Column

ادب اطفال کا ایک نابغہ

تحریر : صفدر علی حیدری
یہ شاید انیس سو نوے بانوے کا ذکر ہے جب ہم بچے ہوا کرتے تھے اور ادب اطفال پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچا کرتے تھے ۔ یا یوں کہیے ہاتھ صاف کرتے تھے ۔ ایسے میں کچھ بچوں کے رسائل اور کچھ اخبار کے چلڈرن ایڈیشن ہماری مدد کو موجود ہوتے ۔ اب یہ یاد ہے نہ اندازہ کہ ہماری وہ تحاریر کس معیار کی تھیں ، یہ ضرور ہے کہ چھپ جاتا کرتی تھیں ( آج البتہ یہ کام مشکل ہے ) کاش ان کا ریکارڈ سنبھال کر رکھ سکتے تو ان کو پڑھ کر یہ طے ہو سکتا تھا کہ ان کا معیار کیسا تھا۔
ان دنوں خبریں کا چلڈرن ورلڈ ، نوائے وقت کا پھول اور کلیاں اور روزنامہ پاکستان کا بچوں کا میگزین خاصے کی چیز ہوا کرتے تھے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان دنوں بچوں کے درجنوں شمارے شائع ہوتے تھے مگر ہمیں ان سے زیادہ اخباری ایڈیشن اچھے لگتے تھے کہ ہفتہ میں کسی نہ کسی ایڈیشن میں ہماری کہانی چھپ جایا کرتی تھی ۔
ہمیں ذاتی طور پر خبریں کا چلڈرن ورلڈ زیادہ پسند تھا ۔ وہیں ہم نے ’’ ایک آیت ایک کہانی ‘‘ اور’’ ایک حدیث ایک کہانی ‘‘ کے عنوان سے کچھ کہانیاں تواتر سے شائع ہوتی دیکھیں۔ تب پہلی بار یہ نام ’’ نذیر انبالوی ‘‘ پڑھنے کو ملا ۔ یہ ہمارا ان سے پہلا غائبانہ یک طرفہ تعارف تھا۔
کچھ سال کے بعد ہم نامہ نگاری اور کالم نگاری کی طرف آ گئے تو بچوں کے لیے لکھنا موقوف ہو گیا اور ادب اطفال پڑھنا بھی۔
کالم نگاری ڈٹ کر کی اور بہت سے کالم لکھے مگر اور ملک کے ایک قومی اخبار میں لکھے ۔۔۔۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب ہمارے لیے جگہ تنگ پڑ گئی تو مجبوراً ہمیں کالم نگاری کو خیر باد کہہ کر افسانہ نگاری اور افسانچہ نگاری کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔
یہ دو ہزار اکیس کا ذکر ہے ہم نے ادب اطفال پر اپنی پہلی کتاب ’’ گھڑی کی ٹک ٹک ‘‘ شائع کی اور یوں ہمارا ادب اطفال سے رشتہ پھر سے جڑ گیا۔ ہم نے خود سے عہد کیا کہ اب سے ہر سال بچوں کی ایک کتاب سامنے آئے گی ۔ پھر دو ہزار بائیس میں ایک پہیے کی سائیکل اور دو ہزار تئیس میں کمزور چوزا اور دو ہزار چوبیس سے ہر سال دو کتابیں۔ ایک اردو میں ایک سرائیکی میں۔ ان شاء اللہ
خیر موضوع کی طرف پلٹتے ہیں ۔ کوئی مہینہ بھر پہلے نذیر انبالوی صاحب کا واٹس ایپ پر ایک وائس نوٹ موصول ہوا جس میں انہوں نے جہان پاکستان میں چھپے میرے کالم ’’ لفظوں کو تحریریں سہنی پڑتی ہیں ‘‘ پر اظہار پسندیدگی کیا تو بڑی خوشی ہوئی اور یوں ان کے ساتھ تعارف دو طرفہ ہو گیا۔
پھر ان کے بارے میں معلومات حاصل کی تو یہ دیکھ کر حیرت و مسرت کا بے پایاں احساس ہوا کہ انہوں نے ادب اطفال کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ انہوں نے ادب اطفال میں گراں قدر اضافے کے لیے خوب خوب قلمی جوہر دکھائے۔ بچوں کی پانچ ہزار سے زائد طبع زاد کہانیاں لکھ چکے ہیں۔
