برمودا ٹرائی اینگل

دانیال حسن چغتائی
یہ نام پڑھتے ہی ہم سب کے ذہن میں ایک ایسی سائنسی اصطلاح کا تصور ابھرتا ہے جس نے ایک دنیا کو عرصے سے اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے اور سائنس دان ابھی تک کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ۔ اس پر تحقیقات کے ساتھ ساتھ بہت کچھ لکھا بھی گیا ہے۔ پیبورب کی بانی نازیہ کامران کاشف صاحبہ کو میں اسی ناول کے حوالے سے ہی جانتا تھا کہ سوشل میڈیا پر اس کے متعلق پڑھا اور میری خوش قسمتی کہ مجھے نومبر کے انعام کے طور پر من گنجل اور برمودا ٹرائی اینگل ملا۔ من گنجل تو میں نے پہلے پڑھ لیا تھا اور اس پر تبصرہ بھی ریکارڈ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس سال میں نے خود سے عہد کیا کہ ان شاء اللہ سو کتب پڑھنی ہیں اور سال کی پہلی کتاب یہی بنی جو کافی دن سے بیڈ کے سرہانے اپنی باری کی منتظر تھی ۔
جہاں تک بات ناول کی ہے تو ناول کا نام آتے ہی ایک خاص قسم کی کتاب کا تاثر ذہن میں بنتا ہے لیکن میں نے میم نازیہ کی یہ دوسری کتاب پڑھی ہے تو دونوں ہی الگ موضوعات کی حامل کتب ہیں۔ دونوں میں مصنفہ نے اپنے موضوعات کے ساتھ بھر پور انصاف کیا ہے ۔
سرورق میں ناول کے مرکزی خیال کی جھلکیاں واضح طور پر محسوس ہوتی ہیں۔ کتاب کا انتساب دونوں جہاں کے بادشاہ اللہ رب العزت کے نام کیا گیا ہے ۔ مصنفہ کے پیش لفظ ، محمد علی، عظیم شاہ بخاری ، سعد چودھری کی تقاریظ اور سندس اظہر کی شاعری بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ جس کے بعد آسٹریلوی سرزمین کے ریسرچ سینٹر سے اس تحقیقی ناول کا آغاز ہوتا ہے۔ میں ناول پڑھنے کے دوران کئی بار رک گیا اور یہ سوچتا رہا کہ میم نازیہ نے اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ کیسے یہ ساری تحقیق کی اور پھر کرداروں کے ساتھ ناول کی شکل میں ڈھال دیا۔ میری طرف سے میم نازیہ کے لئے بہت سی داد ۔
یہ نازیہ کامران کاشف کا دوسرا ناول ہے جو میں نی پڑھا ہے اور مجھے امید ہے کہ ان کی بقیہ کتب بھی ان2 کی طرح منفرد اور ایک الگ ہی تاثر لئے ہوئے ہونگی۔ میرے اب تک پڑھے جانے والے دونوں ہی ناول نوعیت اور موضوع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے الگ ہیں، جہاں من گنجل ایک سماجی رومانوی ناول تھا تو اب برمودا ٹرائی اینگل ایک سائنس فکشن کے طور پر بالکل الگ کہانی لئے ہوئے ہے۔ اب یہ کہانی کیا ہے وہ میں اگر بتا دوں تو پھر آپ کو لطف نہیں آئے گا ۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اسے پڑھتے ہوئے وہی لطف کشید کریں جو مجھے ملا ۔ اس لئے تبصرے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جائوں گا ۔
لیکن اتنا بتائے دیتا ہوں کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین رومانوی تحاریر لکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں اور تجسس سے بھرپور تحریر کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں اور خاص طور پر سائنس فکشن میں تو خواتین قلم کاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے لیکن نازیہ صاحبہ کے ہاں موضوعات کا تنوع ایک الگ اور منفرد خصوصیت ہے جو بہت کم قلم کاروں کے ہاں ملتی ہے۔ یہ چیز اس ناول میں آپ کو واضح پور پر محسوس ہوگی۔
ناول کے کرداروں میں جون ، ایون ، ولسن ، رومینہ پارکر ، مائیکل کلارک ، جیسیکا رونالڈ ، جیرالڈ ، سائمن ، احمد ، ماہم ، جیف ، عیسیٰ گردیزی ، ہارون، جیف لورنس اور کیٹ شامل ہیں۔ کچھ کردار اپنے منفی اثرات کو لے کر چل رہے ہیں تو کچھ میں مثبت تحقیق اور ان کا انداز حیران کر دیتا ہے۔ ان کرداروں کو جس طرح نازیہ صاحبہ نے ترتیب دیا ہے اور قاری کو جکڑ کر رکھا ہے یہی ایک اچھے قلم کار کا ہنر ہوتا ہے جسے نازیہ کامران کاشف صاحبہ نے سائنسی انداز کی اس تحریر میں برتا ہے۔ پاکستانی ، آسٹریلوی اور امریکی کرداروں کو جس طرح ایک ساتھ یکجا کیا گیا ہے وہ قاری کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور میرے خیال میں یہی اس ناول کا حاصل ہے۔
