Column

اسلامی تعلیم میں اصلاحات

ڈاکٹر سید اے وحید
پاکستان ایک اسلامی اور جمہوری ملک سمجھا جاتا ہے اور اس میں اسلامی تعلیمات کو بہت اہمیت دئیے جانے پر زور بھی دیا جاتاہے۔ اگرچہ صورتِ حال اس سے مختلف ہے لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اسلامی تعلیم کا فروغ اور رواج پاکستان میں ایک حساس معاملہ بھی جانا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسلامی تعلیم کے حوالے سے سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ تحصیلِ تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی مدارس کے بچوں کو روزگار کے لیے مہارتیں نہیں سکھائی جاتیں۔ جس کی وجہ سے ان میں سے بعض طلباء کے بھٹکنے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان مدارس میں زیر تعلیم اکثر طلباء کا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے نہیں ہوتا۔ ویسے بھی پاکستان میں پری سروس ٹیچر ایجوکیشن کے بعد طلباء کی آخری ترجیح اسلامی تعلیم کا حصول ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلامی مدارس میں پڑھنے والی طلباء کسی وژن یا مشن کے تحت اسلامی مدارس کا رخ نہیں کرتے بلکہ ان کے والدین میں سے اکثریت کا مقصد یہ ہو تا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر نیک بنیں، اپنی اور ان کی بخشش کا ذریعہ بنیں ۔
بہت ہی غریب طبقے سے آنے والے بچوں کے والدین ان بچوں کو اپنے اوپر مالی بوجھ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس سے بچنے کے لیے اپنے بچوں کو اسلامی مدارس میں داخل کرا دیتے ہیں جہاں ان کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام تو ہو جاتا ہے لیکن یہ وقتی اور عارضی ہوتا ہے۔ روزگار کی بنیادی مہارتو ں کی عدم تحصیل کے سبب وہ در بدر بھٹکتے ہیں۔ چنانچہ ’’ محدث‘‘ میں شائع شدہ مضمون بعنوان ’’ پاکستان کا دینی نظامِ تعلیم ۔۔۔ چند اِصلاحی تجاویز‘‘ میں محمد امین لکھتے ہیں کہ ’’ اِن مدارس سے فارغ ہونے والوں کے لیے سوائے اپنے مسلک کی مساجد و مدارس میں تعیناتی کے، کوئی ذریعہ رزق نہیں اور جتنے طلبہ فارغ ہوتے ہیں، ظاہر ہے اتنی مساجد اور مدارس موجود نہیں کہ سب لوگ کھپ سکیں۔ لہٰذا مساجد پر قبضے کے جھگڑے بھی سامنے آتے ہیں اور اِسی طرح کے دوسرے مسائل بھی‘‘۔
پاکستان میں اگر دینی تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جدید اور دنیوی علوم کا عمل دخل بہت کم ہے اور اس کے برعکس دنیوی تعلیم میں دینی تعلیم برائے نام پڑھائی جاتی ہے۔ دونوں اقسام کی تعلیم میں یہ بُعد طلباء اور معاشرے کے لیے خطرناک ہے۔ اس طرح کے نظامِ تعلیم میں پروان چڑھنے والی شخصیت میں توازن کی کمی ہو گی اور زندگی کی طرف ان کا رویہ بھی متوازن نہیں ہو گا۔ چنانچہ امین اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’ پاکستان میں جو جدید تعلیم مروّج ہے، اس میں دینی تعلیم کا حصہ برائے نام ہے اور نہ وہاں اسلامی تربیت کا کوئی انتظام ہے۔ دوسری طرف دینی مدارس میں جدید مضامین اور ماحول کا گزر نہیں۔ اس چیز نے جدید پڑھے لکھے لوگوں اور علما میں ذہنی بُعد پیدا کر دیا ہے ‘‘۔ دوسرا بڑا مسئلہ فرقوں کا ہے، ہر مدرسہ ایک مختلف مذہبی اور اسلامی طبقہ اور مکتبہ فکر کی دعوت دیتا ہے، جس سے مذہبی فرقہ ورایت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس مسئلہ کے ازالے کے لیے حکومتی سطح پر بین المذاہب یا بین الطبقات ہم آہنگی کے مدارس قائم کرنے چاہئیں، جہاں معتدل علمائے اسلام کا تقرر کیا جائے اور اس طرح پاکستان میں مذہبی اور اسلامی طبقات میں تصادم کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔ اسی طرح کے بین المذاہب یا بین الطبقات ہم آہنگی کے شعبے سرکاری اور پرائیویٹ جامعات میں بھی قائم کرنے چاہئیں۔

جواب دیں

Back to top button