Column

خورشید انور پریمی۔ پریم کی کرنیں بکھیرتا سورج

رفیع صحرائی
ہمارے علاقے کے ادبی حلقوں میں 1988ء تا 1992ء خورشید انور پریمی کا راج تھا۔ شعر و شاعری سے اسے بچپن ہی سے دلچسپی تھی۔ گائوں کے پرائمری سکول میں جب زیر تعلیم تھا تو اس کے استادِ محترم قاضی افتخار احمد نے اس کی مترنم آواز کی وجہ سے سکول میں دعا کہلوانے کی ذمہ داری اسے سونپ دی۔ اس کے بعد یہ سکول کے بزمِ ادب کے پروگراموں کی جان بن گیا۔ نعت پڑھتا تو سننے والوں پر وجد طاری کر دیتا۔ ملی نغمے گاتا تو حاضرین و سامعین میں وطن کی محبت جوش مارنے لگتی۔ پڑھائی میں بھی سب سے آگے تھا اس لیے استاد کی آنکھ کا تارا تھا۔ ساتھی طالب علموں کے لیے راہنما ستارا تھا۔ اپنے والدین کے لیے باعثِ فخر تھا تو بڑے بھائی اس پر ناز کرتے تھے۔
میرا اور اس کا ساتھ 58برسوں پر محیط ہے کہ اتنی ہی اس کی عمر ہے۔ مجھ سے چار سال چھوٹا ہے۔ میرا فرسٹ کزن بھی ہے مگر اکثر لوگوں کو اس بات کا نہیں پتا۔ وہ اسے میرا چھوٹا بھائی ہی سمجھتے ہیں کہ گزشتہ 40سال سے ہمیں جسم اور سائے کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ 1983ء میں وہ گائوں سے شہر منتقل ہوا تو اس کا مستقل ٹھکانہ میرے پاس تھا۔ یہی وہ دور تھا جب مجھے مشاعروں میں شرکت کرنے کا نیا نیا جنون ہوا تھا۔ ادبی لحاظ سے کنگن پور اور بصیر پور اس دور میں گویا لکھنئو یا دہلی بنے ہوئے تھے۔ درویش صفت انسان صابر علی بسمل نے کنگن پور میں ادب و ثقافت کی شمع جلا رکھی تھی۔ اسے نوجوان عباد نبیل شاد ( ڈاکٹر عباد نبیل شاد آج کل پرنسپل اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور ہیں) اور آنجہانی نذیر احمد زاہد کی بھرپور معاونت حاصل تھی۔ معروف صحافی خالد تبسم جناب بسمل کے دستِ راست تھے۔ دوسری طرف بصیر پور میں جناب عطا رازی اور مصطفیٰ خار نے ادبی خیمہ سنبھالا ہوا تھا۔ معروف رائٹر پروفیسر امجد علی شاکر نے ان کی سرپرستی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ منڈی احمد آباد میں میرے ساتھ شفقت رسول قمر، چودھری راحیل احمد جہانگیر، یاسین سلیم، یاسین انجم اور طارق انجان گیلانی معروف کالم نگار اور شاعر جناب رند اجنبی کی سربراہی میں ادبی محاذ پر ڈٹے ہوئی تھے۔ حجرہ شاہ مقیم میں ڈاکٹر شفقت قاضی صاحب کی سرپرستی میں سید مراتب علی سمیت دیگر احباب ادبی میدان میں سرگرم تھے۔ تب ان چاروں شہروں میں سے کسی ایک میں ہر ہفتے محفلِ مشاعرہ کا انعقاد ہوتا۔ خوب رونق لگتی۔ سامعین خصوصی طور پر ان ادبی محفلوں کا انتظار کیا کرتے۔ خورشید انور میرے ساتھ ان مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتا۔ تب یہ ابھی ’’ پریمی‘‘ نہیں ہوا تھا۔ 1986ء میں اس پر باقاعدہ ادبی رنگ چڑھ گیا۔ اس نے مجھے اپنی پنجابی غزل سنائی تو میں نے اسے آئندہ مشاعرے میں وہ غزل پڑھنے کا مشورہ دیا۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ پہلی غزل لکھنے کے بعد ہم دونوں سر جوڑ کر بیٹھے اور اس کے لیے ’’ پریمی‘‘ تخلص تجویز ہوا۔ اب یہ خورشید انور سے خورشید انور پریمی ہو گیا۔ کنگن پور میں منعقدہ مشاعرے میں اس کی پہلی انٹری تھی اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے وہ مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ اس کے پڑھنے کے معصومانہ انداز اور لہجے نے سامعین کو بہت متاثر کیا۔ اس نے لکھا بھی خوب تھا۔
