غلاموں کی آزاد منڈی الیکشن2024 کے بعد

نذیر احمد سندھو
مارشل لاء اور پاکستان کا بہت قریب کا رشتہ ہے۔ آئین جب نافذ ہو جائے تو اس کے کسی پیج پر کسی کلاز یا آرٹیکل میں یہ نہیں لکھا ہوتا کوئی بندوق بردار آئین کو برخاست کر سکتا ہے حتیٰ کہ پارلیمنٹ جو آئین کی خالق ہوتی ہے اور اسے نافذ بھی کرتی ہے وہ بھی آئین کو برخاست نہیں کر سکتی ہاں ترمیم کر سکتی ہے۔ پاکستان کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں آئین نافذ بھی ہوئے برخاست بھی، قانون محض کتابوں کی شیلفوں تک محدود ہے، بے گناہ پھانسی بھی چڑھتے ہیں اور قاتل قانون کی حفاظت میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں، یعنی قانون مجرموں، قاتلوں کو گارڈ کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں طاقت برائے فروخت ہے، بس خریدار کی جیب میں ڈالر، پونڈ، یورو ہونے چاہئیں اور بھاری تعداد اور مقدار میں ہونے چاہئیں، پھر دیکھنا طاقتوروں کی پھرتیاں، کتنی تیزی سے خود کو بازار میں برائے بولی پیش کرتے ہیں۔8فروری2024ء کو الیکشن ہونے کا اعلان ہے ،1977ء میں بھی 90روز کے اندر الیکشن کے انعقاد کا اعلان ہوا تھا مگر الیکشن کے انعقاد کے چند دن قبل الیکشن ملتوی طاقتوروں نے کر دئیے تھے، اب بھی ایسا ہو سکتا ہے، اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کے اندر دہشتگردی کے خطرات کا شوشہ تو چل چکا، اس شوشے کو الیکشن کے التوا کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، کچھ نیزے، بھالے اور بھی کا م دکھا سکتے ہیں۔2024ء کے الیکشن 1985ء کے الیکشن کا پرتو لگتے ہیں، دانشوروں کی رائے ہے 1985ء کے Non Partyالیکشن نے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچایا تو پھر کیا 2024ء کے آزاد امیدوار جن کی تعداد 11000بتائی جاتی ہے جو کل امیدواروں کا 65%ہیں خادمین جمہوریت ہونگے، نہیں نہیں ، الیکشن2024ء کے نتائج سایہ 1985ء ہوسکتے ہیں ۔ چھوڑو کیا فرق پڑتا ہے جو خادمین امریکہ میں ہیں نہ انہیں جمہوریت چاہیے، نہ پاکستان کی بقا سی دلچسپی ہے، نہ سالمیت اور نہ معیشت، انہیں امریکہ کی خوشنودی، ڈالر اور خاندانی ترقی، یورپ میں سکونت اور یورپ کی پُرتعیش زندگی میں دلچسپی ہے۔ پاکستان، پاکستانی عوام، جمہوریت، سالمیت، معیشت جائیں بھاڑ میں ۔
عرفان صدیقی جو صحافیوں میں نواز شریف کے سب سے قریب ہیں، فرماتے ہیں عمران دس زندگیوں میں بھی سیاستدان نہیں بن سکتا، یقینا درست عرفان صدیقی کا سیاستدان عمران نہیں بن سکتا۔ عرفان کا سیاستدان کیسا ہے، کرپشن میں یکتا ہو، کوئی اس کا ثانی نہ ہو، قوم کا سرمایہ لوٹ کر دنیا بھر میں اثاثے بنائے، چوروں کا سردار ہو، شیطان صفت ہو، ذات ، خاندان کو قوم پر ترجیح دے، جھوٹ بولنے میں یکتا ہو، سچ بولنے سے مکمل پرہیز کرے۔ عمران میں یقینا ایسے سیاستدان والی کوئی بھی خوبی نہیں اور نہ ہی دس جنم تک ہو سکتی ہے۔ عرفان صدیقی میاں برادران کے بعد آصف زرداری کو ہی سیاستدان مانتے ہیں، باقی تو سب ان کا سایہ ہیں، بیچارہ عمران خان سیاستدان کیسے ہو سکتا ہے۔ عرفان صدیقی سے پوچھا جائے رستم کیانی کیا جج تھا تو وہ یقینا کہیں گے جج نہیں احمق تھا، ایوب خان نے اسے قریب آنے کا موقع دیا تو اس نے استعفیٰ ٹھوک دیا، اس کی دیکھا دیکھی باقی ججز نے بھی استعفے دے دئیے، جسٹس کارنیلیس بھی جج تھا جس نے انصاف بیچنے کی بجائے انصاف کیا، جج تو ہوتے ہیں افتخار چودھری جیسے، بندیال جیسے، نثار جیسے، پارٹی باز، دیہاڑی باز یہ کون سی ججی ہوئی کمانے کا موقع ملا تو گنوا دیا۔ صدر ہو تو تارڑ جیسا۔ کمائو، لٹو، لٹائو، جو بکتا ہے بیچو، یہ دنیا 4دن کی ہے، آخرت کو چھوڑو، ایہہ جگ مٹھا اگلا کس ڈٹھا ( دیکھا) تمام راشیوں، چوروں، اچکوں، ان کے مصاحبین کا یہی ایمان ہے، باقی سب دکھاوا۔ اب میں بتاتا ہوں سیاستدان کی تعریف، جسے معلم، مہذب، جمہوری دنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے ۔ ( ایسا سیاسی انجینئر ہنر مند جو قوم کا زیادہ سے زیادہ فائدہ کرنے کا ہنر جانتا ہو، اگر نقصان ناگزیر تو اسے کم سے کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور یہ فائدہ یا نقصان صرف قومی لیول پر کرے ذات یا خاندان کا کوئی تعلق نہ ہو) ۔ یقینا عرفان صدیقی کے میاں برادران، زرداری یا اس قماش کے رنگبازوں کا سیاست یا سیاستدانی سے تو کوئی تعلق نہیں، البتہ عمران اگر 100فیصد نہیں تو 80فیصد سیاستدان ضرور ہے۔ لائف آف محمدؐ کا مصنف اور اسلام کا متعصب ترین رائٹر ولیم میورلے اس تعریف کو نہ صرف مانتا ہے بلکہ لکھتا ہے محمدؐ ایک مکمل سیاستدان تھے اور ان کے بعد عالم عرب میں ابوبکرؓ اس تعریف پر پورے اترتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کا جو دور حکومت ہے اسے زرداری اور میاں برادران یا ان جیسوں کے مصاحبین عوامی جلسوں میں تو مانتے ہیں، مگر تنہائی میں اپنی محفلوں میں کتابی کہانیاں گردانتے ہیں۔
معروف قانون دان سلیمان اکرم راجہ عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار قومی اسمبلی ہیں، انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کر دی ہے۔ راجہ کا موقف ہے ان کی پارٹی الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے، لہذا پی ٹی آئی نے جن امیدواروں کو نامزد کیا ہے وہ آزاد نہیں وہ پارٹی کے امیدوار ہیں اور میں پارٹی کا نامزد ہوں لہذا مجھے الیکشن کمیشن آزاد نہیں پی ٹی آئی کا امیدوار تسلیم کرے۔ چونکہ پارٹی سے نشان بلا چھین لیا ہے لہذا پارٹی امیدوار جس نشان پر الیکشن لڑیں الیکشن کمیشن ان کو پارٹی کا امیدوار تسلیم کرے نہ کہ آزاد۔ عدالتوں سے امید، چلو ہم راجہ کی امید کو سپورٹ کرتے ہیں، ساتھ اس نے قرآن پر حلف اٹھا کر یہ اعلان کرنے کی اچھی رسم ڈالی ہے اور سب امیدواروں کو تلقین کی ہے سب قرآن پر حلف لیں وہ جیت کر پی ٹی آئی جائن کریں گے، پارٹی اور پارٹی لیڈر عمران خان کے وفادار رہیں گے ۔





