجبور ہے۔
کسی بھی مُلک میں ترقی کی شرح اس کی معیشت کی بڑھوتری پہ ہوتی ہے لیکن ہمارے یہاں معیشت کو ریورس گیئر لگ چکا ہے، معیشت رواں ہوتی ہے تو ملک چلتا ہے، اور معیشت کو چلانے میں اہم کردار ٹرانسپورٹ انڈسٹری کا ہوتا ہے کیونکہ جب پہیہ چلتا ہے تو پھر یہ مُلک چلتا ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے یہ شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے اور افسوس صد افسوس کہ اس وقت ان بدتر حالات میں کئی طرح کے چیلنجز کے ساتھ جان بچانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ انڈسٹری میں جو اہم کردار ادا کرتا ہے تو وہ ٹرک ڈرائیور کا ہوتا ہے جو چند ہزار کی خاطر صبح و شام خیبر سے کراچی اور کوئٹہ سے لاہور تک اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے لیکن جانتے ہیں کہ کچھ عرصے سے اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ جب وہ پنجاب یا بلوچستان کی سرحد پار کر کے صوبہ سندھ میں داخل ہوتا ہے تو اسے ڈر اور خوف جکڑ لیتا ہے وہ اپنی گاڑی روک لیتا ہے اور محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں کسی ہوٹل یا پمپ پہ پڑائو کرتا ہے، کیونکہ اسے خدشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ رکے گا نہیں تو اس کی سانس رک جائے گی۔
گزشتہ کچھ عرصے سے صوبہ سندھ میں خون بہہ رہا ہے، معصوموں کا ناحق قتل کیا جارہا ہے، مسافروں کو لوٹ کر انہیں زندگی کی قید سے آزاد کیا جارہا ہے اور سندھ کے اربابِ اختیار چپ ہیں، میڈیا بھی خاموش ہے اور شاید دور کہیں بہت دور ایک نعرے کی گونج سنائی دے رہی ہے کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔
سندھ میں پہلے کچے کے ڈاکوئوں کا راج تھا جو بھتے اور اغوا کاری میں ملوث تھے اور اب نجانے کون سے ظالم پکے کے ڈاکو آ گئے ہیں جن کا نشانہ ٹرک اور اس کے ڈرائیور ہیں، لوٹتے بھی ہیں، مارتے بھی ہیں اور پھر ابدی نیند سلا کر چلتے بنتے ہیں، کوٹ سبزل سے لے کر حیدرآباد تک سڑکوں پہ دہشت ہے، موت کا وحشیانہ رقص جاری ہے اور سندھ کے مالکان ستو پی کر سو رہے ہیں۔
دہشت کے بڑھتے سائے پھیلتے جا رہے ہیں، نجانے ان لٹیروں کی سرپرستی کون کر رہا ہے جو یہ اپنی کمین گاہوں سے نکل کر سڑکوں پہ پھیل چکے ہیں، اور یہ خوف کی فضا ایسی پھیلائی جا رہی ہے کہ ٹرانسپورٹ کا پہیہ رکنے لگا ہے اور اگر اس کی سروسز میں تعطل رہے گا تو یہ ملکی انڈسٹریز کے لیے نقصان کا باعث ہو گا، جس سے معیشت کی لڑکھڑاتی کشتی ڈوب بھی سکتی ہے۔
ایک وقت تھا کہ جب دنیا میں سندھ کی مہمان نوازی کے تذکرے تھے اور ڈرائیور طبقہ بھی ان کے گن گاتا تھا کہ صوفیاء کے ماننے والے یہ لوگ محبت میں گندھے ہوتے ہیں، عاجزی، سادگی اور محبت کے پیکر سندھیوں کے تحائف کا ذکر کیا جاتا، جن میں سندھی اجرک، دیدہ زیب رنگوں سے تیار کی گئیں چادریں، اچار، آم اور کھجور شامل ہوتا لیکن گزشتہ کچھ عرصے میں چند شرپسند عناصر سندھ اور یہاں کے باسیوں کو بدنام رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں ٹرانسپورٹرز میں چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ اگر ہمیں سیکیورٹی نہ ملی، ظلم ہوتا رہا اور یونہی ہمارے ڈرائیور لٹتے رہے اور انہیں خون میں نہلایا جاتا رہا تو ہم گاڑیاں کھڑی کر دیں گے اور پہیہ جام ہڑتال کی طرف جائیں گے۔ اگر ٹرانسپورٹ کمیونٹی ہڑتال کی طرف جاتی ہے تو ملک کی برآمدات اور درآمدات شدید متاثر ہوںگی جس سے پاکستان کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور موجودہ نازک ترین حالات میں جب نئی حکومت بن رہی ہو اور بزنس کمیونٹی ان سے پرامید ہو تو ایسا ہو جانا کوئی اچھا شگون نہیں ہو گا، اس لیے اداروں کو بروقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
نئی بننے والی فیڈرل حکومت، سندھ کی صوبائی حکومت اور بالخصوص بلاول بھٹو زرداری صاحب کو ان تمام نامساعد حالات اور بدامنی کا نوٹس لے کر ایسے عناصر کا قلع قمع کرنا چاہئے تاکہ میرے دیس میں امن رہے، ہیوی ٹرانسپورٹ کا پہیہ چلتا رہے اور معیشت رواں رہے کیونکہ جب انڈسٹری چل پڑے گی تو کئی طرح کے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

جواب دیں

Back to top button