سیاست کی آنکھ میں حیاء بھی نہ رہی

محمد راحیل معاویہ
مولانا ابوالکلام آزاد کا شہرہ آفاق جملہ ہے کہ ’’ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا‘‘،،،، لیکن اگر مسلم لیگ ن کی ٹکٹوں کی تقسیم کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو یوں کہنا چاہیے کہ ’’ سیاست کی آنکھ میں حیاء بھی نہیں رہی‘‘۔
دانیال عزیز کی طرز سیاست سے ہمیشہ اختلاف کیا اور کھل کر کیا۔ کشمیر الیکشن میں جب وہ کمپین میں مصروف ہوکر مخالفین کے لیے اپنا مخصوص طرز تکلم اپناتے تو خاکسار کھل کر اس پر تنقید کرتا تھا۔گروپ دھڑا بندی، برادری کی تقسیم کی سیاسی باتیں دانیال عزیز جیسے پڑھے لکھے شخص کے منہ سے کبھی اچھی نا لگیں لیکن شاید وہ ٹھیک کرتا تھا۔جب سیاسی پارٹیوں میں جمہوریت کا گلا گھوٹ کر اسے دفنانے تک کا اہتمام ہوچکا ہو اور آزادی اظہار رائے اور اختلاف رائے کے دروازے مکمل بند کرکے صرف چاپلوسی و خوشامد کا دور دورہ ہو تو شاید تب ایسی سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کی بجائے اپنے نظریاتی گروپ کی مضبوطی پر توجہ دینا اور توانائیاں صرف کرنا زیادہ موزوں ہوتا ہے۔
دانیال عزیز اور طلال چودھری نے مسلم لیگ ن کے لیے عین سیاسی جوانی کے موقع سیاسی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ ثاقب نثار کے تعصب کا سورج جب سوا نیزے پر تھا اور کسی کو ن لیگ کے بیانیے کا وزن اٹھانے کی سکت نہیں ہو رہی تھی تو ان ناتواں کندھوں نے اس بار سیاست کو اٹھایا اور خود اگلے پانچ سالوں کے لیے نااہل ٹھہرے۔مسلم لیگ ن کے بڑے بڑے نام اس وقت سیاسی مصلحتوں کا شکار نظر آتے تھے اور کچھ تو پارٹی کا منہ ماتھا ہونے کے باجود نااہلی سے بچنے کے لیے ثاقب نثار کے در پر ماتھا ٹیک آئے لیکن ان دو لوگوں نے نا تو بیان بدلا اور نا اس پر پشیمانی و شرمندگی کا اظہار کیا جس پر انہیں نااہلی کی سزا سنائی گئی۔
دانیال عزیز و طلال چودھری کی نااہلی خالصتاً نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے اور اس کے حق میں لب کشائی کے جرم کی سزا تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب نواز شریف کے بیانیے کا وزن اٹھانے کے لیے نا کوئی ٹی وی چینل تیار تھا اور نا کوئی اخبار، نواز شریف البتہ اپنے اچھے وقت میں اپنے برے وقت کے محسنوں کو بھول گئے اور ایک لمحہ بھی نا لگایا کہ دونوں بڑے سیاسی رہنماؤں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اپنی ہی پارٹی کے مشکل وقت کے ساتھیوں کو پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا۔
مسلم لیگ ن نے راولپنڈی کے غلام سرور خان کو تو یاد رکھا جو کل تک نواز شریف کے تابوت میں واپس آنے کی پشی گوئیاں کرتا رہتا تھا اور ان کے حلقے کو آسانی کے لیے کھلا چھوڑ دیا لیکن برے وقت میں کنکریاں کھانے والوں کو بھول گئے۔
نارووال وہ ضلع تھا جس کے بارے میں 100فیصد پختگی کے ساتھ کہا جا سکتا تھا کہ وہاں سے مسلم لیگ ن کلین سویپ کرے گی اور قومی اسمبلی کی دو کی دو اور صوبائی اسمبلی کی پانچ کی پانچ سیٹیں لے اڑے گی لیکن وہاں معمولی سی ضد انا میں تبدیل ہوگئی جس پر ٹکٹیں فائنل ہوتے ہی آدھا ضلع مسلم لیگ ن کی مٹھی سے ریت کی مثل پھسل گیا۔
