انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہیے، چیف جسٹس

تحریر : نذیر احمد سندھو
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور تحریک انصاف کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کے درمیان مکالمہ بازی ہوئی، جس میں وکیل صاحب نے اپنے نام کے ساتھ سردار کا لاحقہ بھی استعمال کیا، جس پر چیف صاحب برہم ہوئے اور کہا یہ سردار وردار کا رعب شعب نہ ڈالیں، ایسے الفاظ ناموں کے ساتھ استعمال نہیں ہونے چاہئیں۔ قاضی صاحب درست فرماتے ہیں یہ ذات پات، یہ لاحقے نہیں ہونے چاہئیں، لوگوں کی پہچان تعلیم اور کام ہونا چاہئے۔ اسلام قبائیلیت کا خاتمہ کرتا ہے۔ ہم مسلمان تو ہو چکے مگر کبھی اسلام کو قبول نہیں کیا، ہم میں سے ہر کوئی اپنی شناخت ذات پات کے ساتھ کرواتا ہے، حج کر لیا تو حاجی صاحب قرآن حفظ کر لیا تو تو حافظ صاحب، قرات سے قرآن پڑھنا سیکھ لیا تو قاری صاحب، مگر اعمال دیکھو تو غیر مسلموں کو بھی شرم آئے۔ کھوسہ صاحب سردار اس لئے لکھتے ہیں راجن پور میں بہت سے غریب بھی قبیلے کے حوالے سے کھوسہ کہلاتے ہیں اور وہ یہ بتانا چاہتے ہیں وہ کوئی عام شام سے کھوسے نہیں سردار کھوسہ ہیں۔ وہ سابق گورنر اٹارنی جنرل، سابق صدر زرداری کے مشیر بھی تھے، مال سمیٹنے میں اتنی مہارت رکھتے ہیں زرداری کی پلیٹ سے بھی گوشت کا ٹکڑا اٹھا لیتے تھے، زرداری نے گیلانی کا مشیر مقرر کرکے جان چھڑائی، مگر گیلانی کی پلیٹ محفوظ نہ رہی تو پھر انہیں گورنر پنجاب مقرر کر دیا، یعنی لہریں گننے پر لگا دیا۔ یہ تو تھی کھوسہ اور سرداری کا پس منظر مگر قاضی صاحب آپ کی بھی ہسٹری ہے، آپ قاضی اس وقت بھی نام کے ساتھ لکھتے تھے جب آپ وکالت کرتے تھے، کیوں کہ یہ نام آپ اپنے دادا جلال الدین جو افغانستان کے شہر قندھار کے قاضی تھے، کی وجہ سے لکھتے تھے۔ یہ بادشاہ عبدالرحمان کا دور تھا۔ انگریز افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتے تھے افغان بادشاہ بڑی کامیابی سے ملک کا دفاع کر رہا تھا، اگرچہ کئی صاحب حیثیت افغانی در پردہ انگریزوں سے ساز باز ہو چکے تھے۔ پے در پے ناکامیوں کے بعد انگریزوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے کا افغانستان میں بھی گرُ آزمایا۔ افغان بادشاہ قاضی جلال الدین
سے ناراض ہو گئے۔ اور قاضی جلال الدین ہندوستان آ گئے، جس پر انگریز حکمران تھے۔ قاضی جلال الدین انگریزوں کے وفادار قلات کے حکمران کے وزیر اعظم بن گئے اور پھر انہیں بلوچستان میں جاگیر الاٹ کر دی گئی، کس خدمت کے عوض، عام آدمی کا یہ سوال تاریخ میں ہمیشہ تشنہ رہے گا۔ قاضی صاحب یہ ذات پات کا لاحقہ باپ دادا، پڑدادا سے ہی لوگوں کو ورثہ میں ملتا ہے اور آپ بھی قاضی دادا کی وجہ سے ہی لکھتے ہیں، آپ کو بھی کھوسہ کی طرح قاضی کا لاحقہ ہٹا دینا چاہیے۔ رہا سوال جاگیر کس خدمت کے صلے میں ملی تو اس کا جواب نہ آپ دے سکتے ہیں نہ کھوسے، دریشک، لغاری، سومرو، بھٹو، جتوئی اور ملک، خان، ٹوانے دے سکتے ہیں، تو ایسے سوال کو پٹاری میں بند رکھنا ہی مناسب ہے۔ آپ کے نام کے ساتھ قاضی بھی رہے گا اور چیف جسٹس بھی تا حیات ہی نہیں قبر پر جو تختی لگے گی اس پر بھی سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان لکھا جائیگا، حالانکہ فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس منیر سے لے کر سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس تک کسی کی پرفارمنس ایسی نہیں جس پر قوم انہیں پرائڈ آف پرفارمنس دے ۔





