Column

غیر ممکن ہے کہ حالات کی گھتی سلجھے

صفدر علی حیدری
الیکشن نے کئی برج الٹے اور زبردست بھونچال پیدا کیا ہے۔ آفٹر شاکس کا سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ سوشل میڈیا صارفین بڑے دلچسب تبصرے کر رہے ہیں
ایک نے لکھا کہ ہم سمجھے تھے ووٹ ایک دن ڈالنا ہے، کیا پتہ تھا کہ تین دن پولنگ جاری رہے گی
ایک اور تبصرہ دیکھیے
الیکشن یا تو ہو نہیں رہے تھے اور رک نہیں رہے
ایک صارف کے بقول
ویسٹ انڈیز کے ایک امپائر ہوا کرتے تھے جو تاخیر سے فیصلہ دینے میں ماہر تھے، لگتا ہے الیکشن کمیشن نے اسی کی خدمات حاصل کی ہیں
ایک اور نے کہا
ووٹ ڈالنے والوں سے یہ بات چھپائی گئی تھی کہ طاقتوروں کو جہاں سے اپنے امیدوار جتوانا تھا وہاں انھوں نے یہ طے کر رکھا تھا کہ الیکشن وہی جیتے گا جسے کم ووٹ ملیں گے
ایک اور کی بات سنیے
کئی جگہوں پر ایسے امیدوار جیت گئے جو ایک بھی پولنگ اسٹیشن پر جیت نہیں پائے تھے
ایک صارف کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے چودہ امیدوار کھڑے کیے جبکہ ان کے سترہ جیت گئے ۔ ( دروغ بر گردن راوی)
عالمی میڈیا پر پاکستانی الیکشن ٹاپ ٹرینڈ پر ہیں۔ وہ ایک ہی سانس میں دو باتیں کر رہے ہیں۔ ایک عمران خان کی بھاری اکثریت سے کامیابی اور دوسرا بدترین دھاندلی۔
عالمی میڈیا تمام تر ریاستی جبر کے باوجود پی ٹی آئی کی کامیابی کو ایک حیرت انگیز واقعہ قرار دے رہا ہے۔
کیا کبھی ایسا ہو گا کہ ہمارے ملک میں ایسے انتخابات ہوں کہ دنیا انھیں صاف و شفاف تسلیم کر لے۔ کیا یہ واقعی ایسا مشکل کام ہے کہ ہر بار ہمیں عالمی برادری کے آگے سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کام اتنا مشکل تو نہیں ہے۔ بس ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہے تو یہ مشکل کام آسان ہو سکتا ہے مگر مصیبت تو یہی ہے کہ ہر ادارہ اور خاص طور پر ایک طاقت ور ادارہ یہ کبھی نہیں چاہتا۔ اور جب تک وہ نہ چاہے ، کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔
ہمارے کچھ تجزیہ کار شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ وہ پی ٹی آئی کی کامیابی کو الیکشن کی شفافیت کی وجہ قرار دے رہیں ہیں ۔ اس سے ان کے ذہنی افلاس کا سراغ ملتا ہے۔
مدعی سست ہوتا ہے تو گواہ چست مگر اس بار یہ ہوا ہے کہ گواہ حیرت زدہ ہے اور پریشان بھی کہ جن کو جتوایا جا رہا ہے وہ خود کہہ رہے ہیں ہم ہار گئے، پی ٹی آئی جیت گئی۔ ہمیں ان کی فتح تسلیم کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر نثار چیمہ، لشکری رئیسانی، مفتی کفایت اللہ، محمود خان اچکزئی وغیرہ ، یقیناَ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔ وسیع ظرف دکھایا۔ جہاں ایک طرف لوٹوں کی خریداری کی خبریں آ رہی ہیں وہیں ایسی خبروں نے دل خوش کر دیا ہے۔
ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے 36حلقوں کے حتمی نتائج روکنے کا حکم دے دیا ہے۔
11قومی، 9پنجاب، 7خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کے 1حلقے کا حتمی نتیجہ روکنے کا حکم دے دیا گیا ہے۔قومی اسمبلی کے جن 11حلقوں میں الیکشن روکنے کا حکم دیا گیا ہے ان میں این اے 15مانسہرہ، این اے 28پشاور، این اے49، 50اٹک ، این اے 55راولپنڈی، گجرات کے این اے 63اور 64کے علاوہ اسلام آباد کے تینوں حلقے این اے 46،47،48شامل ہیں۔
صوبائی اسمبلیوں کی 25نشستوں پر بھی حتمی نتائج روک دئیے گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 11،14اور16راولپنڈی کا حتمی نتیجہ بھی روک دیا گیا ہے، پی پی 31،33اور34گجرات کے حتمی نتائج بھی روک دئیے گئے ہیں، الیکشن کمیشن نے پی پی 20چکوال ، پی پی 59گوجرانوالہ کے حتمی نتائج بھی روک دئیے ہیں ۔
اس سے زیادہ حلقوں کے نتائج کا فیصلہ اب عدالتوں میں ہو گا۔
افسوس کا مقام ہے کہ الیکشن کے دن گھروں سے نکلنے اور ووٹ دینے کے باوجود ان کی ذمہ داری ابھی ختم نہیں ہوئی۔ انھیں اپنے ووٹ کی حفاظت بھی کرنا ہو گی۔
ایک اچھی خبر یہ آئی ہے کہ قومی اسمبلی کی جنرل نشستوں پر 11خواتین بھی کامیاب قرار پائی ہیں۔
اب صورتحال یہ ہے کہ مقتدر حلقے سب سے بڑی سیاسی جماعت کو حکومت سازی کے عمل سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ لاڈلوں کو اشارے مل چکے ہیں سو ان کی ملاقاتیں جاری ہیں۔ چھانگا مانگا کی سیاست پھر سے زندہ کی جا رہی ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کو پیروں تلے کچلنے کی تیاری مکمل ہے ۔ لوٹے عوام کے ووٹ سے نوٹ جیبوں میں بھرنے میں مگن ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا عمل کیا ملک میں سیاسی استحکام لا پائے گا ۔ اگر الیکشن کمیشن اور عدالتوں سے انصاف نہ ملا تو جو حکومت سامنے آئے گی وہ عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لا پائی گی ۔ یہ بظاہر ایک آسان سوال ہے مگر اس کا جواب مشکل ہے۔
اس خبر نے سب کو حیران کر دیا کہ چوبیس نشستوں پر جیت کے مارجن سے زیادہ ووٹ بوگس نکلے تھے۔
ایک طرف پورا بلوچستان سراپا احتجاج ہے اور دوسری طرف دھاندلی زدہ لوگ عہدوں کی بندر بانٹ میں مصروف ہیں مگر حکومت سازی اتنا آسان نہیں ہو گی ۔ اگر عدالتوں سے انصاف مل گیا تو پھر صورت حال مزید بگڑے گی۔ موجودہ صورت حال پر یہ شعر صادق آتا ہے:
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے

جواب دیں

Back to top button