نارووال کے دو قومی اسمبلی اور پانچ صوبائی اسمبلی کے حلقے ہیں، 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن نے وہاں سے کلین سویپ کیا تھا اور 2018ء کے الیکشن میں ایک نشست کے سوا سبھی نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔
حالیہ الیکشن میں چونکہ فریق مخالف پی ٹی آئی میدان سے باہر ہے اس وجہ سے احسن اقبال صاحب کا حلقہ این اے 76میں مقابلہ یک طرفہ ہے اور ان کے نیچے آنے والے تین صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر بھی دور دور تک کوئی مقابلہ نظر نہیں آرہا۔ پی پی 56پی پی 57اور پی پی 58میں راوی مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے لیے چین ہی چین لکھ رہا ہے ہاں البتہ اگر پی پی 56میں مسلم لیگ ن سے راہیں جدا کرنے والے دانیال عزیز کوئی بڑا جوڑ توڑ کرتے ہیں اور دو تین گروپوں کو ایک کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر پی پی 56میں سابق لیگی ایم پی اے رانا منان کے مقابلہ میں الیکشن بنے گا وگرنہ ابھی تک یک طرفہ مقابلہ ہے۔ دانیال عزیز کی بیگم مہناز اکبر عزیز اب اس حلقے سے الیکشن لڑیں گی۔
این اے 75میں دانیال عزیز کی بجائے مسلم لیگ ن نے انوارالحق چودھری کو ٹکٹ جاری کیا ہے جو 1988ء میں پہلی دفعہ نارووال سے کامیاب ہوئے تھے، بعد ازاں وہ 1990ء میں نارووال سے ایم این اے منتخب ہوئے اور سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے پاکستان پیپلز پارٹی میں جا پہنچے اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کے مشیر بننے میں کامیاب ہوگئے۔
1993 ء میں نواز شریف نارووال گئے تو بھرے جلسے میں ایک نوجوان کا ہاتھ تھاما اور ہوا میں لہرا کر بولے کہ نارووال والو اب جو نوجوان آپ کو دے کر جارہا ہوں یہ کبھی لوٹا نہیں ہوگا اور اس کے بعد احسن اقبال نے نواز شریف کو تاحیات قائد مان لیا اور نارووال والوں نے اس نوجوان کو ہمیشہ کامیاب کروایا۔
این اے 75سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر انوارالحق اس کے بعد قصہ پارینہ ہوگئے اور کبھی کامیاب نہ ہوسکے حتی کے 2018ء کے الیکشن میں شکرگڑھ سے ایم پی اے کا الیکشن لڑا تو محض 6947ووٹ حاصل کر سکے اور مقابلے میں ساتویں نمبر پر آئے۔
دانیال عزیز کو ٹکٹ نا ملنے کی وجہ ظفروال کا حلقہ پی پی 54ہے جہاں سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ پر اویس قاسم ایم پی اے منتخب ہوتے تھے لیکن 2018ء کے الیکشن میں وہ ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے گئے تو وہاں سے آزاد امیدوار پیر سعید الحسن کامیاب ہوکر پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر بننے میں کامیاب ہوگئے۔
بعد ازاں کشمیر الیکشن میں دانیال عزیز کے ساتھ اویس قاسم دوبارہ جڑ گئے اور ریاستی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی بھرپور سپورٹ کی اور الیکشن مہم چلائی۔ دانیال عزیز اور اویس قاسم کا اشتراک احسن اقبال کو ایک آنکھ نا بھایا کیونکہ اگر اویس قاسم دانیال عزیز کے ساتھ کامیاب ہو جاتا ہے تو کل کو بلدیاتی سیاست میں 2015ء کی طرح دوبارہ سے اپنے بیٹے کو ضلع چیئرمین بنوانے کے لیے احسن اقبال دانیال عزیز اور اویس قاسم کا محتاج ہوجائے گا۔
