صحافت اور انتخابات
آصف علی درانی
صحافت ایک عظیم پیشہ ہے پاکستان میں صحیح معنوں میں صحافت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن آج کے دور میں بھی ایسے صحافی موجود ہیں جو مختلف سختیوں اور مشکلات کے باوجود صحافت کر رہے ہیں اور اپنے فرائض پورا کرتے ہیں میرے خیال میں اچھا اور نڈر صحافی جو صحیح معنوں میں صحافت کرتا ہوں ، صحافی معاشرے اور سماج کا ایک اہم فرد ہوتا ہے ۔ تو جو اصل معنوں میں صحافت کرتا ہے ، پھر ایسے صحافیوں کی لوگ عزت و احترام بھی کرتے ہیں اور ان کی باتوں کو بھی غور سے سنتے اور ان کے کالمز کو شوق سے پڑھتے ہیں یہ صحافی کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہوتے اور ہر برائی و غیر قانونی کاموں پر بات کرتے ہیں اور یا اس کے بارے میں لکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسے صحافیوں کو سیاست دان اور ان کے سپورٹرز پسند نہیں کرتے ہیں بلکہ الٹا ان پر مختلف قسم کے الزامات لگاتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ یہ غیر ملکی ایجنٹ ہے ، کبھی کہتے ہیں کہ یہ غدار ہے ان کو باہر ممالک سے پیسے ملتے ہیں ۔ اس لیے یہ صحافی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں لیکن ان سچے اور محب وطن صحافیوں کے علاہ ایسے برائے نام صحافی بھی موجود ہے جنہوں نے اپنا قلم بیچ دیا ہے اور کسی اور کی زبان بولتے ہیں ، کسی اور کے کہنے پر یہ لوگ لکھتے ہیں اصل میں اس قسم کے لوگوں کو صحافی کہنا صحافی کی توہین ہے ۔ یہ لوگ سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کی حق میں قصیدے ہر وقت پڑھتے ہیں اور ٹریڈیشنل میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا پر ہر وقت سیاسی جماعتوں کے بارے میں دلائل پیش کرتے ہیں ، اس کے علاوہ اخباروں میں بھی مخالف سیاست دانوں کے خلاف لکھتے ہیں یہ برائے نام صحافی جو اپنے آپ کو اعلیٰ ترین صحافی سمجھتے ہیں یہ کبھی ایک سیاستدان کی دروازے پر کھڑے ہو کر ان کی خوشامدی کرتا ہے ، تو کبھی وزیر کی چوکھٹ پر کھڑا ہوتا ہے اور بدلے میں وہ لوگ ان کو پیسے دیتے ہیں اور پھر یہ سارا دن سوشل میڈیا پر ان کے گیت گاتے ہیں ، ان کے حق میں باتیں کرتے ہیں، سادہ لوح عوام کو دھوکا دیتے ہیں، کہ میں جس سیاست دان کی بات کر رہا ہوں وہ ایک محب وطن ہے چور بالکل بھی نہیں ہے اور دوسرے سیاستدانوں کی برائی شروع کرتا ہے اس قسم کے برائے نام صحافیوں نے صحافت اور سچے صحافی کا نام مٹی میں ملا دیا اب ہر کوئی صحافی سے نفرت کرتا ہے ، کہتا ہے کہ یہ بک چکا ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ صحافی کسی کا نہیں ہوتا بلکہ معاشرے یا ملک میں جو کچھ ہو رہا ہو وہ اسی کو دیکھتا ہے اور ان کے بارے یا لکھتا ہے یا بولتا ہے لیکن آج کے دور میں پاکستان میں سچے صحافیوں کی مقابلے میں برائے نام یا جعلی صحافی زیادہ ہیں، اور دن بدن بڑھ رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، ہر کوئی چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، سارے سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں، اسی وجہ سے یہ برائے نام صحافی ہر وقت سوشل میڈیا پر وی لاگ اپ لوڈ کرتا ہے ۔ اصل میں وی لاگ تو کسی سیاسی پارٹی کی حق میں ہوتا ہے تو زیادہ لوگ دیکھتے ہیں۔
آج کل تو الیکشن کی باتیں ہر جگہ سننے کو ملتی ہیں چھوٹا بڑا ہر کوئی الیکشن الیکشن کر رہا ہے۔ ان موجودہ حالات میں سوشل میڈیا پر بھی کچھ لوگ، جن کو میرے خیال کسی بھرتی کیا ہوا ہے۔ سارا دن فیک نیوز پھیلاتے ہیں، کبھی ایک سیاستدان یا پارٹی کی حق میں تو کبھی دوسرے کے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اگر فیک نیوز کی بات کریں تو سوشل میڈیا کی مقبولیت کی وجہ سے فیک نیوز میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر کوئی ’’ چیک اینڈ بیلنس ‘‘ نہیں ہے ۔ جو باتیں سوشل میڈیا پر ہم سنتے ہیں۔ وہ کوئی ٹیلی ویژن ہر نہیں بول سکتا اس لیے کہ ٹیلی ویژن پر بات کرنے کا اپنا اصول ہے۔ پیمرا کے نام سے پاکستان میں ایک ادارہ موجود ہے جو تمام ٹی وی چینلز کو دیکھتا ہے اور جو بھی کوئی غلط بیانی کرتا ہے یا کوئی بھی غیر اخلاقی، غیر قانونی، غیر آئینی بات کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف کارروائی شروع کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر کوئی نظر نہیں رکھتا اس کے علاوہ کوئی خاص ادارہ بھی موجود نہیں ہے کہ جو غلط بیانی کرتا ہے یا پروپیگنڈا کرتا ہے اس کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ اسی وجہ سے سوشل میڈیا کی بہت سی خبریں فیک ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ انتخابات میں وقت کم ہیں، ہر سیاسی جماعت نے اپنے لیے ایک سوشل میڈیا ٹیم بنائی ہے اور اس میں ایسے بندوں کو بھرتی کیا ہے جو سارا دن اپنی سیاسی پارٹی کی حق میں اور حریف سیاسی جماعت کے خلاف باتیں کرتی ہیں اس کے علاوہ یہ لوگ حریف سیاست دانوں کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے کرتے ہیں۔ تو میں صحافت کے متعلق بات کر رہا تھا۔ صحافت کو ان لوگوں نے، جن کا میں نے ابھی ذکر کیا اتنا بدنام اور کمزور کر دیا کہ اب ہر عام آدمی صحافت سے نفرت کرتا ہے اور سچے اور محب وطن صحافیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ اپنے آپ کو صحافی بھی سمجھتے ہیں اور باقاعدہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم صحافی ہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں، جن کے پاس کوئی ’’ جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن ‘‘ کی ڈگری نہیں ہے لیکن انہوں نے مائیک اٹھایا ہے اور اپنے آپ کو صحافی سمجھتے ہیں حالانکہ اگر کوئی ان سے پوچھے تو ان کو صحافت کا ا ب تک بھی نہیں پتا۔
سچا صحافی وہ ہے جو معاشرے میں موجود برائیوں یا مسائل کے بارے میں لکھے یا بات کریں اور حکام بالا تک وہ اپنی باتیں اخبار یا کسی بھی میڈیم کے ذریعے پہنچائے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس کے بارے میں قانونی کارروائی کریں میرے خیال میں یہ صحافت ہے ، اور یہ ایک صحافی کا کام ہے لیکن آج کے دور میں سوشل میڈیا نے ایسے ایسے لوگوں کو صحافی بنا دیا جو صحافی کہنے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ صحافی وہ ہوتا ہے جو پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کریں اور اپنی جگہ سے پیچھے نہ جائے۔ پاکستان میں جو بھی صحافی اصل معنوں میں صحافت کرتا تھا یا کر رہا ہے ان کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے، حکومت کی طرف سے ان پر پابندیاں بھی لگائی جاتی ہیں، اگر وہ کسی سیاست دان کی کرپشن کے بارے میں کچھ لکھے یا بات کرے تو بھر وہ سیاست دان ان کو مختلف طریقوں سے تکلیف بھی پہنچا دیتے ہیں لیکن وہ اتنی سختی و مشکلات کے باوجود بھی اپنی جگہ سے پیچھے نہیں جاتا، ایسے صحافی بھی موجود ہیں جن پر حکومت وقت نے کئی کئی مہینوں تک پابندی لگائی تھی ان کے ٹیلی ویژن شو بند کیے گئے۔
بقول: شورش کاشمیری
مِرا قلم مِرے جمہور کی امانت ہے
میں اپنے فرض کو ہر حال میں نبھائوں گا
غنیم نے کبھی ٹوکا تو پھر خدا کی قسم
قلم کو توڑ کے تلوار لے کے آئوں گا
اس کے علاوہ اگر ہم ان صحافیوں کی زندگی کو دیکھیں جو ہر وقت وزیروں اور مشیروں کی حق میں باتیں کرتے ہیں ان کے بارے میں لکھتے ہیں، ان کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ سے وی لاگ اپ لوڈ کرتے ہیں، ان کی تنخواہ بھی زیادہ ہوتی ہے اور مختلف جگہوں سے ان کو پیسے بھی ملتے ہیں اور اس کا کوئی دشمن بھی نہیں ہوتا بلکہ جس سیاسی پارٹی کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے وہ اس کو اچھا صحافی بھی مانتے ہیں اور اس پارٹی کے سپورٹر اس کو بہت شوق سے دیکھتے اور پسند کرتے ہیں ۔





