سیاسیات

حمزہ کو نواز شریف سے دور کرنے میں کن دو خواتین کا ہاتھ ہے؟ دلچسپ کہانی

ایک زمانہ تھا کہ نواز شریف حمزہ شہباز کو اپنا سیاسی جانشین کہتے تھے۔ تاہم۔اب مریم نواز انکا سیاسی چہرہ ہیں۔ اس سب میں نواز شریف کے گرد موجود دو عورتوں کا ہاتھ ہے۔

اس بارے میں سہیل وڑائچ نے پوری کہانی اپنے کالم میں لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2013ء کے الیکشن سے پہلے میں نے اور حامد میر نے جاتی عمرا میں نواز شریف کا جیوٹی وی کیلئے ایک خصوصی انٹرویو کیا تھا ،اس انٹرویو میں اور باتوں کے علاوہ یہ سوال بھی تھا کہ آپ کا سیاسی جانشین کون ہوگا؟

اس وقت نواز شریف نے بلاتامل جواب دیا تھا، حمزہ شہباز شریف۔ تاہم مریم نواز 2018ء تک یعنی نواز شریف کے تیسرے اقتدار تک والد کے دل میں اتنی جگہ بنا چکی تھیں کہ والد کاسیاسی چہرہ اور جانشین بننے کی امیدوار بن گئیں۔2013ء سے لے کر 2018ء کے پانچ سال میں کیا ہوا کہ مریم نواز شریف حمزہ شہباز شریف سے آگے نکل گئیں۔

نونی ذرائع بتاتےہیں کہ جدہ میں قیام کے دوران نواز شریف کا معمول بن گیا تھا کہ وہ رات کے کھانے کے بعد رات گئے تک بیگم کلثوم نواز اور مریم کے ساتھ چار پانچ گھنٹے سیاسی اور غیر سیاسی گفتگو کیا کرتے تھے۔ شریف خاندان میں بالعموم اور مریم نواز شریف کی بالخصوص یہ رائے ہے کہ بیگم کلثوم بہت ہی عقل مند تھیں ،مختلف شخصیات اور واقعات کے بارے میں ان کا تجزیہ ہمیشہ صحیح ثابت ہوتا تھا۔ چودھری نثار علی ہوں یا وفاداریاں تبدیل کرنے والے دوسرے لوگ ،ان کے بارے میں بیگم کلثوم کی رائےپہلےسے ہی اچھی نہیں تھی۔

اتفاق فیملی کے کئی لوگ بیگم کلثوم کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ بیگم کلثوم نے اپنے کسی بچے کی شادی اتفاق فیملی میں نہیں ہونے دی۔اس رائے سے قطع نظر سب اہل خاندان بیگم کلثوم کی دانشمندی کو تسلیم کرتے تھے ،یہی وہ دانش مندی تھی جس کی وجہ سے شریف خاندان کے سربراہ میاں شریف نے بیگم کلثوم کوسیاسی میدان میں اتاراا ور وہ میاں شریف کی توقع کے عین مطابق نواز شریف سمیت سارے خاندان کو جیلوں سے نکال کر جدہ لے جانے میں کامیاب ہوگئیں۔

اتفاق فیملی کے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری برسوں میں بیگم کلثوم کا اپنے ’’بابو جی‘‘ یعنی میاں نواز شریف پر اثر بہت بڑھ گیا تھا۔ پانامہ مقدمہ کے زمانے میں نواز شریف کے زیادہ تر مشورے بیگم کلثوم اور مریم نواز سے ہوتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب حمزہ سے دوری اور مریم سے سیاسی قربت شروع ہوئی۔ مقتدرہ سے لڑائی شروع ہوئی تو مریم نواز والد کےساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں جبکہ حمزہ کا نقطہ نظر اپنے والد شہبازشریف کے زیادہ قریب تھا اور وہ یہ تھا کہ مقتدرہ سے لڑائی سے ہمیں نقصان ہوگا،

اس زمانے میں نوازشریف اور شہباز کی رائے میںاختلاف تھا۔نواز خاندان کو یہ بھی احساس تھا کہ پانامہ مقدمے کا انہوں نے یک و تنہا مقابلہ کیا شہباز شریف اور حمزہ کو جتنا متحرک ہو کر نواز کے خلاف حملوں کا جواب دینا چاہیے تھا وہ انہوں نے نہیں دیا۔ شہباز شریف نے اپنی کامل وفاداری اوربھائی کیلئے مسلسل جد وجہد سے اس خلا کوپر کرلیا جو دونوں کے درمیان پیدا ہوا تھا، حمزہ ایسا نہ کرسکے، اسی لئے نواز شریف کی ترجیح مریم بن گئیں۔

جواب دیں

Back to top button