پاکستان پر ایران کا حملہ اور پی ٹی آئی کا اندرونی خلفشار

نذیر احمد سندھو
جب کوئی فرد یا ملک کمزور ہو جاتا ہے تو وہ ہر ایرے غیرے کی بہو بن جاتا ہے جس پر ہر کوئی لائن مارتا ہے۔ پاکستان اس وقت کمزور کی بہو ہے، سابق چیف اور اس کے پیروکاروں نے جس طرح پاکستان کی جمہوریت جمہور، معیشت اور خزانے سے کھلواڑ کیا، توپوں کو زنگ اور ٹینکوں کے آئل ٹینک خالی ہونے کا اعتراف کیا اس نے ہر نتھو خیرے کو پاکستان پر چڑھ دوڑنے کی راہ دکھائی۔ بھارتی افواج نے مشقوں کے بہانے کشمیر بارڈر پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں، دکھاوا چین ہے دھاوا پاکستان ہے، یعنی چین تو بس بہانہ ہے پاکستان اصل نشانہ ہے۔ افغانستان سے آئے دن پاکستان طلباء برانڈ سے حملے ہوتے ہیں، روزانہ درجنوں پاکستانی جان سے جاتے ہیں۔ افغانی حکومت سے احتجاج کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں وہ پاکستانی ہیں روک سکتے ہو تو روک لو اور ہمارے طاقتور خاموش ہو جاتے ہیں۔ ایک تو ڈر لگتا ہے افغانی ماریں گے، انہوں نے تو ہمارے آقا کو بتا دیا Absolutely notکے کیا معنی ہیں، ہم کس باغ کی مولی ہیں، دوسرے مارے جانے والے جوان تھے، یقینا پی ٹی آئی کے ووٹر ہوںگے۔ افغان جنرل مبین روز نام لے لے کر پاکستانی فوج کو گالیاں دیتا ہے۔ افغان حکومت پاکستان کی کسی بات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ پاکستان نے افغانوں کو ملک سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا وہ بھی افغانیوں کے دبائو کا شکار ہو گیا۔ اب ایران نے بھی پاکستان پر حملہ کر دیا اور حملے کا جواز پیش کیا معذرت نہیں کی۔ ایرانی بارڈر سے سالوں سے بھارت پاکستان کے اندر جاسوسی، در اندازی کر رہا ہے۔ ایران بھارتی دراندازی سے آگاہ ہے مگر جب تک کلبوشن پکڑا نہیں گیا ہماری نمبر ون ایجنسی کو پتہ ہی نہیں چلا، بھارت سے براہموس آیا، میانچنوں کے قریب گرا، ہماری نمبر ون کو پتہ ہی نہیں چلا۔ اب ایران نے میزائل پھینکا، ڈرون حملہ کیا، ہماری نمبر ون کو پتہ ہی نہیں چلا۔ پاکستان نے سفیر واپس بلا لیا ہے اور وزارت خارجہ نے بیان جاری کر دیا ہے ہم اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ بھائی بہن وزارت خارجہ ایران نے جب حملہ کیا تھا اسے معلوم تھا مضروب دفاع کا حق یا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے، اسے ہماری اوقات کا علم ہے۔ منافقت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، ہم افغانیوں پر احسان جتاتے ہیں، وہ ہمیں دھوکے باز کہتے ہیں۔ ہم چین کو دوست کہتے ہیں وہ ہمیں نا قابل اعتبار سمجھتے ہیں، ہم ایران کو بھائی کہتے رہے وہ قصائی کہتے رہے، آج کوئی بھی ہم پر اعتبار نہیں کر رہا۔ بھارت ایران کا یار غار تو امریکہ سے رومانس، اسرائیل کو بھی اسلحہ بیچ رہا ہے۔ فلسطینیوں سے بھی یارانہ ہے، الفتح کے مرحوم لیڈر یاسر عرفات نے پاکستان سے کہیں زیادہ بھارت کے دورے کئے۔ اسرائیل سے رومانس ہے، حماس سے بھی دشمنی نہیں، اسے کہتے ہیں خارجہ پالیسی۔ سفیر واپس بلا لیے ہیں دو دن تک کوئی نئی بریکنگ نیوز آ جائیگی، ایرانی حملے کی باز گشت دب جائیگی، سفراء کا پھر تبادلہ ہو جائیگا اور پاکستان اسی تنخواہ پر کام کرتا رہیگا۔ ایران تو ایران اگر کسی دن مالدیپ نے بھی حملہ کر دیا تو ہم حق دفاع کے بیان تک ہی محفوظ رہیں گے۔ قارئین! یہ تو تھی ایرانی واردات پاکستان کے خلاف۔
