Column

سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا نقصان کی تلافی ہے؟

محمد ناصر شریف
وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت سے خواص کو ریلیف ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور خواص کی جانب سے اب نہیں کروں گا، اب نہیں کروں گا، اب نہیں کروں گا کی یقین دہانی کے بعد راستے میں حائل رکاوٹیں ایک ایک کرکے ہٹائی جارہی ہیں۔ کوئی فیصلہ اچھا ہے کہ برا، کسی کو ریلیف پہنچانے کیلئے کیا گیا ہے یا واقعی آئین کی یہی تشریح بنتی ہے اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے کیس کا فیصلہ سنا دیا، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی ختم کر دی، سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 6ایک کے تناسب سے یہ اہم ترین سمجھا جانے والا فیصلہ سنایا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 62ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، 2018ء کا سمیع اللّٰہ بلوچ کیس کا فیصلہ واپس لیا جاتا ہے، سیاستدانوں کی نااہلی تاحیات نہیں ہوگی۔ اس فیصلے کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی ختم ہوگئی۔
سپریم کورٹ کے چھ ججز نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عدالت کے پاس آئین کے آرٹیکل 184 (3)کے تحت کسی کی نااہلی کا اختیار نہیں ہے، الیکشن ایکٹ 62 (1)ایف میں نااہلی کی مدت پانچ سال ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتا ہوں، محض ذمہ داریوں یا سماجی حقوق کی بنیاد پر آرٹیکل 62ون ایف کا اطلاق آئین میں اضافے کے مترادف ہے، سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت تاحیات کرکے آئین میں اضافہ کیا۔
اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ نااہلی تاحیات مقرر کرنے کے سمیع اللہ بلوچ کیس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں، الیکشن ایکٹ کی شق 232کی ذیلی شق دو کے تحت نااہلی کی مدت پانچ سال کرنے کی قانون سازی درست ہے۔ سمیع اللہ بلوچ کیس میں نااہلی نہ تاحیات ہے نہ ہی مستقل ہے اور نہ ہی مختصر، سمیع اللہ بلوچ کیس میں طے کردہ اصول درست ہے۔
5 جنوری 2024ء کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ آئین کو اتنا مشکل نہ بنائیں کہ لوگوں کا اعتماد ہی کھو دے، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ دیکھیں کہ 62ون ایف کی نااہلی جیسی ترامیم کب لائی گئیں؟ آئین میں اس قسم کی ترامیم ایوب خان کے دور میں شروع ہوئیں اور آگے چلتی گئیں، پاکستان کی تاریخ کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے نااہلی کیس میں پبلک نوٹس جاری کیا، کوئی ایک سیاسی جماعت فریق نہیں بنی، پاکستان کے عوام کا کسی کو خیال نہیں ہے، ملک تباہ کر دیں کچھ نہیں ہوتا، کاغذاتِ نامزدگی میں ایک غلطی تاحیات نااہلی کر دیتی ہے، ہم خود کو آئین کی صرف ایک مخصوص جز اور اس کی زبان تک محدود کیوں کر رہے ہیں؟ ہم آئینی تاریخ کو، بنیادی حقوق کو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مخصوص نئی شقیں داخل کرنے سے کیا باقی حقوق لے لئے گئے؟ صرف ایک جنرل نے 62ون ایف کی شق ڈال دی تو ہم سب پابند ہو گئے؟ خود کو محدود نہ کریں بطور آئینی ماہر ہمیں وسیع تناظر میں سمجھائیں، کیا کسی اور ملک میں سیاستدانوں کا ایسا ٹیسٹ ہوتا ہے؟ کیا دنیا کے کسی ملک میں انتخابات سے پہلے اتنا سخت ٹیسٹ ہوتا ہے؟۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے تھے کہ ’ توبہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، تاحیات نااہلی کا فیصلہ اسلامی اصولوں کیخلاف ہے‘۔
