Column

سب پاکستانی سپہ سالار کی طرف دیکھ رہے ہیں

راجہ شاہد رشید
بیچاروں کا کوئی چارہ نہیں ہے، اس غریب ملک و قوم کا خدا کے سوا کوئی سہارا نہیں ہے، کوئی صورت نظر نہیں آتی ، وسائل ختم ہو رہے ہیں اور مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں، ملک آئی ایم ایف کے شکنجوں میں کسا ہوا ہے، غریب عوام کو غربت کی گہری دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے، پٹرول ، ڈیزل گیس اور بجلی کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ چکی ہیں بلکہ ان کی قیمتوں میں مزید اضافے کی خبریں بھی آ رہی ہیں، اشیائے خورد و نوش آٹا، گھی، چینی، چاول، مرغی، چنے، دالیں اور سبزیاں سب روز مرہ کے استعمال کی چیزیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔
بھوک پھرتی ہے میرے دیس میں ننگے پائوں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس نومبر 2022ء سے نومبر 2023ء کے عرصے میں بیرونی قرضہ 12ہزار 430ارب روپے کے اضافے کے بعد 63ہزار 390ارب روپے پر پہنچ گیا ہے ۔ رواں مالی سال کے چھ ماہ ابھی باقی ہیں اور جولائی سے نومبر تک حکومت 907ارب روپے قرضہ لے چکی ہوگی۔ نومبر 2022ء میں پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کی مالیت 50ہزار 959ارب روپے جبکہ جون 2023ء میں 60ہزار 841ارب روپے پر پہنچ چکی تھی ۔ ایک عام انسان کا تو جینا ہی محال ہے، معیشت و صنعت و تجارت و زراعت، ہر روزگار ہر کام کاروبار کا برا حال ہے، ملک و معاشرے میں بس بے یقینی کی سی صورتحال ہے۔ غربت، کمر توڑ مہنگائی اور بھوک و بے روزگاری نے تو عام آدمی کی زندگی ہی اجیرن کر دی ہے۔ گزشتہ دنوں بزنس مینوں کی ایک تقریب میں پوری بزنس کمیونٹی نے یہ رائے دی ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں چند ماہ میں کم ہو جانی چاہئیں ورنہ بند ہونے کے قریب پہنچی ہوئی صنعت مکمل طور پر بند ہو جائے گی۔ گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے بھی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے، ہر ذی شعور پاکستانی پریشان حال اور فکر مند ہے کہ ہمارا اور اس ملک و قوم کا کیا بنے گا، سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔ شعیب بن عزیز یاد آ رہے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ:
شام گزرتی دکھائی دیتی ہے
دن نکلتا نظر نہیں آتا
میرا پیارا پاکستان اور اہل پاکستان آج جن حالات سے دوچار ہیں شاید پہلے کبھی بھی ایسے مشکل ترین اور اس قدر سنگین حالات نہیں رہے ہوں گے۔ اس دیس اور سماج کے دکھ سہنے والے یہ ستم رسیدہ اور نم دیدہ انسان پہلے سے ہی دہشت گردی کے مارے ہوئے ہیں اور خوفزدہ ہیں کہ دہشت گرد پھر سے سر اٹھا رہے ہیں، کاش ہم ان ظالموں کے یہ سر ہی کچل ڈالیں نہیں تو یہ دھرتی کے نہتے انسانوں کو رلائیں گے اور پہلے کی طرح خون کی ندیاں بہائیں گے ، پھر معصوم بچے روئیں گے، رلائیں گے، کر لائیں گے اور میری ایک نظم کے الفاظ میں کہیں گے کہ :
میری ماں ! مجھے بچا لو،
یہ آگ اور خون کا کھیل،
انسانی خون کی ندیاں،
یہ گولے بم بارود کا کھیل،
میں دیکھ نہیں سکتا،
اے دھرتی ماں !،
تجھ بن رہ نہیں سکتا،
ستم سہہ نہیں سکتا،
میری ماں ! مجھے بچا لو،
ماں! مجھے سنبھالو سینے سے لگا لو
پوری پاکستانی قوم یہ سوچ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ کب ہوگا سبز امن سویرا ، کلیاں کھلیں گی پھول پھوٹیں گے ، ہر سو ہریالی ہوگی خوشحالی ہوگی ، کب ہوگا اُس نئی سحر کا طلوع آخر کب۔؟ اپنے اور اپنی فیملی کے بہتر مستقل کی خاطر کچھ خواب لے کر غربت اور بھوک کے مارے بے روزگار نوجوان بیرون ملک بھاگ رہے ہیں ، جی ہاں یہ غم روزگار ہی ہے جو انہیں اپنے گھر پاکستان میں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تو یہ بے چارے کشتیوں سے لٹک کر قسمت سنوارنے کا سوچتے ہیں اور اپنی جانیں تک دے گزرتے ہیں ، ایسے لوگوں کی کوئی سیاسی جماعت ہوتی ہے نہ جلسہ اور نہ ہی انہیں انتخابات اور ووٹ کے لین دین سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے ، بس دو اور دو چار روٹیاں ہی سوچتے ہیں الغرض ان سرد موسموں میں الیکشن الیکشن کی تکرار تو ضرور ہے لیکن لوگ متوجہ نہیں ہو رہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ’ ساڈھی گل ہو گئی اے‘ یہ سننے کے بعد اس الیکشن کو لوگ سلیکشن کہہ رہے ہیں، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبولیت بمقابلہ مقبولیت ہے اور مقبولیت کو مارا جا رہا ہے بلکہ مٹایا جا رہا ہے، جبکہ نواز کو مزید نوازا جا رہا ہے جو گزشتہ 35سال سے مسلط ہے، نا اہل نواز شریف منی ٹریل دئیے بغیر اہل کیسے ہو سکتا ہے یہ عوام پوچھتے ہیں کہ جس نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپنی جائیدادوں کی منی ٹریل کی جگہ ایک قطری خط دے دیا جو اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ کوئی امید نظر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی سوائے سپہ سالار کے، خاص و عام تمام اور بالخصوص غریب عوام کی امنگوں اور امیدوں کا مرکز آرمی چیف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہی کہ جنرل سید عاصم منیر بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مائل اور قائل کریں اور سب صاحبان سیاست کو ایک جگہ بٹھائیں اور فرمائیں کہ ملک و قوم و اکانومی کی خوشحالی و ترقی کی خاطر سب متحد و یکجا ہو جائیں، جس طرح ماضی میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ٹیرر ازم سے نمٹنے کے لیے سب کو ایک جگہ بٹھایا تھا۔ پوری قوم کی نظریں آپ پر ہیں اس لیے اپنے ہی ایک شعر کی صورت میں میری اپنے حافظ و سید سپہ سالار کی خدمت میں عرض ہے کہ:
بے کسوں کے سنگ ہو جا، دو چند سے دور کنارہ کر
بن تُو آس بے آسروں کی ، بے چاروں کا چارہ کر

جواب دیں

Back to top button