یمنی حوثیوںنے اسرائیل کا آئل ٹینکر ریڈ سی میں اڑا دیا، حوثی مسلح قبائل ہیں، جنہیں ایران مسلح کرتا ہے بہر حال یہ پرائیویٹ آرمیز ہیں اور امریکہ اسرائیل سے ٹکرانے کا عزم رکھتی ہیں۔ ایران نے عراق میں موساد کے خفیہ کیمپ پر 1230میل دور میزائل حملہ کیا ہے اور ٹارگٹ کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔ حوثی اسرائیل پر حملوں میں حماس کی مدد کر رہے تھے لہذا امریکہ اور برطانیہ نے حوثیوں پر حملے کئے جس کے جواب میں حوثیوں نے ریڈ سی میں اسرائیلی تیل بردار ٹینکر کو آگ لگا دی۔ بلوم برگ ٹی وی پر امریکہ برطانیہ نے حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، جس سے جنگ کے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ امریکی آئل کمپنی شیل نے عدم تحفظ کی وجہ سے اپنے آئل ٹینکرز کی ٹریفک روک رکھی ہے، جس سے آئل کی قیمتیں بڑھنے کا امکان ہی، دنیا مہنگائی کی نئی لپیٹ میں آنے والی ہے۔ ایران کا پاکستان پر حملہ بھارتی تخریبی حکمت عملی ہو سکتی ہے، جس میں ایران شائد نا عاقبت اندیشی کی وجہ سے پھنس سکتا ہے۔ امریکہ پاکستان پر دبائو ڈال کر جوابی حملہ کرا سکتا ہے، یہ صدام کے دور کی عراق، ایران جنگ کا نقشہ ہو گی، جس میں دونوں متحارب ملکوں کا نقصان ہو گا، فائدہ صرف امریکہ، اسرائیل کا ہو گا۔ گو میرے جذبات بھی مجروح ہوئے ہیں جس کا میں نے کالم کی ابتدائی لائنوں میں اظہار کیا ہے، مگر عقل کا تقاضا ہے ایران وضاحت د ے اور پاکستان درگزر سے کام لے۔ پاکستان اس ضمن میں ہندوستان کی پیروی کرے۔ ہندوستان جس طرح چینی فوجوں کی دراندازی کے با وجود درگزر سے کام لے رہا اور چینی افواج کی کارروائیوں کو نظر انداز کر رہا ہے، پاکستان بھی ایران کی کاروائی کو نظر انداز کرے۔ اسرائیل کی خواہش ہو گی ایرانی میزائل اسرائیل کی بجائے پاکستان پر برسیں اور پاکستانی میزائل ایران پر۔ دشمن کو دشمن کے سینے میں مارو، کوئی مرے ہمیں کیا ہمارے تو دونوں دشمن ہیں۔
تحریک انصاف کو باہر سے ہر طرح کا قانونی آئینی جوڈیشل نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی سے ریاستی اداروں نے میمنے سے بھیڑیے والا رویہ اپنا رکھا ہے، جو ہم نے ابتدائی کلاسوں کی کہانیوں میں پڑھا تھا، بلے کا نشان چھین لیا، پارٹی کی رجسٹریشن مشکوک بنا دی گئی، ریزرو سیٹیس سے محروم کرنے کا ڈھونگ رچایا گیا۔ عمران جیسے سلجھے ہوئے انسان پر جو تین ہسپتال، یونیورسٹیاں بنا چکا، برطانوی یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہا، اس کے خلاف202مقدمات کا اندراج، جیل میں ٹرائل، دہشت گردی کی شقیں، کارکن مہینوں سے جیل میں، جعلی طریقے سے کاغذات نامزدگی کی تنسیخ، بد ترین سلوک ہو رہا، مگر افسوس اس بات کا ہے پارٹی کے اندر بھی کچھ لوگ ذاتی انا کی وجہ سے باعث زحمت ہیں۔ شعیب شاہین تو کل پارٹی کا حصہ بنے ہیں، حامد خان کی سمجھ نہیں آ رہی، یہ شخص پہلے تو تحریک انصاف کو اپنے سٹیٹس کا نہیں سمجھتا تھا، خان صاحب کی واضح ہدایت کے باوجود یہ اپنا تعارف اپنا پی ٹی آئی کا سینئر نائب صدر کی بجائے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ہی کراتا،2011ء کے بعد یہ عملی طور پر پارٹی سے علیحدہ ہو گئے۔2022ء میں خان نے ملاقات کے لئے بلایا اور پارٹی میں مستعد نظر آنے لگے، شہباز گل کے چیف آف سٹاف بننے پر شہباز پر برسے اور اب فواد حسن فواد کے بھائی سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن جو یقینا مستقبل کا اسد عمر ثابت ہو گا، سے مل کر شیر افضل مروت کیخلاف مہم چلا رہے ہیں۔ شیر افضل کی سرگرمیاں مشکوک ہو سکتی ہیں، مانا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کھیل رہا ہے، کھیلنے دو وہ جو بھی کھیل رہا ہے، پارٹی کے مفاد میں ہے۔ حامد خان اور رئوف حسن پنجاب میں اتریں اور شیر افضل کی طرح پارٹی کو activteکریں، صرف پریس کانفرنسز سے تو کام نہیں چلے گا، شیر افضل انصافیوں کو لیڈر شپ فراہم کر رہا ہے، جو وقت کی ضرورت ہے، وہ سچا ہے تو کسی سے بھی بڑا لیڈر بن سکتا ہے مگر عمران کے سامنے چیونٹی ہی رہے گا۔ اس لئے معاملے کو الجھانے کی بجائے شیر افضل سے کام لیا جائے، اگر وہ غلط نکلا تو عمران کے ایک لفظ سے زیرو ہو جائیگا۔ پھر حامد خاں، رئوف حسن اور شعیب شاہین کو ڈر کاہے کا۔





