اب کیا ہو گا؟

تحریر : سیدہ عنبرین
قیام پاکستان کے بعد اول فکر تو دال روٹی پوری کرنے کی تھی، جن کے گھر میں دانے تھے ان کے کملے سیانے ہی نہیں بڑے سیانے تھے، لہٰذا سیاست میں آ گئے اور کوئی کام کاج بھی تھا۔ زمانہ سیدھا اور لوگ سادہ زندگی بسر کرتے تھے بات کا پاس رکھا جاتا تھا، روز مرہ زندگی میں جھوٹ کا نام و نشان نہ تھا، لیکن جان جانے کے خطرے کے پیش جھوٹ جائز سمجھا جاتا تھا، پھر جھوٹ نے سچ کو مات دے دی، پھر رفتہ رفتہ ملک کے طول و عرض میں جھوٹ کی حکمرانی نظر آئی ۔ اب کسی سے پوچھا جائے کہ آپ نے فلاں بات جھوٹ کی جس پر فخر سے کہا جاتا ہے وہ میرا سیاسی بیان تھا، ازخود اختیارات کے تحت بنے ہوئے جعلی فرزند راولپنڈی ایسے ہی ایک سیاسی بیان کے سب چلہ فیز ٹو کاٹ رہے ہیں، گمان ہے ان کے پر مکمل طور پر اب کٹ جائیں گے، پھر وہ قدم قدم پھدک تو سکیں گے، قوت پرواز اسی طرح غائب ہو جائے گی جس طرح ایک قوت ان میں کبھی تھی ہی نہیں۔
سیدھے زمانے اور سادے لوگوں کی بستی میں روپے دوگنے کرنے والے نہیں تھے، ملک سے باہر بھجوانے کے نام پر فراڈ بھی شروع نہ تھا، رشوت لے کر سرکاری نوکری دلانے کا تو تصور ہی نہ تھا، کیونکہ حکمران میرٹ پر تھے اور بیشتر کام میرٹ پر ہی ہوتے تھے، پیٹ بھرنے کیلئے دو لقمے ملنے لگے تو دماغ کے سوئے سوتے جاگے۔ ہر چوتھے گائوں میں ایک سنیاسی بابا ظاہر ہوا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ سونا بنانے کی ترکیب جانتا ہے، اس لالچ میں اسے کئی ویلے مشٹنڈے میسر آ گئے، جنہوں نے سونا بنتے ہوئے دیکھتے اور پھر اس کام کو سیکھنے کیلئے اپنے گھر بار ان سنیاسیوں کے ہاتھوں برباد کرا دیئے، دوچار کو لوٹنے کے بعد سنیاسی بابا ایک ہی بیان جاری کرتے کہ سونا تو تیار ہو ہی چکا تھا بس ایک انچ کی کسر رہ گئی۔
فرزند راولپنڈی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، چلہ مکمل تو ہو گیا لیکن ایک انچ کی کسر رہ گئی، انہوں نے چلہ اول سے واپسی پر 9مئی کے واقعے کی مذمت کی، ساتھ ہی بتایا کہ کسی نے ان کے کپڑے نہیں اتارے نہ ہی انہیں بے آبرو کیا گیا۔ یہ سب کچھ تو انہوں نے خاموشی سے برداشت کر لیا جو چلہ انتظامات کرتے ہیں لیکن دوران چلہ کیا گیا وعدہ وفا نہ کرنا قابل برداشت نہ تھا۔ زمانہ ساز شیخ نے انہیں چکر دینے کی کوششیں کی، ایک کلب میں قوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگے ہیں حلقہ 56۔57سے قومی اسمبلی کا امیدوار ہوں، آپ جانتے ہیں میں کتنا اصل اور کتنا نسلی ہوں، میرے حلقے کی مائیں، بہنیں اور بھائی مجھے ان دونوں حلقوں سے ووٹ دے کر کامیاب کرائیں، میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں دوست نواز شخص ہوں، ہر قیمت پر دوستی نبھائوں گا۔ شیخ کا بیان یوں تو بے ضرر سا تھا لیکن بیان کے آخر میں انہوں نے مخول ہی مخول میں جس دوستی نبھانے کا اشارہ دیا بلکہ اپنے ووٹرز کو ’’ جھاکا‘‘ دیا وہ سب کی سمجھ میں آ گیا، بس فیصلہ ہوا کہ پہلے چلے کے دوران کہیں کوئی کسر رہ گئی ہے وہ پوری کر دی جائے۔ سیاسی سنیاسی شیخ صاحب نے ایک بیان میں دو طبقوں کو چکر دینے کی کوشش کی اور پکڑے گئے، چلہ انتظامیہ سے کہا میں آپ کا تابعدار ہوں اور عوام سے کہا مجھے ووٹ دیں، میں اسی سے دوستی نبھائوں گا جس سے دوا لینے پر بیمار ہوا ہوں۔
جس عطار کے لونڈے سے دن رات دوا لیتے ہوئے انہوں وزارت داخلہ حاصل کی اور اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کی، اس نے ان کے سر پر سے ہاتھ اٹھا لیا اور واضح کر دیا کہ پی ٹی آئی شیخ رشید کو ووٹ نہیں دے گی نہ ہی انہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ملے گی، اس صورتحال میں گمان ہے زندگی میں پہلی مرتبہ شاید ان کی ضمانت ضبط ہو جائے کیونکہ ان کے مقابل مسلم لیگ ( ن) نے آج کا مضبوط اور ماضی کا مظلوم امیدوار اتارا ہے، جسے ایفی ڈرین کیس میں سزا سنائی گئی تھی۔
