پاک ایران کشیدگی، صورتحال ڈی فیوز کرنا ضروری

محمد ناصر شریف
پاکستان اور ایران کے مابین پاکستانی صوبہ بلوچستان اور ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے ساتھ 909کلومیٹر پر محیط ایک لمبی سرحد ہے۔ ایرانی صوبہ سیستان میں بلوچ سنی اقلیت آباد ہے۔ پاکستان کو ماضی میں بھی ایران کی جانب سے سرحد پار سے دراندازی پر تحفظات رہے ہیں۔16جنوری کی درمیانی شب ایران نے بلوچستان پر میزائل حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں دو بچیاں شہید جبکہ تین بچیاں زخمی ہوگئیں، ایران کی جانب سے کہا گیا کہ جیش عدل کے ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ایران کے اس غیرقانونی اقدام کے بعد خطے میں ایک نئی کشیدگی کا آغاز ہوگیا۔
پاکستان نے خود مختاری کی خلاف ورزی کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے نہ صرف ایران کی جانب سے اپنی فضائی حدود کی بلا اشتعال خلاف ورزی کی شدید مذمت کی بلکہ ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج بھی کیا اور ایران کو متنبہ بھی کیا کہ اس غیر قانونی عمل کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
دوسرے روز پاکستان نے تاریخ میں پہلی مرتبہ سرحد پار ایرانی میزائل حملے پر احتجاجاً ایران سے اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور دفتر خارجہ کے مطابق تہران گئے ہوئے ایرانی سفیر کو فی الحال واپس نہ آنے کا پیغام دے دیا گیا ہے۔ پاکستان نے چاہ بہار میں مذاکرات کیلئے گئے ہوئے وفد کو بھی واپس بلالیا ہے اور دونوں ممالک کے مابین پہلے سے طے شدہ دورے بھی معطل کر دئیے گئے ہیں۔ پاک ایران وزرائے خارجہ میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں نگران وزیر خارجہ نے ایرانی ہم نصب پر واضح کیا کہ یہ حملہ پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے اور عالمی قوانین و پاک ایران تعلقات کی روح کے منافی ہے اور اس حملے سے دوطرفہ تعلقات کوشدید نقصان پہنچا۔
ایرانی وزیرخارجہ نے کہا ہے کہ دوست پڑوسی ملک ڈرون حملے کا ہدف نہیں تھا۔ہم عراق اور پاکستان کی علاقائی سالمیت کو عزیز رکھتے ہیں اور حملے میں صرف ان ایرانی دہشت گردوں کو نشانہ بنایا گیا جن کا تعلق اسرائیل سے تھا۔ ہم کسی کو اپنی قومی سلامتی کیلئے خطرہ نہیں بننے دینگے، قومی سلامتی پر حملے کا بھرپور جواب دینگے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دیگر نے بلوچستان میں ایرانی حملے کی مذمت کی ہےپاک فوج نے جمعرات کو ایران میں جوابی سرجیکل اسٹرائیک کرکے ایران میں دہشت گردوں کو نشانہ بنایا ۔ آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ پاک فوج کے ایران کی حدود میں کئے گئے آپریشن کو ’’ مرگ بار سرمچار‘‘ کانام دیا گیا ہے جس میں بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن فرنٹ نامی دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال ٹھکانوں کو انٹیلی جنس اطلاع کے ساتھ مبنی آپریشن میں کامیابی سے نشانہ بنایا گیا، نشانہ بنائے گئے ٹھکانے یہ بدنام زمانہ دہشت گرد استعمال کر رہے تھے۔ کولیٹرل نقصان سے بچنے کے لئے زیادہ سے زیادہ احتیاط برتی گئی، درست حملے ڈرونز، راکٹوں، بارودی سرنگوں اور اسٹینڈ آف ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کئے گئے۔پاک فوج کے مطابق حملوں میں مارے گئے دہشت گردوں میں دوستا عرف چیئرمین، بجر عرف سوغت، ساحل عرف شفق، اصغر عرف بشام اور وزیر عرف وزی شامل ہیں۔ پاکستان نے ایران کے اندر ان ٹھکانوں کے خلاف موثر حملے کئے جو پاکستان میں حالیہ حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں کے زیر استعمال تھےایرانی جارحیت کے جواب میں حکومت پاکستان نے ایران سے تمام سرکاری مشترکہ اقدامات فوری معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ پاکستان نے ایران کی جانب سے پاکستانی سرزمین پر کئے گئے حملے کے ردعمل میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد شروع کر دیا اور تہران میں تعینات سفیر مدثر ٹیپو واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ ایران پاکستان میں کشیدگی کی صورتحال کا اثر سٹاک مارکیٹ پر بھی پڑا اور دو دنوں میں ہزار سے زائد پوائنٹس میں کمی واقع ہوئی، انڈیکس نے کاروبار کا اختتام 364پوائنٹس کمی سے 63ہزار 202پر آگیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا: ہم نے دیکھا ہے کہ ایران نے گزشتہ چند دن میں اپنے تین ہمسایہ ممالک کی خود مختاری اور سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔میرے خیال میں یہ تھوڑا عجیب ہے کہ ایک طرف ایران خود خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کی سب سے زیادہ معاونت کرتا ہے اور دوسری طرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ اقدامات کرنے کی ضرورت تھی‘‘۔ چین نے بھی پاکستان اور ایران کو معاملات باہمی گفت وشنید سے حل کرنے اور کشیدگی نہ بڑھانے پر زور دیا، روسی وزارت خارجہ کی ترجمان نے دوست ممالک کے درمیان کشیدگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مزید کشیدگی امن میں دلچسپی نہ رکھنے والوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے گی اور خطے میں امن و استحکام اور سلامتی نہ چاہنے والے فائدہ اٹھائیں گے۔
شہباز شریف نے کہا کہ ایران کی جانب سے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کرنے پر حیران ہوں، یہ حملہ ہماری دوستی کی روح اور اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ایران نے جو کیا اس کی مذمت کرتے ہیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ معاملات یہاں تک کیسے پہنچے؟ یہ بڑی خطرناک صورتحال ہے یہ کونسی عقل ہے کوئی اپنے ملک کو اس پوزیشن میں ڈالتا ہےایران کے ساتھ تعلقات خراب ہوں وہ آج خوش ہیں لیکن سوچیں کیا ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنا ہمارے مفاد میں ہے؟ بی جے پی کی پاکستان سے متعلق پالیسی اچھی نہیں ہے ہمیں ایران کے معاملے کو بڑھاوا دینے کے بجائے صورتحال کو ڈی فیوز کرنا چاہئے۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات مضبوط، گہرے اور تاریخی ہیں۔ دونوں ممالک باہمی تعلقات معمول پر لانے کا آغاز کریں۔ ایران کو شکایت یا غلط فہمی تھی تو کارروائی کے بجائے پاکستان سے بات کرنا چاہئے تھی۔ صورتحال کو باہمی اعتماد سے کنٹرول نہ کیا گیا تو دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ کارروائی سے ایک دن قبل بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ ایران سے شبہات بڑھ رہے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ حیران ہوں ایران نے اچانک ایسا کیوں کیا۔ ہم چاہتے ہیں دونوں ممالک باعزت طریقے سے مذاکرات کریں۔ پاکستان، ایران اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ اگر دہشتگردی پاکستان اور ایران میں ہے تو یہ سب کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
اس سے قبل پاکستان ایران تعلقات ماضی میں اس وقت زیادہ تنائو کا شکار ہوئے تھے جب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو ایران سے اسی سرحد کے ذریعے پاکستان کے صوبہ بلوچستان داخل ہوئے اور یہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ افغانستان میں 90 ء کی دہائی میں جب افغان طالبان نے حکومت قائم کی تو تب بھی پاکستان اور ایران نے دو راستے اختیار کیے۔ سوویت یونین کے خلاف ’’ افغان جہاد‘‘ میں ایران اور پاکستان دونوں سویت یونین کے مخالف تھے، تاہم ایران نے شمالی اتحاد ( جو زیادہ تر شیعہ ہزارہ آبادی ہے) جبکہ پاکستان نے مجاہدین کا ساتھ دیا تھا۔ ایران دنیا میں پہلا ملک تھا جس نے تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا جبکہ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے 1979ء کے انقلابِ ایران کے بعد وہاں کی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ پاکستان پہلا ملک تھا جس نے افغان طالبان کی حکومت تسلیم کی تھی جبکہ ایران نے افغانستان میں موجود شمالی اتحاد کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں 1998ء میں افغان صوبے مزار شریف میں ایران کے سفارت کاروں کو مار دیا گیا، جب افغان طالبان نے کابل کے بعد مزار شریف پر قبضہ کیا۔ اس سب کے باوجود بھی پاکستان اور ایران کے تعلقات اس نہج پر نہیں آئے تھے کہ سفارتی تعلقات ہی منقطع ہو جائیں۔ اس کی بڑی وجہ دونوں ممالک کے وزارت خارجہ کی جانب سے تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں تھیں۔ خطے کی موجودہ صورتحال اور اسرائیل کے فلسطین پر پے درپے حملوں اور مظالم کے دوران دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے کہ اس معاملے کو خوش اسلوبی سے بات چیت سے حل کرلیا جائے ۔





