لاہور ہائیکورٹ سے امید واثق تو یہی تھی

نذیر احمد سندھو
رات دس بجے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس نجفی نے راجہ سلیمان اکرم کی درخواست جس کے ساتھ 18مزید امیدواران کی درخواستیں منسلک تھیں سب کو ناقابل سماعت قرار دے کر درخواست گزاران کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا مشورہ دے دیا ۔ اسی حکیم کے لونڈے سے دوا لو جس کے باعث بیمار ہو۔ جسٹس نجفی سے اسی طرح کے فیصلے کی امید تھی بس ایک فیصد انصاف کی امید رکھتے تھے اور دو فیصد کا خیال تھا شاید وہ الیکشن ٹریبونل کی راہ دکھائیں یا الیکشن کمیشن کو حکم دیں وہ قانون کے مطابق درخواست گزاران سے انصاف کرے ۔ حکم تو درکنار مشورہ بھی نہیں دیا، درخواست گزاران کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے کر انصاف کا بول بالا کر دیا۔ پاکستان کی جوڈیشری کا انصاف کی لائن میں پہلے ہی 145نمبر تھا جو شاید ترقی کرکے اب تک 195کو ٹچ کر رہا ہو گا مگر کسے پڑی انصاف کی سب کو اپنی اپنی مراعات کی فکر ہے۔ حکیم الحکما جناب الیکشن کمیشن جو پہلے ہی فیصلہ دے چکے ہیں اب مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں منہ پر سابقہ نسخہ مارتے ہیں یا تاخیری حربوں کا آزمودہ نسخہ استعمال کرتے ہیں فیصلہ کرکے فیصلہ نہ لکھنے کا فارمولا بھی جسٹس صاحب ایجاد کر چکے ہیں الیکشن کمیشن اس ایجاد سے بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔ ہزاروں فارمولے ہیں لیبارٹری میں کسی کو بھی حکیم الحکماء آزمائیں تیر بہدف ہو گا۔ ایک فارمولا چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شریف والا بھی ہے 2008ء میں شہباز شریف قانونی طور پر وزیر اعلیٰ نہیں رہ سکتے تھے جسٹس شریف نے سٹے جاری کیا جو ساڑھے تین سال چلتا رہا شہباز وزیر اعلیٰ رہے حتیٰٰ کہ ٹرم مکمل ہو گئی، شریف فیملی نے ملاپ سے سیاست میں بڑی منفی چالیں متعارف کرائی ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ابھی تو ستاروں سے آگے اور بھی جہاں ہیں۔ شریف فیملی تو اکیلی ہی ایجادوں میں یکتا تھی اب تو زرداری اور فضل الرحمان کی مدد مشورے بھی حاصل ہیں۔
شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا تھا غلام عدالتوں کو چھوڑو فیصلہ کن احتجاج کی کال دو، عوامی فیصلے کا دفاع عوام کو خود ہی کرنا ہوگا، آزادی کی جنگ میں مراعات اور پنشن کے غلام مدد گار نہیں ہو سکتے، اگرچہ میں مروت سے سو فیصد متفق ہوں مگر مشورہ دیتا ہوں عوامی طاقت کے ساتھ عدالتوں کا آپشن بھی استعمال کیا جائے۔ کبھی کبھی کھوٹے سکوں کے ڈھیر سے اصلی سکہ ملنے کے بھی امکانات ہوتے ہیں دوسرے مخالفین کو بھی سیدھی راہ دکھاتے رہنے میں کوئی ہرج نہیں۔
سراج الحق نے جماعت کی امارت سے استعفیٰ دیا ہے، سنا ہے مجلس شوریٰ استعفیٰ کی قبولیت کا فیصلہ کریگی، لگتا ہے الطاف فارمولا آزمایاگیا ہے ۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اکثر یہ فارمولا استعمال کرتے تھے ان کی سینٹرل کمیٹی مسترد کر دیتی اور الطاف بھائی خدمت جاری رکھتے۔ فارمولوں کو آزمانے کا موسم ہے سراج الحق نے سوچا چلو ہم بھی ایک چھکا مارتے ہیں پکڑا گیا تو خیر ورنہ سکور تو بڑھ ہی جائیگا، مجلس شوریٰ کے نو بال کے چانسز بھی ہیں۔
