Column

کٹھ پتلی تماشا

روہیل اکبر
ہم چھوٹے ہوتے تھے تو میلے ٹھیلے بھی کثرت سے ہوتے تھے اور ان میلوں میں سرکس، موت کا کنواں، چڑیا گھر سمیت اور بھی بہت سی چیزیں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں اور لاؤڈ سپیکرز کا شور اتنا ہوتا تھا کہ کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی، اسی شور شرابے میں کہیں سے لگڑ بگڑ کی آواز بھی سنائی دیتی تو کہیں سے کھوتے (گدھے) کھانے والی بلا دکھانے کی آوازیں بھی سماعت سے ٹکراتیں لیکن اس سارے کھیل تماشے میں سب سے زیادہ پرکشش چیز مجھے پتلی تماشا لگتا تھا، جہاں کاٹھ کی پتلیاں بھرپور طریقے سے ناچتی بھی اور نچاتی بھی تھیں۔ اس سارے کھیل کے پیچھے ایک شخص ہوتا تھا جو خود کو پردے کے پیچھے چھپا کر اپنی انگلیوں کے ساتھ بندھی ہوئی ڈوریوں سے یہ سارا کھیل دکھا رہا ہوتا تھا۔ اب وہ دور رہا اور نہ ہی وہ تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس وقت بچے تھے اور اتنی سمجھ بوجھ بھی نہیں ہوتی تھی لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ وہ کھیل بند نہیں ہوا بلکہ اب بھی جاری ہے، فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ میلے کے میدان سے ختم ہوکر ہمارے سیاسی میدان میں بھرپور طریقے سے جاری ہے، جہاں کبھی کسی کو آگے کر دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کو پیچھے کر دیا جاتا ہے، کبھی کوئی پوشیدہ انگلیوں کے اشارے پر ناچنا شروع کر دیتا ہے تو کبھی کوئی انہی ڈوریوں کے سہارے بھاگنا شروع کر دیتا ہے، کبھی کوئی لیٹ جاتا ہے تو کبھی کوئی ڈٹ جاتا ہے۔ یہ سارا کمال پردے کے پیچھے چھپے ہوئے اس کاریگر کا ہے جس کے دونوں ہاتھوں کی دس کی 10انگلیاں حرکت میں رہتی ہیں، یہ اسی کا کمال ہے کہ وہ کس کردار کو سامنے لاتا ہے اور کس کو اٹھا لیتا ہے۔ اس باکمال شخص کے پاس کٹھ پتلیوں کا خزانہ ہوتا ہے لیکن یہ وہی جانتا ہے کہ اس نے کس وقت کس کٹھ پتلی کو سامنے لانا ہے۔ اس چھوٹے سے مزاحیہ پروگرام میں کٹھ پتلیوں سے کھیلنے والا خود ہی مصنف ہوتا ہے، خود ہی ہدایتکار ہوتا ہے اورخود ہی تجزیہ نگار ہوتا ہے، اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت وہ کون سی کٹھ پتلی کا تماشا دکھائے گا تو لوگ تالیاں بجائیں گے۔ ہماری سیاست بھی انہی کٹھ پتلیوں کے گرد گھومتی ہے، جو کٹھ پتلی انگلیوں کے اشاروں سے دور ہو جائے یا ڈوریوں سے ناچنا بند ہو جائے اسے اٹھا کر کباڑ خانے میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ کوئی اور نئی رنگین سی کٹھ پتلی اوپر سے اتار دی جاتی ہے۔ کٹھ پتلیوں کا یہ کھیل قیام پاکستان کے بعد سے شروع نہیں ہوا بلکہ اگر اس کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ صدیوں پرانا کھیل ہے، اس کھیل کا حوالہ راجستھانی لوک کہانیوں، اور بعض اوقات لوک گیتوں میں بھی ملتا ہے۔ اسی طرح کی کٹھ پتلیاں جو چھڑی والی کٹھ پتلی ہیں مغربی بنگال میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن یہ واقعی راجستھان کی حیرت انگیز کٹھ پتلی ہے جس نے ہندوستان کو اپنی روایتی کٹھ پتلی بنانے والے پہلے ممالک میں سے ایک بنا دیا۔ راجستھان کے قبائل قدیم زمانے سے اس فن کو انجام دے رہے ہیں اور یہ راجستھانی ثقافت کے تنوع اور روایت کا ایک ابدی حصہ بن گیا ہے۔ راجستھان میں کوئی گاؤں کا میلہ، کوئی مذہبی تہوار اور کوئی سماجی اجتماع کٹھ پتلیوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا بلکہ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً 1500 سال قبل قبائلی راجستھان بھٹ برادری نے کٹھ پتلی کو سٹرنگ میرونیٹ آرٹ کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تھا اور اس فن سے ان کی محبت کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اس فن کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ کٹھ پتلی کا فن وقت کی کسوٹی پر بھی زندہ رہا۔ کٹھ پتلی کی روایت لوک کہانیوں اور کہانیوں پر مبنی ہے جو قدیم راجستھانی قبائلی لوگوں کے طرز زندگی کو بیان کرتی ہیں۔ راجستھانی بادشاہ اور رئیس فن اور دستکاری کے سرپرست تھے اور انہوں نے لکڑی اور سنگ مرمر کی تراش خراش سے لے کر مٹی کے برتنوں، پینٹنگ اور زیورات تک کی سرگرمیوں میں کاریگروں کی حوصلہ افزائی کی جبکہ پچھلے 500 سالوں سے کٹھ پتلی بادشاہوں اور خوشحال خاندانوں کی سرپرستی میں چلنے ولا ایک نظام بھی تھا اور یہی لوگ ان فنکاروں کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے اور پھر میلوں میں کٹھ پتلی تماشا دکھانے والے نہ صرف اپنے سرپرستوں کی بلکہ انکے آباؤ اجداد کی تعریفیں بھی کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں بھٹ برادری کا دعویٰ بھی ہے کہ ان کے آباؤ اجداد نے شاہی خاندانوں کے لیے پرفارم کیا تھا اور انہیں راجستھان کے حکمرانوں سے بہت عزت اور وقاربھی ملا۔ اس کھیل کی جہاں سے ابتدا ہوئی تھی اسی جگہ ریاست راجستھان میں سب سے مشہور پرفارمنگ آرٹس بھی موجود ہے اور کٹھ پتلی میوزیم بھی، جبکہ اسی نام سے بھارت میں ایک کٹھ پتلی کالونی بھی ہے جہاں کٹھ پتلی، جادوگر، ایکروبیٹس، رقاص اور موسیقار اور دیگر گھومنے پھرنے والے پرفارمنس گروپ نصف صدی سے آباد ہیں۔ کٹھ پتلی کا کھیل کیونکہ انگلیوں کے اشارے پر دکھایا جاتا ہے اسی لئے تو ہماری سیاست میں بھی یہ لفظ تواتر سے استعمال ہوتا ہے۔ جو بھی اقتدار میں آتا ہے اسے کٹھ پتلی کا نام ضرور دیا جاتا ہے، انہیں اس نام سے مخاطب کرنے والے بھی سیاستدان ہی ہوتے ہیں جو شاید اس لفظ کے معنی بخوبی سمجھتے ہیں اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہوگا کہ انہیں نچانے والی انگلیاں کون سی ہیں اور جو انہیں نچا رہا ہے وہ پردہ نشین کون ہے، کس کی انگلیاں اتنی تیزی سے گردش کرتی ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں 10کاٹھ کی پتلیوں کو کنٹرول بھی کر رہا ہے، لڑا بھی رہا ہے، گلے بھی ملوا رہا ہے، نچوا بھی رہا ہے اور پھر اپنی مرضی سے ان سے کام بھی لے رہا ہے۔ اس سارے کھیل تماشے کا مطلب سامنے بیٹھے تماشائیوں کو محظوظ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اس کی پرفارمنس پر دل کھول کر تالیاں بجا سکیں تاکہ وقت گذرنے کا احساس ہی نہ رہے لیکن جب کھیل ختم ہوتا ہے تب وقت گذرنے کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ شاید اسی لئے اب یہ کھیل تماشے اور میلے ٹھیلے لگنا بند ہوچکے ہیں لیکن ہماری سیاست میں اب بھی یہ کردار زندہ ہیں جو کسی نہ کسی کی انگلیوں پر بندھی ہوئی ڈوری سے خود کو باندھ کر ناچنا چاہتے ہیں، ایسے لکڑی کے کردار بہت جلد کباڑ خانے کا کوڑا بن جاتے ہیں۔ ہمیں اب اس کھیل سے بھی نکلنا ہوگا تاکہ حقیقی کردار ہمارے سامنے آسکیں۔

جواب دیں

Back to top button