اسی وجہ سے احسن اقبال نے اپنے بیٹے احمد اقبال کو ظفروال سے ایم پی اے کے امیدوار کے طور پر الیکشن سے چند ہفتے پہلے میدان میں اتار دیا۔ دانیال عزیز نے اس فیصلے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے پورے ملک میں مہنگائی کا ذمہ دار احسن اقبال کو قرار دے دیا اور میڈیا پر کئی روز احسن اقبال کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر مسلم لیگ ن نے دانیال عزیز کو شوکاز نوٹس بھیج دیا اور جواب جمع کروانے کا حکم دیا۔
دانیال عزیز نے جو جواب جمع کروایا اس میں بھی وضاحت دینے کی بجائے اپنے بیانات کے حق میں لمبے چوڑے دلائل دئیے اور ظفروال کے حلقے سے احسن اقبال کی مداخلت بند کرنے کے لیے پارٹی کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ احمد اقبال کے لیے پارٹی کے ٹکٹ اور الیکشن میں جیت کے واضح امکانات نظر نا آنے پر احسن اقبال نے خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اور پی پی 54ظفروال میں کاغذات نامزدگی جمع کرا دئیے۔
پارٹی نے دانیال عزیز کو اویس قاسم کو چھوڑ کر اپنا ٹکٹ لینے کے لیے گزشتہ روز تین گھنٹے کی آخری میٹنگ میں منانے کی سر توڑ کوششیں کیں لیکن دانیال عزیز کے مطالبات کے پیش نظر بات نا بن سکی اور مسلم لیگ ن نے دانیال عزیز کو بھی ٹکٹ سے محروم کر دیا۔
پی پی 56شکرگڑھ سے مسلم لیگ ن کے دیرینہ اور مخلص ورکر حافظ شبیر کو بھی تاحال پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا گیا کیونکہ ظفروال کے حلقے میں الیکشن مقابلے میں آنے کے لیے احسن اقبال کو اکمل سرگالہ پی ٹی آئی کے ایم ایل اے کی حمایت درکار ہے وہ شکرگڑھ سے مسلم لیگ ن کی ٹکٹ کا طلبگار ہے۔ ظفروال کی سیٹ پر مقابلے میں آنے کے لیے شاید شکرگڑھ میں بھی اکمل سرگالہ کو ٹکٹ جاری کردیا جائے لیکن اگر اب حافظ شبیر کو بھی ٹکٹ جاری کیا جاتا ہے تو بھی مسلم لیگ ن دانیال عزیز کی مخالفت کے ساتھ یہ سیٹ نہیں نکال پائے گی۔
گویا کہ سارا کلین سویپ کیا ہوا ضلع نارووال مسلم لیگ ن اپنی ضد ہٹ دھرمی اور انا پر قربان کرکے ایک قومی اسمبلی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست سے الیکشن سے پہلے ہی شکست کھا چکی ہے اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
وجہ تنازع یہ قرار دیا جارہا ہے کہ اویس قاسم لوٹا ہے اور ہم لوٹوں کو ٹکٹ نہیں دیں گے اور یہ بات بلوچستان سے لے کر شکرگڑھ کے آخری کونی تک تھوک کے حساب سے لوٹوں کو ٹکٹ جاری کرنے والے کہہ رہے ہیں۔
اویس قاسم کو ٹکٹ نہیں دینا وہ لوٹا ہے اور جو اس کے لیے بول رہا تھا اس کو بھی ٹکٹ نہیں دینا چاہے وہ ن لیگ کے لیے نااہل ہونے والا دانیال عزیز ہی کیوں نا ہو۔
اور حافظ شبیر کو بھی ٹکٹ نہیں دینا کیونکہ وہ ن لیگ کا بہت پرانا ورکر اور حد سے کچھ زیادہ مخلص ہے۔۔۔
سوال یہ ہے کہ راجہ ریاض، انوارالحق اور اکمل سرگالہ تو بچپن سے ن لیگی ہیں نا؟؟؟