سمے آ کے ٹُر گئے ہزاراں وے ماہی
نا مُکیاں اجے انتظاراں وے ماہی
اڈیکاں دیاں سَے پریشانیاں نیں
پرت ہُن تے مَیں ول مہاراں وے ماہی
اس کے بعد پریمی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ایک سے ایک شاہکار تخلیق کرتا گیا۔ اس وقت مشاعرے میں صرف اسے سننے کے لیے سامعین بڑی تعداد میں کھنچے چلے آتے۔ اس کی ایک غزل تو اس کی پہچان بن گئی تھی۔ ہر مشاعرے میں فرمائش کر کے اس سے سنی جاتی۔
ہتھ وچ کاسہ گل وچ مالا
بھیس وٹائی پھرنا واں
آ ویکھ لَے تیرے شہر دے وچ
کی حال بنائی پھرنا واں
1992 ء تک خورشید انور پریمی مشاعروں کا سب سے کامیاب شاعر رہا۔ اس کے بعد اچانک اس کی زندگی کا رخ تبدیل ہو گیا۔ ہمارے ایک مہربان دوست نے مجھے اور پریمی کو طعنہ مار دیا کہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والے تم دونوں ہی نکمے انسان ہو۔ عملی زندگی میں ناکام ہو۔ مشاعروں اور شاعری نے تمہیں بیکار کر دیا ہے۔ تعلیم ادھوری چھوڑ کر راضی بہ رضا ہو کر بیٹھ گئے ہو۔ تم دونوں آگے ترقی نہیں کر سکتے۔ ہم دونوں ہی کو یہ طعنہ کھا گیا۔ پریمی نے کریانے کی دکان بنائی ہوئی تھی اور میں پرائمری سکول میں ٹیچر تھا۔ ہم دونوں نے ہی فیصلہ کر لیا کہ اب زندگی میں مزید آگے بڑھنے اور ترقی کا سوچنا چاہیے۔ پریمی کاروبار کو ترقی دینے کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ اس نے پیسٹی سائیڈ کا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا اور سپرے سینٹر بنا لیا۔ میں میٹرک کے بعد ٹیچنگ کی طرف آیا تھا۔ میں نے تعلیم کی طرف توجہ دی ۔ اپنی ڈائریاں حقیقتاً ہم نے باندھ کر رکھ دیں۔ قسمت بھی کوشش کرنے والوں کا ساتھ دیتی ہے۔ سال 1998ء ہمارے لیے کامیابیوں کی نوید لے کر آیا۔ میں نے ایم اے۔ بی ایڈ تک تعلیم مکمل کر لی تو پریمی کاروباری لحاظ سے ایک برانڈ بن چکا تھا۔ تب ہم دونوں مٹھائی لے کر اپنے اس طعنہ دینے والے دوست کے پاس پہنچے اور درست سمت دکھانے پر اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ دوست بھی ٹیچر تھا۔ ایف اے۔ سی ٹی کرنے کے بعد ٹیچر لگا تھا۔ ہمیں راستہ دکھانے والا خود وہیں پر کھڑا تھا۔ ہماری کامیابیوں پر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ دعا کرو میں بھی آپ لوگوں کی طرح آگے بڑھ سکوں۔ وہ واقعی ہمارا عظیم محسن تھا۔
میرے خورشید انور پریمی کی 58ویں سالگرہ ہے۔ زیرو سے شروع کرنے والا پریمی آج کامیاب ترین بزنس مین ہے۔ اس سے زیادہ اچھا انسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے بے پناہ نوازا ہے۔ جس نے اسے مزید عاجز اور منکسر المزاج بنا دیا ہے۔ اپنوں کی مدد کے لیے ہر وقت حاضر رہنے والا خورشید انور پریمی غیروں کے لیے بھی رحمت کا فرشتہ بنا ہوا ہے۔ اپنے نام کی طرح خورشید بن کر چمک رہا ہے۔ اپنے نور سے پریم کی کرنیں بکھیر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو بھاگ لگاتا ہے۔ اس کی نیک نیتی اور اللہ کی کریمی نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا ہے بہت سوں کے لیے مسیحا بنا ہوا ہے۔
اس کی 58ویں سالگرہ پر یہی کہوں گا کہ بہت خوب میرے بھائی! تم ایک شخص نہیں بلکہ شخصیت بن کر جی رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں مزید کامیابیوں سے نوازے اور تم یونہی جیون کا حق موڑتے رہو۔ آمین

جواب دیں

Back to top button