Column

ہماری ماں بولی پہاڑی

پروفیسر خالد اکبر

پوری دنیا میں اس وقت تقریباً سات ہزار زبانیں پانی جا تی ہیں۔ ان میں سے کہیں زبانیں بہت زیادہ ترقی یافتہ، ہمہ گیر اور زر خیز ہیں جب کے کچھ کم ترقی یافتہ اور پسماندہ ہیں۔ گلوبل لائیزیشن کے عفریت نے جہاں بے شمار تہذیبوں کو ہڑپ کیا وہاں پر زبانیں بھی اس کے مضر وار سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ یہی وجہ ہے دنیا میں اکثر زبانیں اپنی بقا کے خطرات سے دو چار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے انہی خطرات کا کا فی عرصہ پہلے ادراک کرتے ہوئے پوری دنیا میں معدوم ہو تی ہوئی زبانوں اور بولیوں کو محفوظ کرنے کا جامعہ پروگرام بنایا۔ اس کے لئے عالمی سطح پر شعور و آگہی بلند کر نے کے لئے مقامی زبانوں کا دن منانے کیلئے ہر سال ایک دن مخصوص کیا۔
بے شک زبان ہی کسی تہذیب و تمدن کی شناخت اور اس کے اجتماعی شعور کا اظہار ہوتی ہے اور کسی زبان کے مٹ جانے کا مطلب ایک جیتے جاگتے تہذیب و تمدن کے خاتمے کا اعلان ہو تا ہے۔ مشہور مفکر نوم چومسکی نے اسی لیے کہا ہے کہ کسی قوم کو تباہ کر نے کیلئے ایٹم بم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس اس سے اس کی زبان چھین لو وہ خود ہی تباہ ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ زبان کے معدوم ہو نے سے مقامی عقل و دانش جو اقوال، محاورات، ضرب المثال اور استعارات کی شکل میں موجود ہو تی ہے ( جو دانا لو گوں کے صدیوں کے مشاہدات اور تجربات کا نچوڑ ہو تی ہے) ختم ہو جاتی ہے ۔ علاوہ ازیں اس عمل سے بے شمار مقامی نبا تات اور جمادات کے نام بھی مٹ جاتے ہیں جن کا کوئی متبادل نہیں ہو تا۔ یہ ایسا بسیار تہذیبی نقصان ہو تا ہے جس کی تلا فی کبھی نہیں ہو سکتی۔
اس محل میں یہ بات بھی اب قابل ذکر ہے کہ دنیا بھر کے تمام لسانیات دان linguistsاس بات پر متفق ہیں کہ دنیا کی کوئی زبان فطری اور جوہری طور پر برتر یا کم تر نہیں ہو تی جیسا کہ ایک لمبے عرصے تک سامراجی پرو پیگنڈا کے زیر اثر فرض کیا جاتا تھا۔ زبانوں کے ان محققین نے انتہائی عرق ریزی سے یہ بنیادی اصول دریافت کیا کہ تمام زبانوں کا بنیادی ڈھانچہ، نظام، اصول، قواعد و ضوابط، تقریباً یکساں ہوتے ہیں۔ مشہور لسانیات دان اور سماجی سائنسدان بلکہ عصر حاضر کے سب سے زیادہ حوالہ دئیے جانے والے مفکر نوم چو مسکی کا UGیونیورسل گرائمر کا نظریہ اسی بنیادی پہلو کی مکمل سائنسی اور منطقی وضاحت اور تصریح کر تا ہے۔
سو لسانیات کے پیمانوں کے مطابق تمام زبانوں کا بنیادی نظام یکساں ہو تا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ہماری ماں بولی پہاڑی میں بھی وہ تمام جواہر اور خزانے موجود ہیں جو کسی بھی ترقی یافتہ زبان میں پائے جاتے ہیں۔ یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ زبان کے خدو خال ؍ اس کے حروف تہجی، صوتی نظام، صرف و نحو کے معیارات کا تعین لسانیات کی ڈومینن میں آتا ہے۔ جو ماہر ین لسانیات اور محققین کا کام ہے نہ کے شعراء اور ادباء کا۔ اس باب میں یہ امر اطمینان بخش اور خوش آئند ہے کہ آزاد کشمیر یونیورسٹی میں انگریزی لسانیات و ادب کا شعبہ اس حوالے سے زبردست کام کر رہا ہے ۔ اس شعبہ نے پہاڑی بولی کے باب میں اب تک موثر اور مفید کام کیا ہے۔ ایک مستند رپورٹ کے مطابق اس وقت تقریباً پچاس کے لگ بھگ ایم فل پی ایچ ڈی کے مقالات پہاڑی کی صوتیات، اسلوبیات، صرف و نحو سمیت دیگر برانچز پر جا معہ کشمیر کی سر پر ستی میں کرائے جا چکے ہیں یہ پہاڑی کے آزاد کشمیر کے باب میں ایک بڑا قابل ذکر کام ہے۔ اسی طرح شعراء اور ادباء خصوصا ڈاکٹر محمد صغیر اور دیگر احباب نے پہاڑی کی ہماری والی قسم کے محل میں بنیادی اصنافِ کی داغ بیل ڈالنے میں اپنا خطیر اور قابل لحاظ حصہ ڈالا ہے، جس پر ان کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ تا ہم اصل مسئلہ جو اس حوالے سے در پیش ہے وہ پہاڑی بولی کی Empowerment یعنی اسے بااختیار بنانے کا ہے ۔ اس کے لئے کافی کچھ کر نے کی ضرورت ہے تاکہ اس زبان کی acknowledgementہو سکے۔ پہاڑی کا ایک مخصوص رسم الخط، لہجے، لغات ، صوتیات اور صرف و نحو وغیرہ کے معیار ات کا تعین ان پر اجماع یقیناً ایک کٹھن کام ہے جس پر لسانیات دانوں اور دیگر شراکت داروں کو اپنا مستعد اور موثر کردار دینا ہو گا۔ اس کے لئے ایک بڑی موثر لابنگ اور کاوش کی ضرورت بھی ہے تاکہ تمام موثر فورمز سے سر پرستی حاصل ہو سکے۔ تاہم کچھ کام اس حوالے سے رضا کارانہ اور انفرادی طور پر کئے جانے کی ضرورت ہے، جس کے لئے کسی بڑے لسانی علم یا وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ پہاڑی کے تہیں ہمیں احساس کمتری کے خول سے نکلنا پڑے گا، جس کی وجہ سے ماں بولی کے استعمال میں ہمیں تردد ہو تا ہے چو نکہ اب اس رویے کی کوئی سائنسی اور منطقی وجہ نہیں ہے۔ اسی طرح خواتین کے ہاتھوں تیزی سے ختم ہوتی اس زبان کیلئے ترغیب اور استدلال سے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ مزید براں اساتذہ اور علماء میں اس حوالے سے شعور کو بلند کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ میرے خام خیال میں اگر علماء کو قابل کیا جائے کہ وہ جمعہ کے خطبات پہاڑی میں دینا شروع کر دیں تو ماں بولی کو با اختیار بنانے کی طرف ٹھوس بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔ معاشرے کا موثر طبقہ ہو نے کے ناطے اس کا بھرپورtrickle downeffectہو گا۔ الحمدللہ ماں بولی کو با اختیار بنانے کیلئے شعوری بیداری کافی حد تک بڑھ رہی ہے، مگر اس حوالے سے مزید کافی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں طرح کے آگاہی پروگرام اور علمی و ادبی سرگرمیوں کو تسلسل اور تواتر سے کر نے کی ضرورت ہے۔ تاکہ پہاڑی بولی بھیcodification،selection کے منطقی عمل سے گزر کر مکمل جیتی جاگتی زبان بلکہ علم و ادب اور ٹیکنالوجی کی معیاری زبان بن سکے۔
عہد حاضر میں انگریزی اور اردو کے بنا ہمارا گزارہ مشکل ہے۔ چونکہ ایک بین الاقوامی اور جدید علوم کی زبان ہے جبکہ دوسری رابط کی زبان ہے۔ تاہم ان زبانوں کی بامقصد تحصیل کے ساتھ ساتھ اپنی ماں بولی کیلئے کام کر نا اور اسے اپنانا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ ہم کس طرح سے اپنی ماں بولی کو با اختیار بنانے کی سمت اور منزل کی طرف مربوط اور منظم انداز میں آگے بڑھ کر اپنی تہذیب و ثقافت کو محفوظ کر سکتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button