Column

کیا 2024ء بھی ایسا ہی رہے گا؟

تحریر : صبا خان
2023ء میں 3کروڑ سے زائد آبادی والے شہر کراچی کے عوام ڈاکوئوں کے رحم و کرم پر رہے، شہر بھر میں مسلح لٹیرے دندناتے پھرتے رہے۔ بزرگوں، خواتین اور نوجوانوں سمیت جس کو جب اور جہاں چاہا لوٹ لیا اور مزاحمت پر قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، دوسری جانب شہریوں کے لیے یہ حیران کُن بات سامنے آئی کہ خواتین بھی اسٹریٹ کرائمز، منشیات فروشی میں ملوث ہونے کے ساتھ کئی وارداتوں میں ڈاکوئوں کی سہولت کار نکلیں، ماہرین اقتصادیات معاشی صورت حال اور سماجی ناہمواریوں کو شہر میں بڑھتے جرائم کی اہم وجوہ قرار دیتے ہیں جب کہ کراچی پولیس شہریوں کو اس عفریت سے بچانے، ان کی بپتا سنتے کے بجائے انہیں ہی موردِ الزام ٹھہرا دیتی ہے کہ وہ احتیاط نہیں کرتے، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں روزانہ دو درجن سے زائد اسٹریٹ کرائمز کی وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں جب کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، جس کی یا تو پولیس کرائم ریٹ کم ظاہر کرنے کے لیے رپورٹ درج نہیں کرتی یا پھر شہری خود پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔
میری کچھ عرصہ قبل ایک اعلیٰ پولیس اہلکار سے غیر رسمی گفتگو ہوئی، جس میں انہوں نے اسٹریٹ کرائم میں اضافے کی عجیب و غریب توجیہہ پیش کی، ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی آبادی کا تناسب تبدیل ہوگیا ہے، پہلے شہر میں اردو بولنے والی آبادی 65فیصد تھی اب یہ 35فیصد رہ گئے، قریباً اتنے ہی پشتون بھی شہر میں آباد ہیں، 25فیصد کے قریب سندھی اور بلوچ کراچی آکر آباد ہوئے ہیں، جو جرائم میں بھی ملوث ہیں اور اس کی سماجی اور معاشی وجوہ بھی ہیں، اُن کا کہنا تھا کہ کراچی میں جرائم کی شرح کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شہریوں کے مقابلے میں کم ہے، یہاں زیادہ واویلا کیا جاتا اور بلاوجہ سنسنی پھیلائی جاتی اور ہر معاملہ میڈیا پر لایا جاتا ہے، لاہور میں کرائم کراچی سے زیادہ ہے، لیکن کبھی میڈیا پر نہیں آتا، اسٹریٹ کرائمز صرف کراچی کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہیں، خیبر پختونخوا سے بھتہ خوری سمیت دیگر معاشی جرائم کی خبریں تسلسل سے آرہی ہیں، لیکن وہاں کوئی واویلا نہیں کیا جاتا۔ نیویارک، لندن، ممبئی کے مقابلے میں کراچی میں جرائم کی شرح کم ہے، کراچی بنیادی طور پر جرائم پیشہ افراد کا شہر نہیں۔
اعلیٰ پولیس اہلکار کا یہ موقف درست نہیں، کراچی میں لاقانونیت اور اسٹریٹ کرائمز نے ہر فرد کو خوف میں مبتلا کر رکھا ہے، کاروباری سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں، عوام گھروں کی دہلیز پر بھی محفوظ نہیں، خواتین سمیت درجنوں افراد وارداتوں کے دوران مزاحمت پر مار دیے جاتے ہیں اور سیکڑوں اسپتالوں میں داخل ہوجاتے ہیں، لوگوں نے اسٹریٹ کریمنلز کے ڈر سے راتوں کو باہر نکلنا چھوڑ دیا اور چائے کے روایتی ہوٹلوں کی رونقیں مانند پڑ گئی ہیں، بے شک اسٹریٹ کرائمز کی بڑی وجہ مہنگائی اور بے روزگاری بھی ہے، لیکن جرائم کنٹرول کرنا کس کا کام ہے؟ پولیس کو ہی اس کے تدارک کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے، معاشی مسائل اور آبادی کے بے پناہ دبائو کے شکار اس شہر میں جرائم کے بڑھنے کی کئی وجوہ ہیں، نوجوان نسل میں منشیات کا بے دریغ استعمال، بچوں کی مناسب تربیت، اخلاقی پستی اور ایزی منی کے حصول کے لیے بھی نوجوان ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوکر ایسے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں، جو ان کو تربیت دے کر مکمل جرائم پیشہ بنا دیتے ہیں۔ معاشی ماہرین کے مطابق جب روزگار کی تلاش میں لوگ بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں تو آبادی پر دبائو کے ساتھ جرائم کی
شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے، جرائم کا مکمل خاتمہ وسائل کی مساوی تقسیم، پولیس کی مناسب تربیت سے ہی ممکن ہے، پولیس کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق2023ء میں کراچی ڈاکوئوں، اسٹریٹ کریمنلز، منشیات فروشوں سمیت دیگر جرائم پیشہ افراد کے لیے انتہائی سازگار رہا جبکہ شہریوں کے لیے یہ خوف و دہشت کا سال رہا، کراچی میں امن و امان کی صورت حال، ڈکیتیوں اور اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے انتہائی بدتر رہی، قانون کی عمل داری کسی جگہ بھی نظر نہیں آئی، ڈاکو اور اسٹریٹ کریمنلز کو شہریوں کو لوٹنے کی مکمل آزادی رہی، پورے سال شہری ان کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے، ڈاکو اور اسٹریٹ کریمنلز تمام شہر میں لوٹ مار کرتے اور اپنے بنائے ہوئے قانون ’’ اسٹریٹ کریمنلزاور ڈکیت ایکٹ’’ کے تحت واردات میں مزاحمت کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے، اس دوران پولیس کا کہیں بھی نام و نشان نظر نہیں آیا، شہر بھر میں اس حوالے سے صورت حال تشویش ناک حد تک مخدوش رہی۔ درجنوں افراد ڈکیتی مزاحمت پر ہلاک کر دئیے گئے، اینٹی اسٹریٹ کرائمز فورس کے اہلکاروں کو انتہائی جدید ہتھیار اور طاقتور انجن والی ہیوی بائیکس دینے کے باوجود ان کی کارکردگی صفر رہی، وہ کبھی کبھار شہر کے چوراہوں پر تو ضرور دیکھے جاتے تھے، لیکن ڈکیتی اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کے دوران ان کا دُور دُور تک پتا نہیں ہوتا تھا۔ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، کراچی کے حوالے سے تمام بڑی جماعتوں کو امن وامان کے قیام، اسٹریٹ کرائمز کے خاتمے، منشیات فروشی، بھتہ خوری، لینڈ مافیا کے خلاف سخت اقدامات کواپنے منشور کا حصہ بنانا ہوگا اور تمام اسٹیک ہولڈر کے ساتھ مل کر اس مسئلے کا مکمل حل تلاش کرنا ہوگا، خدا نہ کرے کہ سال نو بھی گزشتہ سال جیسا ثابت ہو۔

جواب دیں

Back to top button