Column

غلطیاں مت دہرائیں

صفدر علی حیدری
کہتے ہیں جاننے سے ماننا زیادہ اہم ہوتا ہے کیوں کہ ماننا کسی نتیجے پر پہنچنے کا نام ہے، جب کہ جاننا ایک مسلسل عمل ہے جس کا نتیجہ خیز ہونا ضروری نہیں ہوتا۔
پاکستان میں ایک اور جمہوری عمل اپنے اختتام کو پہنچا۔ آدھی سے زیادہ قوم خوف کے بت توڑ کر گھروں سے باہر نکلی اور اس نے اپنے حق کا بخوبی اظہار کیا۔
اور پھر دنیا نے حیرت بھری نظروں سے یہ منظر دیکھا کہ وہ جس کا نام لینا ممنوع تھا، قوم کی اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ ڈال دیا۔ یہ دیگر بات کہ تاخیری حربے اختیار کرتے ہوئے ، قوم کا مینڈیٹ چرانے کی بھرپور کوشش کی گئی ۔ جس میں تاحال انھیں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اب اس کے نتیجے میں قوم سراپا احتجاج ہے ۔ پچاس پچاس ہزار ووٹوں سے جیتنے والے امیدواروں کو ہروا دیا گیا۔ اب وہ فارم 45ہاتھوں میں لیے پوچھ رہے ہیں کہ وہ کس کے ہاتھ اپنا لہو تلاش کریں کہ واردات ڈالنے ہاتھوں نے تو ہاتھوں پر دستانے چڑھا رکھے ہیں۔
الیکشن کے جمہوری عمل کو ہر ممکن بدصورت بنانے کے بعد بھی ان کا جی نہیں بھرا تھا کہ انہوں نے الیکشن کے بعد بھی دھاندلی کا سلسلہ جاری رکھا اور آج ملک ایک آئینی دلدل میں جا پڑا ہے۔ تین بڑی سیاسی جماعتیں اپنی اپنی حکومتیں قائم کرنے پر بضد ہیں۔ یہی کچھ ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے اور ’’ ادھر تم ادھر ہم ‘‘ کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو چکا ہے ۔
کے پی کے ، بلوچستان اور سندھ میں ایسا کوئی بحران نہیں کہ وہاں صورتحال خاصی واضح ہے ۔ اصل مسئلہ سب سے بڑے صوبے اور مرکز کا ہے کہ وہاں کسی بھی جماعت کو حکومت سازی میں مشکل کا سامنا ہو گا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق پنجاب میں ن لیگ اور آزاد پارٹی کی نشستیں تقریباً برابر ہیں، جبکہ مرکز میں آزاد سو نشستیں لے کر کچھ آگے ہیں ۔ بہت سی نشستوں پر انتخابی نتائج چیلنج ہو چکے ہیں۔ اب اگر حق و انصاف سے کام لیتے ہوئے نتائج تسلیم کر لیے گئے تو ٹھیک ورنہ ملک مہنگائی سے تباہ حال ملک انارکی کی طرف جائے گا اور یہ کسی کے لیے بہتر نہ ہو گا، عوام کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔
جیسا کہ ذکر ہو چکا کہ تین صوبوں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ وہ مسئلہ بن ہی نہیں سکتے۔ مسئلہ تو صرف اور صرف پنجاب میں ہے یا پھر مرکز میں ۔ پنجاب میں آزاد پارٹی ایک نشست سے آگے ہے مگر ان کی آزادی گروی رکھنے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سے پارٹی الیکشن نہ کروانے کی پاداش میں انتخابی نشان چھین لیا گیا تھا۔ یہ بھی پیش بندی ہی تھی کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کی کامیابی کی صورت میں آزاد ممبران کا آزادی سے شکار کھیلا جا سکے ۔ قوم ابھی تک چھانگا مانگا نہیں بھولی۔
اس الیکشن میں عبرت کے بہت مقامات اور نشانات ملتے ہیں ۔
قوم کو ماضی کا ایک الیکشن اب تک یاد ہے جس میں طاقتوروں کی ادھر تم ادھر ہم کی بے رحمانہ سوچ نے ملک کو دو ٹکڑے کروا ڈالا تھا۔ اس وقت بھی بھی اکثریت کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی غلطی کی گئی تھی۔ اس ہٹ دھرمی کو ستر کے الیکشن میں بھی دہراہا گیا تھا۔ اس وقت بھی دھاندلی کی واردات ڈالی گئی تھی۔ موقع پرست نظام مصطفیٰ کی آڑ لے کر آگے بڑھے تھے اور قوم پر دس سال کے ضیائی فتنہ مسلط ہو گیا تھا جس کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
اگلے چند دن بہت اہم ہیں۔ قوم کی نظریں عدالتوں پر لگی ہوئی ہیں۔ موجودہ بحران سے نمٹنے کی واحد صورت یہی ہے کہ جن امیدواروں کا مینڈیٹ چھینا گیا ہے ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ اگر ان کے پاس فارم 45کی صورت میں جیت کا ثبوت موجود ہے تو جرات مندی سے کام لیتے ہوئے ان کے حق میں فیصلہ دیا جائے، خواہ مدمقابل کتنا ہی بارسوخ آدمی کیوں نہ ہو ۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ انصاف کیا جائے ، انصاف ہوتا نظر آئے اور انصاف کو کھلے دل سے تسلیم بھی کیا جائے۔ راول پنڈی، اسلام آباد، لاہور، ملتان ، ڈی جی خان، راجن پور، بہاولپور، پشاور اور کراچی میں جو دھاندلی ہوئی ہے اس کی مذمت کی جائے، جس کی واحد صورت یہی ہے کہ جیتنے والوں کی کامیابی تسلیم کی جائے۔ ماضی میں پہاڑ جیسی غلطیاں برداشت ہو گئی تھیں مگر اب اینٹ جیسی غلطی بھی برداشت نہیں ہو گی۔ بھان متی کا کنبہ جوڑنے کے لیے کہیں کی اینٹ اٹھائی جائے نہ کسی روڑے پر نظر رکھی جائے۔ اگر چاہتے ہیں رولا نہ ہو، بحران پیدا نہ ہو، انارکی نہ پھیلے تو ملک و قوم اور اس کی غربت کے ہاتھوں نیم مردہ قوم پر ترس کھایا جائے۔ یہ تبھی ہو گا جب ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ امید ہے اس بار عقل سے کام لیا جائے گا اور یہ کام مقتدر حلقوں کو کرنا ہو گا ورنہ سیاست دان تو اپنے کندھا ہمہ وقت تیار رکھتے ہیں کہ ان کو کٹ پتلیوں کی طرح نچایا جائے۔

جواب دیں

Back to top button