سیاسی نظام میں مضبوط تسلسل ضروری

تجمل حسین ہاشمی
اللہ پاک کا بڑا فضل ہے کہ 25کروڑ آزاد ریاست میں پیدا ہوئے، ہجرت اور لاکھوں شہادتوں سے آزادی نصیب ہوئی۔ آزادی کا نظریہ زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنا تھا۔ لیکن نظام کو ایسا مکس کر دیا گیا کہ اب خود سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرنا چاہئے۔ بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ ہمارے ہاں ابتدا ہی سے سیاسی حالات بہتر نہیں رہے، سیاست کی صحیح آبیاری نہیں ہوسکی۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، کسی ایک کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ اس وقت کے حالات بھی بہت میٹر کرتے تھے۔ قیام پاکستان کو ابتدائی ایام میں بہت خطرات کا سامنا تھا۔ حضورؐ دنیا، خدا کی مخلوق اور زمین آسمان کیلئے رحمت اللعالمین ہیں۔ لیکن قرانی تعلیمات کے بعد بھی ہمیں مسلک میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہم کئی فرقوں میں تقسیم ہیں، یہ تقسیم پیدا کرنے والے بھی ہمارے اپنے ہیں، سینئر صحافی سجاد اظہر کی کتاب "راول راج” میں تقسیم کی ابتدا کے بارے میں لکھا ہے کہ جب راولپنڈی شہر میں ہندو اور سکھ اکثریت میں تھے، ان کے مذہبی جلسے جلوس کے توڑ کیلئے انگریز نے بھی مسلمانوں کو اپنے مذہبی تہواروں پر جلوس نکالنے کا مشورہ دے کر تقسیم کی بنیاد ڈال دی۔ مسلمانوں کے اس وقت کے جلوس آپس کے مسلک میں بدل گئے۔ قیام پاکستان دنیا کیلئے بڑا حیران کن تھا۔ کئی سال تک دنیا کو یہی گمان رہا ہے یہ ( اللہ پاک سلامت رکھے) ٹوٹ جائیگا۔ دنیا ایسے ملک کو چلانا انتہائی مشکل اور ناممکن سمجھ رہی تھی، جس ملک نے علاقائی طاقتور، اپنے پڑوس سے مذہب کی بنیاد پر آزادی حاصل کی ہو۔ یہ دنیا کی واحد ریاست ہے جو صرف اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ ہندوستان میں دوسری قومیت کو مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی، ان سے آزادی لینا آسان نہیں تھا اور وہاں آج بھی دوسری قوموں کو دوسرا درجہ دیا جاتا ہے۔ دوسرے مذاہب رکھنے والوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ذات پات کا مرکز اور انسانیت کی تذلیل جاری ہے۔ گاندھی جی کو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے ایک رکن نتھورام نے 30جنوری 1948کو قتل کر دیا، قتل کرنے کی وجہ صرف صاف گوئی تھی، آر ایس ایس کے رکن، گاندھی کے قاتل کا کہنا تھا کہ گاندھی مسلمانوں کو سپورٹ کرتا تھا۔ حالانکہ گاندھی خود تقسیم ہند کے مخالف تھا لیکن سیاست کے بھی کچھ اصول ہیں، گاندھی کا ماننا تھا کہ اب جبکہ تقسیم ہند ہوچکی ہے، پاکستان کا قیام ہوچکا تو اب پاکستان کے حصہ کے اثاثے دیئے جانے چاہئیں، گاندھی نے اس مسئلہ پر اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں ان کا قتل ہوا۔ اس وقت ہندوستان کے پاس 400ارب موجود تھے جس میں سے پاکستان کو قانونی حصہ ملنا تھا جو نہیں ملا۔ ہمارے ہاں یہ چند سو لبرل سوشل میڈیا پر عسکری اداروں پر بے بنیاد تنقید اور ان کی مضبوطی سے خائف ہیں اور مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، حقیقت میں یہ جانے یا انجانے میں غیر ملکی دشمن قوتوں کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں، ان دو نمبر ایکٹوسٹ کے پاس جھوٹی بے بنیاد معلومات ہیں اور ان کو پھیلا کر ذاتی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ یہ چند عناصر لسانی بنیادوں پر زندہ رہنا چاہتے ہیں اور دشمن قوتوں کی پلاننگ کی آبیاری سے ملک کیخلاف محاذ بنانا چاہتے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی طاقتوں کے مفادات بڑے واضح ہیں، ان کا نشانہ صرف پاکستان کے عسکری ادارے ہیں۔ پاکستان ہر دور میں اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے مراسم کیلئے کوشاں رہا۔ دنیا کے ساتھ ہزاروں معاشی اور تجارتی معاہدے کئے۔ امن محاذ پر دنیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دنیا کے امن کیلئے کی گئی تمام تر کاوشیں آج تک کارآمد نہیں رہیں۔ آج بھی پاکستان دہشتگردی کا شکار ہے، ہزاروں جوان شہید ہوچکے ہیں لیکن ہمارے خلاف دہشگردی ابھی تک جاری ہے، اس دہشتگردی میں دنیا نے ساتھ نہیں دیا ۔ اندرونی اور بیرونی عناصر کئی دہائیوں سے اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ افواج پاکستان کو کمزور اور نکما کیا جائے ۔ طاقتور قوتوں کو اس بات کا خوب اندازہ ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے، یہ واحد ریاست ہے جس کی قوم ملکی دفاع میں اپنے عسکری ادارے کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہے۔ 1965کی جنگ میں انڈیا کے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر ملک کی سلامتی کیلئے قربان ہوکر دنیا کو واضح پیغام دیا مسلمانوں کو شہادت سے خوف نہیں آتا۔ قیام پاکستان کے 18سال بعد انڈیا نے اپنی اوقات دکھا دی اور جنگ مسلط کر دی۔ طاقتور قوتیں یہ ایمانی جذبہ دیکھ کر خوف زدہ ہیں، 1971کی مسلط جنگ میں درپیش مشکلات کے بعد سے حکومتوں نے سکیورٹی اداروں کے دفاع کی مضبوطی اور جدید ٹیکنالوجی پر زور دیا جو آج پاکستان کے وقار میں اضافہ کا باعث ہے۔
طاقتور قوتوں کی طرف سے تیسری دنیا کے ممالک میں ایک طریقہ کار نمایاں کامیابی کے ساتھ آزمایا جا رہا ہے کہ ان ممالک کی مسلح افواج کو طویل سے طویل عرصہ کیلئے سول امور میں الجھائے رکھا جائے تاکہ ان کا عوامی گراف کمزور ہوتا جائے۔ تاکہ ہوش اڑا دینے والی ٹیکنالوجی کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ ہمارے ہاں سیاسی نظام مضبوط نہ ہو سکا۔ سول حکومتوں کی بہت سی چولیں واضح نظر آتی رہیں۔ مرکز اور صوبائی سطح تک سیاست دانوں نے احساس ذمہ داری سے جان بچا کر ٹال مٹول سے کام چلایا۔ کرپشن کی انتہا ہوچکی ہے۔ صوبائی سول ادارے اپنا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کو کامیابی قرار دینے والے عوام کو سہولتیں نہ دے سکے، صوبوں کو پارٹی بیس پر تقسیم کر دیا گیا۔ مرکزی حکومت کو باریوں پر تقسیم کر دیا گیا۔ سرکاری فنڈز میں کرپشن کی کہانیاں روزانہ کی بنیاد پر معاشرہ میں تفریق اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پیدا کر رہی ہیں۔ فضول اور فیک معلومات اور گندہ مواد ناسور بن کر معاشرے کی بنیادوں کو توڑ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایسے مواد کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں جو ملکی مفاد کے حق میں نہیں۔ جلسے جلوس میں سیاسی قائدین کی طرف سے ملکی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن پھر اسی اسٹیبلشمنٹ کو جوڑ توڑ کے لیے استعمال کرنے کی روایت سیاسی پارٹیوں کی طرف سے "ساڈھی گل ہوگئی اے” مارکیٹ کی جاتی ہیں۔ ایسے بیانات سے ذاتی مفادات کا حصول لیکن معاشرتی طور پر تقسیم اور منفی رویے کی آبیاری کا باعث بنتا ہے۔ ایسے بیانات کو توڑ موڑ کر عسکری اداروں کیخلاف بے بنیاد مواد شیئر کر کے تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، کوئی دو رائے نہیں کہ سول اداروں میں کرپش اور لوٹ مار نے عام آدمی کیلئے ناگزیر حالات پیدا کر دیئے ہیں، سول اداروں کی ناقص کارکردگی سکیورٹی اداروں کیلئے بوجھ بن چکی ہے، سول ادارے وسائل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں لیکن سچ یہی ہے کہ سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے۔ قیام کے ابتدائی ایام میں سول اداروں کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے لیکن سٹیل مل اور پی آئی اے جیسے کئی مضبوط ادارے کھڑے کئے، دنیا میں ان کا نام تھا۔ سیاسی نظام اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات سے کنارہ کشی کرکے عدل و انصاف اور سیاسی جماعتوں میں جمہوریت اور سیاست میں نئے خون کی انٹری پر فوکس کرنا چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط عدل و انصاف کیلئے کام کرنا چاہئے ، ہمارے ہاں سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ اپنی طبی یا ہنگامی زندگی گزار چکا یا گزار رہا ہے ۔ ہمارے چند سیاسی رہنما پیری فقیری اور مذہبی بنیاد پر حکومت میں رہنا چاہتے ہیں، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے بزرگوں کو آرام کا مشورہ دیا، سیاسی پارٹیوں کو اپنے اندر جمہوریت اور نئے خون کو سیاست میں جگہ دینی چاہئے، چوتھی باری کی سوچ کو ختم کریں اور جمہوری ہونے کا ثبوت دیں، میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ الیکشن میں نوجوان کو سب سے کم فیصد پارٹی ٹکٹ مسلم لیگ ن نے جاری کئے تھے ۔ الیکشن 2024کیلئے GDAنے اس دفعہ نوجوان قیادت کو پارٹی ٹکٹ دے کر میدان میں اترا ہے ۔ جمہوری نظام کی مضبوطی کیلئے الیکشن انتہائی ضروری ہیں۔ قوم الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی اور سیاسی قیادت کو منتخب کرے گی ۔





