بلا واپس مل گیا مگر اور بھی سنگ راہ ہیں

نذیر احمد سندھو
پشاور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنا دیا اور تحریک انصاف کو بلے کے نشان پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ،ویل ڈن پشاور ہائیکورٹ۔ الیکشن سمبل کسی بھی پارٹی کا اثاثہ ہوتا ہے اور کسی کو بھی حق حاصل نہیں کسی سیاسی پارٹی سے بلا وجہ اس کا اثاثہ چھینے، چاہے وہ الیکشن کمیشن ہو۔ بینچ نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی واضح کیا الیکشن کمیشن کو ہی نہیں کسی عدالت کو بھی اختیار نہیں۔ بنچ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو واضح حکم دیا ہے وہ 15منٹ کے اندر اپنی ویب سائٹ پر تحریک انصاف کا نشان ( بلا ) اپ لوڈ کرے ورنہ توہین عدالت متصور ہو گا۔ ماضی میں عدالتوں نے طاقتور فیصلے دیئے ہیں مگر ان پر عمل در آمد نہیں ہوا۔ 90روز کے اندر پنجاب میں الیکشن کرانے کا سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے ، صوبوں اور مرکز سمیت کیئر ٹیکر حکومتیں آئین کے مطابق نہ ہیں وہ آئینی مدت سے کہیں آگے ہیں کسی عدالت نے نوٹس نہیں لیا۔ کیئر ٹیکر حکومتوں کا کام الیکشن کی نگرانی کرنا ہے الیکشن کمیشن کو ضروری سہولیات فراہم کرنا اور اقتدار منتخب حکومتوں کے حوالے کرکے اپنے روز مرہ کے معمولات کی طرف لوٹ جانا ہوتا ہے۔ حیرت کیئر ٹیکر حکومتیں وہ سب کام کر رہی ہیں جو منتخب حکومتوں کے ہوتے ہیں نہیں کر رہی ہیں تو الیکشن کے متعلقہ معمولات ہیں۔ الیکشن ہونگے یہ سوال ہر ذہن میں پرورش پا چکا۔ ایک ماہ 8فروری میں باقی ہے مگر الیکشن کی گہماگہمی تو درکنار شروعات بھی نظر نہیں آتیں ۔ سب سے بڑی اور مقبول پارٹی زیر عتاب ہے اس کے مقبول لیڈر عمران خان جو سابق وزیر اعظم ہیں کو جیل میں ڈال رکھا ہے، عمران کے خلاف دو صد کے قریب مقدمات ہیں جنہیں پبلک فیک سمجھتی ہے۔ عدالتیں اپنا رول ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں، ہر جانب طاقتور اسٹیبلشمنٹ کا رول ہے۔ تحریک انصاف کا انتخابی نشان ( بلا ) موضوع بنا ہوا ہے، کیوں کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواری بضد ہیں الیکشن میں ( بلا ) تحریک انصاف کے پاس نہیں ہونا چاہیے، فی الحال پشاور ہائیکورٹ ڈٹی ہوئی ہے جہاں سے تحریک انصاف کو انصاف مل رہا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ سے تحریک انصاف کیا انصاف بھی نالاں ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف یقینا الیکشن کمیشن اور اس کے پروردہ 12لوگ سپریم کورٹ جائیں گے، کوئی نورین بھی سپریم کورٹ میں روتی نظر آ ئیگی مگر فیصلہ کیا آئیگا کہہ نہیں سکتے۔ پارٹی کے سپوکس پرسن رئوف حسن جو فواد حسن وزیر کے بھائی ہیں میڈیا پہ کہہ چکے ہیں پارٹی کو بلا ملتا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کی عدالتیں منقسم ہیں اور فیصلے اپنے اپنے گروپ کی خواہش پر دے رہی ہیں قانون آئین کے مطابق نہیں، بنچ دیکھ کر ہی لوگ فیصلہ سمجھ جاتے ہیں ۔بلے کے خلاف اپیلیں تو ضرور ہونگی بنچ بھی بنے گا ممکن سٹے بھی جاری ہو جائے بنچ بنتے ہی سب کچھ نظر آنا شروع ہو جائیگا۔ نواز شریف کی نا اہلی کا بنچ دیکھ کر ہی عوام نے جان لیا تھا نواز شریف کو اہل قرار دے دیا جائیگا اور فیصلہ متفقہ ہو گا۔ ہمارے عدالتی نظام کا بھی دیس نرالا ہے اس نرالے دیس کی بنیاد جسٹس منیر نے رکھی تھی جس کی دیواروں کی لمبائی میں بدستور اضافہ ہوتا رہا جو تا حال جاری ساری ہے اور کب تک یہ تواتر رہے گا نہیں معلوم کسی کو۔ ایک پروگرام میں آج فیصل واڈا کہہ رہے تھے ہماری عدالتیں جیلوں میں ڈالتی بھی ہیں نکالتی بھی ہیں پھانسیاں بھی دیتیں نا اہل بھی کرتی ہیں اور اہل بھی۔ فیصل واوڈا کون ہے کس کی زبان بولتا ہے کس کے کہنے پر پی پی پی جائن کی ہے سب جانتے ہیں اس پیر خانے کو۔ ن لیگ والے بلے کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں بلا پی ٹی آئی کا سیاسی اثاثہ ہے انہیں تو مانگنا چاہیے مگر ن لیگ کیوں چھیننا چاہتی ہے ماضی میں پیپلز پارٹی سے تلوار لی گئی پیپلز پارٹی والوں نے تیر پر مہریں ٹھوک دیں، کھمبا دے دیں عمران نے کہا کھمبا میرا نشان ہے کھمبا بلا بن جائیگا ووٹ تو عمران خان کا ہے بلے کا نہیں۔ بہر حال پشاور ہائیکورٹ نے آئین کے مطابق درست فیصلہ دے دیا مگر سپریم کورٹ اس فیصلے کو الٹ بھی سکتی ہے ۔ سپریم کورٹ آئین قانون کو نہیں مانتی اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بیوروکریسی۔ اگر فیصلہ ن لیگ کے حق میں ہو تو پولیس کہتی ہے سپریم کورٹ کا حکم ہے عدولی کرکے مرنا ہے اگر پی ٹی آئی کے حق میں ہو تو ایک ایس ایچ او کہتا ہے، کون سپریم کورٹ، بالکل اسی طرح تھانیدار کہتا ہے جس طرح چیف جسٹس سپریم کورٹ نے بیرسٹر گوہر سے کہا آپ کون ۔
8فروری کے الیکشن کے التوا کی بازگشت، افواہیں، خبریں سوشل میڈیا پر اُڑ رہیں جنہیں سینیٹ کی قرارداد سے ملا کر پھیلایا جا رہا ہے اور پانی میں پتھر پھینک کر رد عمل دیکھا جا رہا ہے ۔ قوم بیچاری کا کیا ردًعمل، چہ پدی چہ پدی کا شوربا، یوتھیوں کی ریڈ لائن جیل میں ہے اور وہ برابر دہرا رہے ہیں اب کے مار۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے الیکشن ملتوی ہوئے تو پھر شاید لمبے ملتوی ہوں مگر کچھ کہہ رہے ہیں نہیں نہیں لمبے عرصے کیلئے ملتوی نہیں ہو سکتے آئی ایم ایف کی تیسری قسط الیکشن سے منسلک ہے الیکشن نہ کروائے تو تیسری قسط نہیں ملے گی ۔ پہلی بات تیسری قسط ، معیشت ملک کی کسے پرواہ ہے طاقتوروں کو اپنے قبضے کی فکر ہے دوسری بات پاکستان پہلے بھی شرائط پر پورا نہیں اترتا تھا قرضہ ملنے والا نہیں تھا پھر امریکہ نے مداخلت کی اور آئی ایم ایف نے قرضہ جاری کر دیا قسط بھی مداخلت سے جاری ہو جائیگی۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں صرف الیکشن نہیں شفاف اور آزادانہ الیکشن تھے کیا کسی کو شفافیت نظر آتی ہے۔ شفافیت سے صرفِ نظر ہو سکتا ہے تو انعقاد الیکشن سے بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی خبر ہے الیکشن ملتوی ہوئے تو کاکڑ کی الوداعی دعوت کا اہتمام بھی متوقع ہے اور پنجاب کے چیف منسٹر کی پرموشن بھی ہو سکتی ہے طاقتوروں کی گڈ بکس میں ہے، البتہ پنجاب کے مون کی سیٹ پر کسی مونی کا براجمان ہو سکتا ہے جس کی مکمل ڈور مریم کے ہاتھ میں ہو گی، خدا خیر کرے ۔