کچھ لوگ ذوالفقار علی بھٹو کو بڑے پائے کا لیڈر مانتے ہیں، پھانسی نے بھٹو کو یادگار بنا دیا ورنہ موصوف تو خالصتاً جاگیردار تھے اقتدار ملتے ہی غروریت آسمانوں کو ٹچ کرنے لگی۔ سابق جنرل گورنر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سوار خان نے کہا تھا بھٹو اس قدر مغرور تھا جنرل رینک کے لوگوں کو کرسی پر بیٹھنے کیلئے نہیں کہتا تھا کھڑے کھڑے بات سنتا یہ توہین آمیز رویہ اس کی پھانسی کا باعث بنا، ضیاء الحق کو تین دن ملتان میں ملنے سے انکار کا تذکرہ خود بھٹو نے اپنی کتاب ،If I assasinated، میں کیا ہے۔ بھٹو صاحب کے بہت سے کارنامے ہیں جن میں ایک isiکو Directive75کے تحت سول میں گھسیڑنا ہے جس کارنامے کا قوم آج تک خمیازہ بھگت رہی ہے، یہ جو DGisiCجس پر آج کل میجر جنرل فیصل نصیر کے چرچے ہیں بھٹو صاحب کی نوازش ہے۔ بھٹو صاحب آئی ایس آئی کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین اور ذاتی مخالفین کو نیچا دکھانا چاہتے تھے۔ اس پر بھی اکتفا نہ کیا ایف ایس ایف کے نام سے ایک سرکاری خرچ پر پرائیویٹ ملٹری تنظیم بھی بنالی اور اسی تنظیم کے افسران سے مقتول نواب احمد کا قتل کرایا اور اسی قتل میں پھانسی پائی۔75سال میں تین لیڈر اور تین جرنیل ہی قابل ذکر ہیں باقی سب چھان بورا ہے۔ جناح کو الگ رہنے دو ۔ لیاقت علی خان ، مجیب الرحمان اور عمران خان، لیاقت علی خان ہندوستان میں نواب تھے جاگیر تھی محلات کے مالک تھے پاکستان میں آئے خود وزیر اعظم تھے نہ جاگیر الاٹ کرائی نہ محلات سب کچھ قوم پر قربان کر دیا اور ان کا یہی عمل ان کی شہادت کا باعث بنا حال ہی میں ان کے بیٹے اکبر لیاقت کا انتقال ہوا ہے وہ گردوں کے مریض تھے ہر ہفتے ڈیالیسس ہوتا جس کا خرچہ ادا کرنے سے مشکل میں تھے اخبارات میں یہ سب چھپ چکا، اگر لیاقت علی خان اپنی جاگیر محلات الاٹ کرا لیتے تو اکبر لیاقت دنیا کے کسی ہسپتال سے اپنا علاج کرا سکتے تھے۔ شریف خاندان کی ایک مرلہ ملکیت ہندوستان میں نہ تھی آج وہ دنیا بھر میں اثاثے رکھتے ہیں اگر شریف خاندان اور زرداری خاندان اپنی دولت کا انکشاف کر دیں تو کئی بل گیٹ منہ تکتے رہ جائیں۔ مجیب الرحمان کی کوئی جائیداد نہیں تھی دھان منڈی میں ایک آبائی گھر تھا جس میں انہیں قتل کر دیا گیا۔ عمران خان نے اپنی تمام جائیداد شوکت خانم کے نام وصیت کردی ہے۔ لیڈر قوم کے لئے قربانی دیتے ہیں اور ڈاکو قوم کو لوٹتے ہیں موازنہ خود کر لیجئے۔ جرنیلوں میں جنرل اعظم جو ایوب خان کے ساتھ مشرقی پاکستان کے مارشل لاایڈمنسٹریٹر تھے ۔ پاکستان میں تو کم لوگوں کو یاد ہونگے مگر بنگلہ دیش میں کسی 75سال زائد بنگالی کے سامنے جنرل اعظم کا نام لیں گے تو وہ اٹھ کھڑا ہو گا،اعظم کی خدمت سے پہلی بار بنگالیوں کو یقین آیا ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ جنرل یعقوب نے یحییٰ خان کا حکم ماننے اور اور بنگالیوں پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا جس کی پاداش میں اس کا کورٹ مارشل ہوا اس کے تمام میڈل پنشن چھین لی گئی۔ تیسرے کا ذکر بعد میں کرونگا وہ موجود ہے زندہ ہے اور اپنی قوم سے وفاداری کا صلہ پا چکا ہے۔
خبریں ہیں عمران خان کو بنی گالہ منتقل کر دیا گیا ہے تصدیق ابھی ہونا باقی ہے۔ میں نے کل فیس بک پر علیمہ خان سے استدعا کی تھی وہ بنی گالہ اگر ممکن ہو تو منتقل ہو جائیں مریم سزا یافتہ کو سزا یافتہ باپ کی خدمت کے لئے گھر منتقل کر دیا گیا تھا، عدالتی نظیر موجود ہے۔ خان کی زندگی کو خطرات بڑھ گئے ہیں کیونکہ خان کے خلاف سب ہتھکنڈے ناکام ہو چکے ہیں اگرچہ ہینڈلر مخالفین کی حکومت بنوانے میں کامیاب ہو جائیں گے مگر خان کا عوامی خوف انہیں لا حق ہے جس سے جان چھڑانے کا صرف ایک ہی راستہ رہ گیا خان کی جان لینے کا، لہذا خان کے سپاہیو اور سسٹرز آپ کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ آگے بڑھو ذمہ داری سنبھالو۔ مخالفین نے ہتھیار پھینکے نہیں نہ ہی ماضی میں قوم کے سامنے جھکنے کی ان کی روایت ہے۔ ہتھیار مزید تیز کر لئے ہیں میں کسی پر شک نہیں کرتا حفظِ ماتقدم ضروری ہے اور کسی بھی ایک پر مکمل اعتماد غلط ہو گا۔ بشریٰ بی بی نے جس طرح خان کو mismariseکر رکھا ہے تشویشناک ہے بشریٰ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اسے لوگوں کو استعمال کرکے پھینکنے کی عادت ہے۔ اس کے خاندان کے تمام لوگ اس کی ہوشیاریوں سے نالاں ہیں۔ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور پھر پھینک کر ستارہ شناسی پکڑ لی مانیکا کی موسٹ مادڑن بیوی ایک دم مزار کی متولی بن گئی جوان بیٹیوں بیٹوں 21گریڈ کے کسٹمز افسر کو چھوڑ کر مستقبل کے وزیر اعظم کی تلاش میں سب کچھ چھوڑ دیا، عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی گوگی ، بزدار اور پنجاب کی چیف منسٹری سب کچھ اسی کا کمال تھا۔
باجوہ کا اختلاف بزدار کی چیف منسٹری سے شروع ہوا جو بڑھتے بڑھتے حکومت گرانے تک پہنچ گیا۔ توشہ خانہ کے پیچھے زلفی بخاری اور بشریٰ بی بی ہی ہیں خان کو ان تحفوں سے کیا شغف، وہ ان تمام الائشوں سے بالا ہے۔ القادر یونیورسٹی کا شاخسانہ اور 195ملین پائونڈز کا قصہ زلفی اور بشریٰ والی شاخ سے منسلک ہے۔ بشریٰ کو سزا سے پہلے سزا کا علم تھا، وہ خود گرفتاری کے لئے پیش ہوئی حالانکہ ابھی تو آرڈر لکھا ہی نہیں گیا تھا صرف شارٹ آرڈر سنایا گیا تھا۔ بشریٰ کو بنی گالہ منتقل کرنا اب خان کو بھی بنی گالہ منتقل کرنا خان کی سیکیورٹی کھانا پینا سب حکومت اور بشریٰ سے اٹیچ ہو سکتا ہے۔ ایسے زہر ہیں جن سے ہارٹ اٹیک آ سکتا ہے۔ حامد میر سے روایت ہے ہماری خفیہ ایجنسیوں کے پاس ایسا زہر بھی ہے جو جوتے میں ڈال دیا جائے تو موت واقع ہو سکتی ہے۔ میرا کہنے کا مطلب ہے کسی بھی ایک پر خان کی سیکیورٹی کا اکتفا نہ کیا جائے۔ 1979ء میں اگرچہ اڈیالہ جیل کے انچارج مسٹر اللہ یار خان تھے مگر بھٹو کی سیکیورٹی کے انچارج اڈیالہ جیل میں ایک کرنل تھے۔ کرنل صاحب نے، بھٹو کے ساتھ 303دن، نامی کتاب بھی لکھی ہے جس میں بھٹو کے شب و روز، ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ہائیکورٹ سے سزا کے بعد ان کی سوائے نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے کسی اور سے ملاقات نہیں ہوتی تھی ، موصوف لکھتے ہیں نصرت اور بے نظیر گفتگو راز میں رکھنے کے لئے بھٹو کے ساتھ لیٹ جاتیں اور کانوں میں بات کرتے مگر کسی نہ کسی طور بات ہم تک پہنچ جاتی وہ لکھ کر بھی بات کرتے غیر ضروری باتیں کمرے سے نکلتے ہی جلا دیتیں کہیں کوئی ان سے چھین نہ لے۔ بھٹو کی خواہش ہوتی ضیاء سے خواتین ملاقات کرکے بات بڑھائیں لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل کے دوران وہ خود ایڈووکیٹ جنرل سے کہہ چکے تھے مجھ سے کام لیں مجھے مارنا کیوں چاہتے ہیں مگر ایڈووکیٹ جنرل کیا کہہ سکتے تھے، بھٹو کا میسیج کبھی بھی ضیاء تک نہ پہنچ سکا۔ کچھ لوگوں کی رائے تھی بے نظیر اور نصرت بھٹو کو زندہ بھٹو سے زیادہ لاش میں دلچسپی تھی تاکہ وہ لاش لے کر نکلیں اور ضیاء اور اس کی طاقت کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیں۔ سری لنکن وزیر اعظم نائیکے اور اس کی بیوی کی مثال سامنے تھی نائیکے کے قتل کے بعد اس کی بیوی بندرا نائیکے وزیر اعظم بنیں اور بیٹی صدر یہ سب کچھ ہو چکا تھا۔ اقتدار کی ہوس میں رشتے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ بلاول اور بے نظیر کی بیٹیاں جانتی ہیں ہماری ماں کا قاتل کون کون ہے مگر کبھی انہوں نے قاتل کو ڈھونڈنے کی ضد نہیں کی۔ خود بے نظیر نے نصرت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اطلاع ہے آخری وقت نصرت کا فائونٹین ہائوس میں گزرا ۔ لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے خان کی سیکیورٹی کا اکتفا کسی فرد واحد چاہے وہ بیوی ہو بہن ہو سیکیورٹی والے ہوں نہ کیا جائے، ایک فول پروف نظام بنوایا جائے۔ پارٹی ذمہ داری لے۔