آیت کہانی، حدیث کہانی، قول کہانی، شعر کہانی، خبر کہانی اور لفظ نگر جیسے لازوال سلسلے شروع کئے۔ بعد میں اس سے کماحقہ استفادہ کیا اور قلم کاروں نے ان سلسلوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان پر کہانیاں لکھیں ۔ ( ایک آیت ایک کہانی، ایک حدیث ایک کہانی اور ایک قول ایک کہانی ہم نے ان کی اقتداء میں لکھی )
آپ کی پچاس سے زائد کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ آپ تعلیم و تربیت کے مدیر رہے اور اب اقراء کی ادارت کر رہے ہیں ۔ وہ واقعی ایک بڑے ادیب ہیں۔ ادب اطفال میں تو شاید ان کے پائے کا کوئی ادیب ملنا مشکل ہی ہے۔ وہ اب بھی متحرک ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر ان نابغہ لکھنے کی وجہ دوسری ہے۔ وہ صرف ادیب نہیں ، ادب اطفال کے محسن بھی ہیں۔ ایک ادارہ ہیں، اپنی ذات میں انجمن۔
محمود شام نے بجا طور پر لکھا ہے کہ جو کام ریاست کے کرنے کے ہیں وہ ایک شخص تن تنہا کر رہا ہے۔
جو بات آپ کے علمی قد کاٹھ کو بلند کرتی اور نابغہ کے مقام پر لے جاتی ہے وہ ہے
’’ بچوں کے ادب کی الف لیلہ ‘‘
جس کی اب تک آٹھ جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ یہ سلسلہ بیس جلدوں تک جائے گا۔ وہ ان بیس جلدوں میں ’’ ایک ہزار ایک ‘‘ کہانیوں کا انتخاب ہو گا۔
اس قلمی معجزے کی شروعات کیسے ہوئی یہ بھی ایک دلچسپ داستان ہے ۔23جون 2001ء کی تپتی دھوپ میں وہ بچوں کے صاحب طرز قلم کار سید نظر زیدی سے ملنے، ان کے گھر واقع وحدت کالونی گئے۔ وہاں انہوں نے رسائل میں چھپنے والی تحاریر کو کتابی صورت میں سامنے لانے کی بات کی۔ انبالوی صاحب نے جھٹ سے اس کام کی حامی بھر لی۔ اب تک شائع ہونے والی نو جلدوں میں چار سو سے زائد کہانیوں کا انتخاب پیش کیا جا چکا ہے۔ ان کا ٹارگٹ یہ ہے کہ وہ 1947ء سے 2022ء تک رسائل میں شائع ہونی والی کہانیوں کا انتخاب پیش کریں گے۔
یہ ایک ایسا کام ہے جس کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔ ایک یہی کارنامہ ایسا ہے کہ جس کے انہیں ادب اطفال میں ایک افسانوی حیثیت دے دی ہے۔ یقیناَ وہ امر ہو چکے ہیں۔ ان کو میں نے بجا طور پر نابغہ کہا ہے۔ وہ ادب اطفال کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔
اپنی تعلیمی مصروفیات کے باوجود وہ بچوں کے لیے کام کرنے سے باز نہیں آتے۔ نئے قلم کاروں کے لیے تربیتی سلسلہ مقبولیت کی سند حاصل کر چکا ہے۔ ان کے علمی کارناموں کو سراہتے ہوئے ایم فل کا مقالہ لکھا جا چکا ہے۔
ادیب تو ہر دور میں ہوتے ہیں اور بڑی تعداد میں ہوتے ہیں ۔ ان کا اولین کام ادب تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ ہاں مگر ایسے انگلیوں پہ گنے جا سکتے ہیں جن کا کام محض ادب تخلیق کرنا نہیں ہوتا۔ ادب کا فروغ بھی ان کا کام ہوتا ہے۔ ادب کی ترویج اور نئے ادیبوں کی رہنمائی بھی کا فریضہ بھی وہ اپنے ذمہ لے چکے ہوتے ہیں۔ نذیر انبالوی صاحب ایسے نادر روزگار ادیب ہیں کہ ادب کی تخلیق تحقیق اور ترویج ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت ادیب بھی ہوتے ہیں، ادب نواز بھی، ادب پرور بھی ہوتے ہیں ادب دوست بھی۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں لمبی اور صحت والی زندگی عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

جواب دیں

Back to top button