انکل عطاء بذات خود بہت بڑے فنکار واقع ہوئے ہیں، انہوں نے متمول دو نمبر افراد کو برس ہا برس لارا دیئے رکھا کہ انہیں قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا، ایسے افراد زمانہ امن و اقتدار میں ان پر کروڑوں روپے لٹاتے رہے، ایسے ہی ایک صاحب نے محبت میں دولت کی برسات کرتے ہوئے تمام حدیں پار کر دی تھیں، انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا لیکن چند روز قبل ایک مزید موٹی اسامی ساتھ آنے پر ان سے ٹکٹ واپس لے کر نئی اسامی کو دے دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ( ن) کے راہنما مہتاب خان عباسی نے اپنے علاقے سے پی ٹی آئی راہنما اور امیدوار کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے، جس پر ان کی بنیادی رکنیت معطل کر دی گئی ہے، اپنے ہی سیاسی قافلوں پر امیدواروں کی طرف سے فرینڈلی فائرنگ کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ نارووال میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ہے، جس میں کوئی شخص ہلاک یا زخمی نہیں ہوا، ایسے واقعات میں غریب مائوں کے بچے مارے جاتے ہیں، امیدوار معجزانہ طور پر بچ نکلتے ہیں۔ عوام کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کا یہ خطرناک طریقہ رواج پا رہا ہے۔
گاما، بھولو پہلوان رستم زماں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے سیاسی پہلوان میدان میں اترے ہیں، وہ کچھ بیمار شیمار تھے یا نہیں اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، دو ماہ قبل جب وہ لندن سے واپس ہوئے تو نعرہ تھا کہ ان کی جماعت انتخابات میں کلین سویپ کرے گی اور دو تہائی اکثریت تو ان کی جیب میں پڑی ہے، اب رنگ محفل دیکھ کر اپنے ذاتی طور پر مرتب کردہ نتائج پر نظرثانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ خیال تازہ کے مطابق کہتے نظر آتے ہیں سادہ اکثریت تو مل ہی جائے گی۔ پہلوان جی نے لیہ میں ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرنا تھا کہ رپورٹ ملی لیہ میں آپ کیلئے حالات ساز گار نہیں، یوں دورہ لیہ منسوخ کرنے کے بعد اب صوبہ خیبر جانے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ خیبر کا میدان آسان نہیں، بیرونی حملہ آور جو بھی آیا، جب بھی آیا، اسے منہ کی کھانی پڑی۔ مقامی حالات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے وہاں کس قسم کی صورتحال کا سامنا ہو گا۔ معاملہ بند کمروں اور حجروں تک رہا تو ٹھیک کھلی جگہوں پر ہوا تو زبردست پذیرائی منتظر ہو گی۔
شیر شاہ سوری کی پسندیدہ گرویدہ ایک ٹی وی اینکر مائیک اٹھا کر سیالکوٹ کے دورے پر نکلیں، انہوں نے گلیوں، بازاروں میں راہ گزرنے والے عام لوگوں سے پوچھا ووٹ کس کو دیں گے، سو میں سے نوے لوگوں نے جواب دیا ’’ خان‘‘ کو ، پھر پوچھا گیا اسے کیوں ووٹ دیں گی، جواب دینے والوں نے کہا لیڈر ہی وہی ہے جس نے عوام کیلئے بہت کچھ کیا۔ لندن نہیں بھاگا، ڈیل نہیں کی، قید میں تو ہے مگر ہمارے دل میں بھی ہے لہٰذا ووٹ اسی کو دیں گے۔ سیالکوٹ مسلم لیگ کا دوسرا گھر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن گھر اسی وقت تک گھر رہتا ہے جب گھر والے گھر میں رہیں، گھر چھوڑ کر جانے والوں کے گھر جنوں بھوتوں کا مسکن بن جاتے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں اندر سے ایک ہیں، لیکن ایک بھوت انہیں صبح شام، دن دھاڑے اور رات کے اندھیرے میں آ کر ڈرا رہا ہے کہ سب کو کچا کھا جائے گا، سب سہمے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو سہمی سہمی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں اب کیا ہو گا؟۔





