Column

ہوگا وہی جو میری چاہت ہے

صفدرعلی حیدری
تمام تر خدشات اور بے یقینی کے باوجود الیکشن ہوئے اور اب قوم حیران و پریشان ہے کہ یہ کیا ہو گیا ہے ؟
حیران و پریشان تو وہ بھی ہیں جنہوں نے پکا ہاتھ ڈالا تھا۔ تمام تر اقدامات کر لیے تھے۔ باہر والے کو بھی اندر بلوا لیا تھا کہ اس کے ’’ کیوں نکالا ‘‘ والے اعتراض کو دور کیا جا سکے ۔ جس نے فاتحانہ خطاب لکھوا کر رٹ بھی لیا تھا۔ اخبارات نے سرخیاں بھی تیار کر لی تھیں کہ فلاں وزیراعظم اعظم ہوں گے مگر ۔۔۔ سوتے ہوئوں کو جھنجھوڑ کر اٹھنا پڑا۔ ان کے منہ سے کیا ہوا کیا ہوا کی صدائیں بلند ہوئیں۔ تقریر التوا میں ڈال دی گئی۔ آٹھ فروری سے زیادہ نو فروری کو ووٹ پڑا۔ حالاں کہ نو فروری کو رات بارہ بجے تمام نتائج کا اعلان ہونا تھا ( جو اب تک نہیں ہو سکا ) وجہ یہ تھی کہ جو ووٹ نو فروری کو پڑا تھا اس کا حساب کتاب کیا جا سکے۔
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انٹر نیٹ سروس معطل کر دی گئی تا کہ اطمینان سے کارروائی ڈالی جا سکی۔ اور جب الیکشن کمیشن سے کہا گیا کہ اس طرح تو نتائج تاخیر کا شکار ہوں گے تو جواب ملا، ہمارے نظام کو انٹرنیٹ کی بندش سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بعد میں اتنا فرق پڑا کہ انٹرنیٹ کی بندش ہی کو جواز بنا کر پیش کیا گیا۔ حتی کہ نگرانوں کو پریس کانفرنس کرنا پڑی کہ دہشت گردی کے ممنکہ خطرات کے پیش نظر، انٹرنیٹ بند کرنا مجبوری تھی۔ الیکشن کمیشن کے چیئرمین ایسے بدحواس ہوئے کہ روایت کے مطابق پہلے نتیجے کا اعلان کرنے کی ہمت نہ کر سکے ۔
اب تک کی صورت حال کے مطابق قومی اسمبلی کی 265میں سے 250کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ آزاد پارٹی سو نشستیں حاصل کر چکی ہے۔ ن لیگ کی 73سیٹیں ہیں ۔ پی پی پی کی 53ہیں اور ایم کیو ایم بھی 17ہتھیا چکی ہے۔ صوبوں کی بات کی جائے تو نتیجہ حسب توقع نکلا ہے۔ وہاں سوائے پنجاب کے صورت حال واضح ہے۔ سندھ میں پی پی ہی ، کے پی کے میں آزاد پارٹی جبکہ بلوچستان میں پھر وہی چوں چوں کا مربہ ۔ پنجاب میں آزاد پارٹی اور ن لیگ دونوں فاتح ہیں یا پھر کوئی بھی فاتح نہیں ہے۔
خلائی مخلوق کو پتہ تھا کہ ان کا مخالف کمزور نہیں ہے سو انہوں نے فائول پلے کی حد کر دی بلکہ ہر حد پار کر لی مگر نتائج پھر بھی ایسے آئے ہیں کہ وہ منہ سر پیٹنے پر مجبور ہیں ۔
کم و بیش 35نشستوں پر راتوں رات شب خون مارا گیا ( گویا 35پنکچر والی کہانی پھر دہرائی گئی ) اب وہ لوگ جو پچاس پچاس ہزار کی برتری سے جیت رہے تھے عدالتوں میں ہوں گے یا سڑکوں پر ۔
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
باہر سے درآمد ہونے والے لیڈر کی تقریر ایک بدحواس آدمی کا خطاب تھا جسے اب تک پتہ نہیں چل سکا کہ اس کے ساتھ پھر ہاتھ ہو گیا ہے۔ وہ ایک ہی سانس میں مینڈیٹ تسلیم کرنے کی بات کرتے ہوئے اپنی پارٹی کو واحد اکثریتی جماعت قرار دیتا ہے۔ ساتھ میں حکومت بنانے کی بات بھی کرتا ہے۔ لگتا ہے کیوں نکالا کے شان دار ناکامی کے بعد نیا نعرہ متعارف ہونے والا ہے
کیوں بلایا ؟؟؟؟
لیکن اس سے قبل پلان ٹو کے مطابق ’’ آزاد پارٹی ‘‘ کو چھانگا مانگا کی سیاست کے ذریعے شکار کیا جائے گا مگر اس سے ملک میں انارکی ہی پھیلے گی ، استحکام کبھی نہیں ملے گا ۔ شاید منصوبہ ساز انارکی ہی چاہتے ہیں۔ وہ کم از کم اپنی اس کوشش میں تو کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ منصوبہ ساز ناکام رہے ہیں۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ کسی کو مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر جب وہ دلوں میں جگہ بنا چکا ہو
اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوا کہ کچھ منصوبے زمین پر بنتے ہیں اور کچھ آسمانوں میں
بس صاحب پتہ چل چکا کہ فائول پلے کے لیے فول پروف منصوبہ کسی فول نے بنایا تھا۔
اب ذرا حدیث قدسی بھی پڑھ لیجیے۔ ۔۔
’’ اے ابن آدم ایک میری چاہت ہے! اور ایک تیری چاہت ہے ہوگا، وہی جو میری چاہت ہے، اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے، تو وہ بھی میں تجھے دے دوں گا جو تیری چاہت ہے، اگر تو نے مخالفت کی، اس کی جو میری چاہت ہے، تو میں تھکا دوں گا اس کو جو تیری چاہت ہے، پھر ہوگا وہی جو میری چاہت ہے۔

جواب دیں

Back to top button