Column

سیاست دانوں کی شاطرانہ چالیں

رفیع صحرائی
سیاست دان حکومت سازی کے مرحلے پر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ اپنے سیاسی جثے سے زیادہ حصہ وصول کرنے کے لیے مختلف پینترے بدلے جا رہے ہیں۔ کہیں پارٹی کی سطح پر الحاق کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف آزاد امیدوار اپنی شرائط پر من مانا سودا کرنے میں کوشاں ہیں۔
فروری 2024کے عام انتخابات میں کسی پارٹی کو سادہ اکثریت نہیں ملی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق میاں شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کے واحد امیدوار کے طور پر میدان میں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے بانی جناب عمران خان نے بظاہر تو یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ مل کر مرکز اور پنجاب میں جبکہ جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر کے پی میں اپنی حکومت بنائیں گے ( جماعت اسلامی کے پاس کے پی میں اس وقت کوئی سیٹ نہیں ہے اور اس نے پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا ہے) مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کا بیان محض بیان تک ہی محدود ہے۔ عمران خان بھی جانتے ہیں کہ ایسا ہونا بظاہر ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کے پی کے وزیرِ اعلیٰ کے لیے علی امین گنڈا پور کو نامزد کر کے اسٹیبلشمنٹ کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے اور موقف سے پیچھے نہیں ہٹے کیونکہ جناب علی امین گنڈا پور سانحہ 9مئی کے مطلوب ترین ذمہ داران میں سے ایک ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق ان کی گرفتاری کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے مرکز میں اپنے وزیرِ اعظم اور پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ کے نام پر خاموشی اختیار کر کے بالواسطہ طور پر یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مرکز اور پنجاب میں وہ حکومت نہیں بنا سکیں گے۔ عمران خان نے مرکز میں وزیرِ اعظم نامزد کرنے کی بجائے پارٹی کے رہنمائوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اگلے دس دن کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا بندوبست کریں۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ عمران خان اپنے ایم این ایز کو مجلس وحدت المسلمین میں شامل ہونے کا کہہ کر خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص سیٹیں حاصل کرنے کی کوشش کریں گے مگر مسئلہ یہ ہوا کہ مجلس وحدت المسلمین نے خواتین اور مخصوص سیٹوں کے حصول کے لیے انتخابات سے قبل اپنے امیدواروں کی ترجیحی لسٹ ہی جمع نہیں کروائی تھی۔ ایسی صورت میں جناب عمران خان کے ایم این ایز کا مجلس میں شامل ہونے کا مطلب اپنی کمائی دوسرے کی جھولی میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے عمران خان نے انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی ہدایت جاری کی ہے تاکہ اس کے بعد الیکشن کمیشن میں اپنی پارٹی کو بحال کروا کر مخصوص سیٹوں کے حصول کی قانونی جنگ لڑی جا سکے۔
جناب بلاول بھٹو زرداری کی تمام تر انتخابی کمپین مسلم لیگ ن کے خلاف تھی۔ انہوں نے خاص طور پر میاں نواز شریف کو پوری کمپین کے دوران ٹارگٹ کیے رکھا۔ بلاول بھٹو نے بار بار بوڑھے سیاست دانوں کو مسترد کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نوجوان قیادت کو منتخب کر کے آگے لانے کا مطالبہ کیا۔ اپنے ہر جلسے، بیان اور انٹرویو میں جناب بلاول بھٹو زرداری نے خود کو وزیرِ اعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلاول بھٹو نے اپنی دھواں دار انتخابی مہم کے ذریعے پارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی مگر ان کی پارٹی انتخابی نتائج کے مطابق تیسرے نمبر رہی۔ یوں بلاول بھٹو کے وزیرِ اعظم بننے کا سپنا ادھورا رہ گیا لیکن وہ پارٹی کو اس پوزیشن پر ضرور لے آئے کہ ان کے بغیر مرکز میں کسی دوسری پارٹی کے لیے حکومت سازی بہت دشوار ہے۔ بلاول اب وزیرِ اعظم بننے کی دوڑ سے خود ہی باہر نکل گئے ہیں۔ اپنی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی سفارشات کے برعکس انہوں نے مرکز میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ ن کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنی حمایت کے باوجود حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے البتہ بلاول بھٹو نے اپنی حمایت کے بدلے میں چند آئینی عہدوں کا مطالبہ ضرور کر دیا ہے۔ وہ جناب آصف علی زرداری کو اپنی حمایت کے بدلے میں صدرِ مملکت بنوانا چاہتے ہیں۔ چاروں صوبوں کی گورنرشپ پر بھی ان کی نظر ہے۔ وہ چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے بھی اپنی پارٹی کو دلانا چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ن کی حمایت کے بھی خواہاں ہیں۔ صدرِ مملکت، صوبوں کے گورنرز، چیئرمین سینٹ اور اسپیکر اسمبلی کے عہدے ناصرف کلیدی حیثیت کے حامل ہیں بلکہ قومی اسمبلی کے خاتمے کی صورت میں بھی برقرار رہنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی بری پرفارمنس کی صورت میں یہ عہدے بری الذمہ ہونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ تو ابتدائی مطالبات ہیں۔ اس کے بعد چند بڑے اور انتہائی اہمیت کے حامل اداروں مثلاً پی آئی اے، سوئی گیس، واپڈا وغیرہ کی سربراہی بھی جناب بلاول کے مطالبات میں شامل ہو گی۔
دیکھا جائے تو بلاول بھٹو نہایت سمارٹ گیم کھیل رہے ہیں۔ وہ حکومتی بھینس کا دودھ دینے والا پچھلاحصہ خود لینا چاہتے ہیں جبکہ چارہ ڈالنے والا اگلا حصہ مسلم لیگ ن کو دینا چاہتے ہیں۔ وہ حکومت میں شامل نا ہو کر اس پر اپنا دبائو بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور مراعات سے بھی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے یہ مجوزہ کولیشن گورنمنٹ چار سال نکال گئی تو آخری سال میں جناب بلاول ہی اس کا ناک میں دم کرنے کے لیے آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں گے۔ جس طرح انہوں نے گزشتہ پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ کیا ہے۔ انہوں نے حکومت میں شامل ہو کر پوری مراعات بھی حاصل کیں۔ بطور وزیرِ خارجہ دنیا بھر میں اپنی پروجیکشن بھی کی اور آخر میں اسی حکومت کو مہنگائی اور بری کارکردگی کے طعنے بھی دئیے۔
اب مسلم لیگ ن کی بات کی جائے تو بطور پارٹی وہ قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود آزاد امیدواروں کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے پاس حکومت سازی کے لیے سادہ اکثریت نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا اس کے لیے اپنے گلے پر کچے دھاگے سے بندھی تلوار لٹکانے کے مترادف ہے۔ آزاد ایم این ایز کا رجحان مسلم لیگ ن کی جانب ضرور ہے مگر یہ تعداد فی الحال اتنی بڑی نہیں ہے کہ ان کی شمولیت کے بعد پارٹی کی اپنی حکومت بن سکے۔ انہیں دوسری پارٹی یا پارٹیوں کا محتاج ہونا پڑے گا۔ نتیجے کے طور پر قدم قدم پر بلیک میل بھی ہونا پڑے گا۔ ماضی میں جناب عمران خان صرف چند سیٹوں کی کمی سے بار بار بلیک میل ہونے کے علاوہ اپنی حکومت سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ موجودہ حالات میں جناب شہباز شریف کی مجوزہ حکومت پی ڈی ایم پلس ثابت ہو گی۔ تمام تر خرابیاں اور کوتاہیاں مسلم لیگ ن کے کھاتے میں جبکہ فائدہ اتحادی اٹھائیں گے۔ مسلم لیگ ن کو اپنا وزیرِ اعظم صرف اسی صورت میں لانا چاہیے جب کم از کم پچاس آزاد جیتے ہوئے ایم این ایز پارٹی کو جوائن کر لیں اور پارٹی کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہو جائے۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو وفاقی حکومت سازی کو بھاری پتھر سمجھتے ہوئے چوم کر چھوڑ دینا چاہیے اور پنجاب میں جناب شہباز شریف کو وزیرِ اعلیٰ بنا کر اپنی حکومت بنا لینی چاہیے جبکہ بلوچستان میں جناب مولانا فضل الرحمان کے ساتھ مل کر حکومت بنا کر آگے بڑھنا چاہیے۔ حکومت سازی کے لیے جناب بلاول یا پی ٹی آئی کے لیے مرکز کو چھوڑ دینا چاہیے۔ موجودہ صورتِ حال میں مسلم لیگ ن کے لیے مرکز میں حکومت بنانا خود کو کانٹوں کی سیج پر گرانے کے مترادف ہے جس کا خمیازہ آنے والے الیکشن میں بھگتنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button