اس سے قبل جون 2023ء کے آخری ہفتے میں  قومی اسمبلی میں الیکشن اصلاحات بل 2017ء میں ترمیم کی گئی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل 2023ء منظور کر لیا گیا۔ بل میں آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت الیکشن ایکٹ میں ترمیم تجویز کی گئی۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5سال ہو گی۔ الیکشن ایکٹ 2017کے سیکشن 232میں تبدیلی کے بعد 5سال سے زیادہ نااہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا۔اس ایکٹ کی کسی دوسری شق میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود اس وقت نافذ العمل کوئی دوسرا قانون اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کے فیصلے، حکم یا حکم نامے، آئین کے آرٹیکل 62کی شق (1)کے پیراگراف ( ایف) کے تحت منتخب کئے جانے والے شخص کی نااہلی یا پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے برقرار رہنے کی مدت 5سال سے زیادہ نہیں ہو گی اور اس طرح اعلان قانون کے مناسب عمل کے تابع ہوگا۔ پیش کی گئی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ نااہلی اور اہلیت کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت وہی ہونی چاہئے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 63اور 64کی متعلقہ دفعات میں خاص طور پر درج ہے۔ اس بل کی سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد کہا جارہا تھا کہ اس قانون کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ ( ن) کے قائد نوازشریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن ان چیف جہانگیر ترین کو ہوگا۔ جن کی تاحیات نااہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہوجائے گی اور ایسا ہی ہوا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے ریلیف پانے والی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ( ن) کی ترجمان اور سابق وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ قائد نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے تاحیات نااہلی کی عدالتی ناانصافی کا سیاہ باب آخرکار ختم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62ون ایف کی من چاہی تشریح کے ذریعے پاکستان اور عوام کو مہنگائی، معاشی تباہی اور بین الاقوامی رسوائی کی دلدل میں دھکیلنے والے سیاہ کردار آج عدالت، عوام اور وقت کے کٹہرے میں مجرم قرار پائے جنہوں نے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کی خاطر پچیس کروڑ عوام اور ترقی کرتے پاکستان کی بنیادیں تک ہلا ڈالیں۔ ایک لاڈلے کو صادق اور امین کا جعلی سرٹیفکیٹ دینے کیلئے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کی سازش کی گئی۔
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان نے نواز شریف اور جہانگیر ترین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے فیصلے کو آئین، قانون اور عوام کی فتح قرار دیا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے مطابق سپریم کورٹ 184تھری اور ہائی کورٹ 199کے تحت آرٹیکل 62ون ایف کی ڈکلیئریشن نہیں دے سکتیں۔ قانون میں نہیں درج کہ کون سی عدالت آرٹیکل 62ون ایف کے تحت ڈکلیئریشن دے سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن ایکٹ سے متعلق فیصلہ نہیں دیا۔مسلم لیگ ( ن) کے سینیٹر اور سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مطابق آئین کی کسی شق میں تاحیات نااہلی کا ذکر نہیں، سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملے میں بروقت فیصلہ کیا ہے۔ تا حیات نا اہلی غیر منصفانہ فیصلہ تھا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک دھبہ صاف ہوا ہے۔ سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ تاحیات نا اہلی آئینی طور پر درست نہیں تھی، آج سپریم کورٹ نے برسوں بعد اس نقصان کی تلافی کردی۔
ہماری عدالتوں سے خواص کو ریلیف ملنے کا سلسلہ اچھا امر ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ اس ملک کے غریب عوام کو کب یہ عدالتیں ریلیف فراہم کرتی ہیں جو اپنے بہت ہی چھوٹے چھوٹے معاملات کے لئے ان عدالتوں میں برسوں لگادیتے ہیں لیکن نسلیں ختم ہونے کے باوجود مقدمات کی سماعت تاریخوں سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ عوام الناس ماتحت عدلیہ میں اصلاحات چاہتے ہیں اور خواص کی طرح اس وقت کے منتظر ہیں جب انہیں بھی کوئی مسیحا آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کا شفاف نظام نافذ کرے، جسٹس فائز عیسیٰ تاریخ میں خود کو ایک اچھے منتظم جج کی حیثیت سے زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انصاف کو نچلی سطح تک پہنچانے کے لئے انہیں کردار ادا کرنا ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button