سائنس فکشن ہو اور اس میں سائنسی تحقیقات اور مفروضات کی بات نہ ہو تو یہ شاید یہ2 متضاد باتیں ہونگی۔ طبیعات، فلکیات، ایجادات، تاریخ، مستقبل، ماضی اور حال کے بارے میں تفصیلات کے ساتھ جس طرح کہانی کو آگے بڑھایا گیا وہ بہت خاصے کی چیز ہے۔ وارم بولز، بلیک ہولز ، ایسٹرل پراجیکشن، ٹائم ٹریولنگ، ٹیلی پیتھی اور پیرالل یونیورس ایسے میدان ہیں جن میں اس وقت سے کام جاری ہے جب سے انسان نے سوچنا شروع کیا اور آج تک نئی اور پرانی تحقیقات اپنے آپ کو منوانے کے لئے مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کا ابتدائی سنہری دور اس کا عینی شاہد ہے۔
مجھے ایک بات جو پسند آئی وہ ایک فکشن ناول میں سائنسی علوم کو اس طرح سے بیان کیا جانا ہے جو پڑھنے والے کو بور کرنے کے بجائے اسے پڑھنے پر مجبور کرے ۔ میں نے خود اسے4 نشستوں میں پڑھا اور سمجھ کر پڑھا تاکہ جو تحقیق اب تک کی گئی ہے اور ناول کی شکل میں ڈھالی گئی ہے وہ تو کم از کم معلوم ہونی چاہیے ۔
یہ کہانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب ایک بحری جہاز برمودا ٹرائی اینگل کی پراسرار خاموشی میں کھو کر دنیا میں شور مچا دیتا ہے۔ اسی موضوع کو لے کر مختلف ٹیمز بنتی ہیں اور برمودا کی بھول بھلیوں میں وہ کیسے آگے بڑھتے ہیں، یہ ناول کا سب سے دلچسپ حصہ ہے۔ کیا سب لوگ ایک ہی مقصد کے تحت شامل ہوئے ہیں یا کوئی منفی مقاصد بھی رکھتا ہے یہ بھی ناول میں ہی معلوم ہوتا ہے ۔
ناول کی کل کہانی2 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں ٹیموں کی تشکیل، برمودا میں داخلہ اور وہاں پر بہت سے انکشافات کی کہانی ہے جس کا اختتام ذہن کو چونکا دیتا ہے اور دل کو دہلا دیتا ہے۔
دوسرے باب میں ماضی کی کہانی کو حال سے جوڑا گیا ہے۔ دھند میں چھپے جزیرے کا راز جو ابھی تک صیغہ راز میں ہی ہے اور اختتام پر اس کا کیا نتیجہ نکلا وہ بہت دلچسپ چیز ہے۔
اس کہانی کا موضوع حساس ہونے کے ساتھ ساتھ پر اسرار بھی ہے اور اس پر لکھی جانے والی تمام تحاریر اس نوعیت کی نہیں ہیں جنہیں عام قاری با آسانی سمجھ سکے۔ میں نے خود ماضی میں اس موضوع پر لکھی گئی کتاب کو بے سروپا سمجھ کر چند صفحات کے بعد چھوڑ دیا تھا لیکن میڈم نازیہ نے جس انداز میں اس کہانی کو ماضی، حال، مستقبل کی چھلنی سے گزار کر اختتام تک پہنچایا ہے وہ قابل داد ہے۔
علم و عرفان اور القریش جیسے بڑے اداروں کی حروف خوانی سوالیہ نشان بن چکی ہے ۔ اس طرف میں ماضی میں بھی توجہ دلا چکا ہوں ۔ دیگر احباب بھی اس سلسلے میں بات کرتے رہتے ہیں ۔ بڑے اداروں کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ رہے سہے اردو ادب کے قارئین کو بچایا جا سکے نہ کہ وہ بھی بد ظن ہو کر اس دشت سے دور ہو جائیں ۔
اختتام پر میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ برمودا ٹرائی اینگل جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ مشہور زمانہ مسٹری برمودا ٹرائی اینگل پر مبنی ہے۔ مگر اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ آج تک اس حوالے سے جو باتیں سنی تھیں، ناول پڑھنے کے بعد وہ سب غلط ثابت ہو جائیں گی۔ کم از کم میرے معاملے میں یہی ہوا ہے۔ ناول کے کچھ کردار فرضی ہیں مگر ساتھ ہی بے شمار حقیقی کرداروں کو جس طرح نازیہ کامران کاشف صاحبہ نے ناول کے سانچے میں ڈھالا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ آپ یہ ناول گھر بیٹھے براہ راست مصنفہ اور بک بی سے رابطہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔







