Column

پیشہ ورانہ رہنمائی کی ضرورت

ڈاکٹر سید اے وحید
نوجوان نسل اور ان کا مستقبل کسی بھی قوم اور ملک کا قیمتی اثاثہ ہے۔ تاہم اس کا دارو مدار اس امر پر ہے کہ نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو کیسے پرکھا جائے، انہیں کیسے ابھارا جائے اور ان کا رخ درست سمت کی طرف کیسے موڑا جائے؟ بد قسمتی سے پاکستان میں نوجوان نسل کی ایک کثیر تعداد تعلیمی اور پیشہ ورانہ رہنمائی سے محروم ہونے کی وجہ سے ذاتی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کا ر لانے میں نا کام رہتی ہے اور وہ ایسے پیشہ ورانہ شعبوں کا انتخاب کرتی ہے جس سے وہ ساری زندگی مطابقت نہیں رکھتے اور وہ پیشہ ورانہ عدم طمانیت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ طلباء تعلیمی عدم رہنمائی کا شکار سب سے پہلے اس وقت ہوتے ہیں جب انہیں میٹرک میں مضامین کے انتخاب کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے بہت سارے تعلیمی مدارس میں آج بھی طلباء کے ذہنی رجحان کو ماپنے کے جدید طریقوں سے استفادہ نہیں کیا جاتا۔ نتیجتاً میٹرک میں مضامین کے انتخاب کے وقت ان کی افتادِطبع کو پرکھنا ممکن نہیں ہو تا اور اس طرح وہ پہلے ہی مرحلے میں درست سمت میں اپنے تعلیمی سفر کا آغاز کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں اظہر عابدی کہتے ہیں کہ ’’ تعلیمی سفر میں پہلی ٹرانزیشن سٹیج آٹھویں جماعت ہے، جب نویں جماعت میں جانے کے لیے آپ کو مضمون کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم میٹرک یا انٹرمیڈیٹ میں کوئی مضمون یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ دوسرا مضمون آسان ہے۔ اول تو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ آسان ہے یا مشکل۔ اب وہ آپ نے چھوڑ دیا اور جب وہ مرحلہ گزر گیا تو پھر آپ سوچتے ہیں کہ کاش میں وہ سبجیکٹ رکھ لیتا یا رکھ لیتی۔ چاہے اضافی مضمون کے طور پر ہی رکھ لیتے تو ہمارے سامنے بہت سے راستے کھلے ہوتے‘‘۔ بقول شخصے ’’ ہر شخص کو کوئی ایک یا چند کام آسان لگتے ہیں وہ انھیں دوسروں کے مقابلے میں جلد سیکھ جاتا ہے، ان کے تکنیکی پہلوں کو فوری طور پر سمجھ لیتا ہے۔ دوسرے افراد کے مقابلے میں اسے یہ برتری اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ اس کا رجحان اس خاص کام یا شعبے کی طرف ہوتا ہے ۔ بعض نوجوانوں کو الیکٹرانکس کے آلات سے اس قدر دلچسپی ہوتی ہے کہ اس کے اسرار و رموز سے خود بہ خود واقف ہوجاتے ہیں۔ لڑکے گڑیوں کے کھیل میں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن لڑکیاں وہی کھیل کھیلتی ہیں ۔ پیشے کے انتخاب میں اپنے رجحان کو لازماً مدِنظر رکھنا چاہیے اور اس کی مطابق اپنی ترجیحات میں سے کیریئر کا انتخاب کرنا چاہیے ‘‘۔
میٹرک کے تعلیمی مرحلے سے گزرنے کے بعد طلباء کو انٹرمیڈیئٹ میں مضامین کے انتخاب کا مرحلہ دوبارہ درپیش ہوتا ہے اور یہاں بھی طلباء گو مگو کی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، آج کے طلباء میں روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی میں کامیابی کے لیے کئی ایک صلاحیتوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ عمیر حسن کے مطابق ان میں ابلاغ کی صلاحیت، صورتِ حال کا جائزہ لینے کی صلاحیت، رہنمائی کرنے کی صلاحیت، گفتار کی صلاحیت، نت نئے ہنر سیکھنے کی صلاحیت، تخلیقی صلاحیت، جذباتی ذہانت اور تعاون پیش کرنے کی صلاحیت شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ طلبا ء میں یہ صلاحیتیں اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتیں جب تک والدین، کمیونٹی، اور تعلیمی ادارہ اپنا کردار ادا نہیں کرتے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تمام عوامل اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ اکثر والدین پڑھے لکھے نہیں ہیں یا پھر ان کے پاس پیشہ ورانہ معلومات نہیں ہیں۔ اسی طرح کمیونٹی کے ذرائع اپنے افراد کو پیشہ ورانہ معلومات دینے کے قابل نہیں ہو تے اور اساتذہ کرام کو پیشہ ورانہ رہنمائی دینے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر طلباء ہاتھ پاں مارتے ہیں ۔ ان کے لیے سب سے بڑا ذریعہ ’ معلومات ان کے دوست ہوتے ہیں۔چناچہ وہ اپنے دوستوں کی دیکھا دیکھی پیشہ ورانہ انتخاب کے حوالے سے غلط فیصلے کرتے ہیں۔اور وہ عدم رہنمائی کی بنا پر پیشہ ورا نہ سفر کے درست راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ ہم طلباء کو پیشہ ورانہ اور تعلیمی رہنمائی کیسے بہم پہنچا سکتے ہیں؟ ملک و قوم کی ترقی کے لیے نوجوان نسل کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ جامعات کی طرح سکول اور کالج میں بھی رہنمائی اور مشاورت کے مراکز قائم کیے جائیں اور وہاں پیشہ ور رہنماء اور مشیروں کا تقرر کیا جائے۔ اس کا فوری حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سکولوں اور کالجوں سے چند اساتذہ کو منتخب کر کے ان کی بطور پیشہ ور رہنما اور مشیر کے تربیت دی جائے اور اس طرح ان کی خدمات حاصل کی جائیں۔کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یہ کام اور بھی آسان ہے جہاں نفسیات، معاشریات یا سوشل ورک کے شعبہ جات سے اساتذہ پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جاسکتے ہے جو طلباء میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ رہنمائی کے عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری و ساری رکھ سکتے ہیں۔
اگرچہ رہنمائی اور مشاورت ہر سطحِ تعلیم کے لیے ضروری ہے لیکن بغور دیکھا جائے تو تعلیمی رہنمائی اور مشاورت کی سب سے زیادہ ضرورت ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی تعلیم اداروں میں ہے۔ چنانچہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو چاہیے کو وہ ان اداروں میں پیشہ ور افراد کا جلد از جلد تقرر کرے جن کا اہم ترین کام یہ ہو کہ وہ طلباء کے باقاعدگی کے ساتھ ذہنی رجحان اور میلانِ طبع کے ٹیسٹ کا انعقاد کریں اور یہ جاننے کے کوشش کریں کہ طلباء مستقبل میں کیا کر سکتے ہیں اور ان کیلئے والدین اور اساتذہ کو کس طرح متحرک کیا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ ان طلباء کی ذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے کیا کیا مواقع بہم پہنچانے چاہئیں۔ والدین ، طلباء اور اساتذہ کے لیے تعارفی سیشن کا اہتمام کرنا چاہیے تا کہ ان سب میں اس امر کی اہمیت اجاگر ہو کہ تعلیمی اور پیشہ ورانہ رہنمائی کس قد ر اہم ہیں اور اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟۔

جواب دیں

Back to top button