الیکشن کا موسم

تحریر : عبد الماجد ملک
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، سال میں چار موسم ہوتے ہیں، سردی، گرمی، خزاں اور بہار تاہم ایک اور موسم بھی ہوتا ہے جسے الیکشن کا موسم کہا جاتا ہے وہ تقریباََ پانچ برس بعد آتا ہے، اور اُس موسم کی ڈھب نرالی ہے بلکہ نہایت وکھری اور دلچسپ بھی ہے۔
الیکشن کے موسم کے آثار نظر آتے ہی وہ لوگ بھی سامنے آتے ہیں جنہیں آپ نے پانچ برس قبل دیکھا تھا، بڑی بڑی گاڑیوں اور پروٹوکول بلکہ پورے قافلے کے ساتھ امیدوار آتے ہیں اور ان کا بھی فاتحہ یا دعا پڑھ دیتے ہیں جنہیں ان کے لواحقین بھول چکے ہیں اور حیرت کہ یہ ’ بڑے‘ لوگ نہایت عاجزی سے اپنے حلقے کے غریب کو اپنا خادم گردانتے ہیں کہ وہ بندہ بھی پریشان کہ الٰہی ماجرا کیا ہے، عقدہ جب کھلتا ہے کہ جناب یہ جو آپ کے ہمدرد نظر آ رہے ہیں ان کی ایکسپائری تاریخ الیکشن کا دن ہے، اگر جیت گئے تب بھی دکھائی نہ دیں گے اور ہار گئے تب بھی یہ لوگ نظر نہیں آئیں گے۔
سادہ لوح عوام ہے اور اس پہ مزید یہ کہ نہایت بیوقوف بھی ہے تبھی نالی، گلی، بجلی سے زیادہ نہیں سوچتی، اس لیے جب کوئی امیدوار حلقے میں آتا ہے تو ان کی خواہشات کے مطابق نالی بنانے، گلی پکی کروانے اور بجلی کی سکیم کا لولی پاپ بخوبی دیتا ہے اور عمدگی سے اسے بیچتا بھی ہے۔
کچھ حلقوں میں یا علاقوں میں ابھی روایات پرانی ہیں جس میں الیکشن لڑنے کا خواہشمند علاقے کے عمائدین کو اکٹھا کرتا ہے اور پورے گاؤں یا محلے کی ذمہ داری یہ عمائدین دعائے خیر کی صورت میں متعلقہ امیدوار کو دے دیتے ہیں، لیکن اب کلچر تبدیل ہو چکا ہے یا شاید کچھ شعور آ چکا ہے تبھی تو کچھ لوگ اس کے خلاف بغاوت کرتے ہیں جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔
الیکشن کے موسم میں کچھ نوجوان لوگ بھی جز وقتی الائنس ترتیب دیتے ہیں اور حلقے کے امیدوار کے سامنے یہ شرط رکھتے ہیں کہ اگر ان کے پیش کئے گئے مطالبات کی یقین دہانی کرائی جائے تو ہم نوجوانوں کی اتنی تعداد آپ کو ووٹ دے گی۔
الیکشن کا کھیل دلچسپ ہے اور اس کا موسم بھی عجیب ہے ہمارے یہاں کچھ خاندان ہی اس کھیل کے پرانے کھلاڑی ہیں اور وہ نسل در نسل اس کھیل میں حصہ دار بنتے آ رہے ہیں اور کچھ خاندانوں کی قسمت ایسی اچھی ہے کہ ان کا ہر بار اسمبلی جانا بھی مقدر ہے ( جنہیں آپ الیکٹیبلز کہتے ہیں )۔
کچھ علاقوں یا حلقے میں برادری یا امیدوار کے ذاتی ووٹ ہوتے ہیں، خاص کر جہاں وڈیرہ شاہی کلچر، یا قبائلی سسٹم موجود ہیں اور کئی جگہ پہ نظریاتی ووٹ ہوتے ہیں جو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں لیکن وہی بات کہ پاکستان میں ابھی تک شعور کی منازل طے نہیں یا نظام اتنا بوسیدہ ہے کہ غرباء کا نمائندہ ان میں سے نہیں بلکہ امراء طبقے سے ہوتا ہے۔
الیکشن کے موسم بھی ایک عجیب و غریب بیماری حملہ آور ہوتی ہے، جس سے کافی نقصان ہوتا ہے اور وہ نفرت کا بخار ہے، اس کی وجہ میرا لیڈر سچا اور تیر لیڈر چور ہے، لایعنی فضول بحث و مباحثہ ہوتا ہے پھر ایک خلیج حائل ہو جاتی ہے اور دوریاں بڑھ جاتی ہے ، ناراضی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، کسی سیاستدان کے لیے ایسی نفرت پال لی جاتی ہیں جسے اُس سیاستدان کو بھی علم نہیں ہوتا ۔
پھر سے ہمارے یہاں الیکشن کا موسم قریب آن پہنچا ہے، جھوٹے نعرے لگ رہے ہیں، بڑے بڑے وعدے کیے جائیں گے اور پھر الیکشن کے بعد گہری خاموشی چھا جائے گی لیکن ایک چیز باقی بچتی ہے اور وہ ہے نفرت۔ جو ہمارے یہاں وافر دستیاب ہے ۔
اس بار کچھ ایسا کیجئے سب کچھ بدل کر رکھ دیجئے اور ان کو کہہ دیجئے کہ ہم اہل محبت ہیں صرف محبت کا کاروبار کریں گے، نظام بدلنا شاید ہمارے اختیار میں نہیں تاہم یہ تو کر سکتے ہیں جو جس کو اہل سمجھتا ہے وہ اسی کو اپنا ووٹ دے، خوامخواہ کی تکرار سے گریز کیجئے اور اتنا ضرور کیجئے جو آپ کے پاس آئے تو اس سے یہ پوچھ لیجئے، جناب جیتنے کے بعد آپ کے ہاں ہریالی آ جاتی ہے، آپ کے گردو نواح یعنی قریب قریب رہنے والے بھی عیش کرتے ہیں مگر ہمارے یہاں خزاں کا موسم کیوں آ جاتا ہے، ہم کیوں خوشحال نہیں ہوتے ؟ یہ بھی پوچھئے کہ الیکشن کے دنوں میں آپ ہمارے یہاں چکر لگاتے ہیں، مریض کی عیادت کرتے ہیں، خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں، جنازے کی پہلی صف میں دکھائی دیتے ہیں لیکن جناب والا، الیکشن کے موسم کے بعد آپ کہاں چلے جاتے ہو ؟ ہمارے لیے اجنبی کیوں بن جاتے ہو ؟ وہ جو خود کو اس موسم میں خادم سمجھتے ہو تو پھر رعایا کے مسائل کا مداوا کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے لیکن الیکشن کے بعد آپ کے دروازے عوام کے لیے بند کیوں ہو جاتے ہیں ؟۔
یہ موسم آئے گا، آ کر گزر جائے گا، لیکن اب کی بار سیاستدانوں کی خاطر آپس میں نفرت نہ پالیے گا اور سیاستدان طبقہ سے گزارش ہے کہ وہ بھی اپنی الیکشن کمپین میں لسانیت، صوبائیت، قومیت، مسلک اور مذہبی آمیزش کو ہوا نہ دے تاکہ میرا ملک میں محبت کو فروغ ملے اور یہاں امن قائم رہے۔





