سیدھا راستہ

صفدر علی حیدری
’’ اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا مدمقابل قرار دیتے ہیں اور ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنی چاہئے اور ایمان والے تو سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں اور کاش یہ ظالم لوگ عذاب کا مشاہدہ کر لینے کے بعد جو کچھ سمجھنے والے ہیں اب سمجھ لیتے کہ ساری طاقتیں صرف اللہ ہی کی ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں نہایت شدید ہے‘‘
انسان کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ انس اس کی گھٹی میں پڑا ہے تو نسیان کو بھی اس میں گوندھ دیا گیا ہے۔
وہ محبت کرتا اور بھول جاتا ہے
کبھی رکھ کر بھول جاتا ہے
گاہے بھلا کر رکھ دیتا ہے
محبت کرنے پہ آئے ان پتھروں تک کو پوجتا ہے جسے خود اپنے ہاتھوں سے تراشتا ہے ۔
ان جانوروں تک کو پوجنے لگتا ہے جن کو اپنے لیے پالتا ہے اور جن کے بارے اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ گھاس نہ ڈالے تو اس کا دیوتا بھوکا مر جائے۔
گویا اپنے دیوتا کو گھاس نہ ڈالے تو دیوتا کی جان جاتی ہے۔
اور نفرت کرنے پہ آئے تو انسانی کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کر دے۔
یہ جذباتی، کمزور، جلد باز، جلد مایوس ہو جانے والا، غلط فیصلے کرنے والا، نا شکرا، جھگڑالو قسم کا انسان نہ اپنے اوقات یاد رکھتا ہے نہ اسے دوسروں کی اوقات کی کچھ خبر ہوتی ہے۔ اوقات اس کی ایک گلاس پانی سے زیادہ کی نہیں ہے۔ اگر پینے کو نہ ملے تو بھی جان سے جائے اور اگر نکال نہ پائے تب بھی جان گنوائے ۔
شرک ظلم عظیم ہے یہ اس سے بھی نہیں چوکتا۔
یہ اپنے قول و فعل میں ایسا متنوع ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ اتنا عجیب ہے اتنا عجیب کہ اس کے بنانے والے نے بھی اسے عجیب و غریب کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
واضح ترین دلائل کے آجانے کے باوجود بھی یہ صاحب عقل و دانش ہونے کا مدعی قدم قدم پر علمی و فکری و عملی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ محولہ بالا آیات میں اپنی وحدانیت پر واضح اور نہایت منطقی اور فطری دلائل کی نشاندہی کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے خود ساختہ شریکوں سے اس طرح پر خلوص محبت کرتے ہیں جس طرح خدا سے محبت کرنی چاہیے۔ چنانچہ ایمان والے، ان سی بہتر اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہیں‘‘۔
مشرکین اپنے خود ساختہ خدائوں اور دیوتائوں سے محبت اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان خود ساختہ خدائوں کو بھی وجود اشیا میں موثر اور صاحب قوت و طاقت سمجھتے تھے۔ گاہے وہ ان کی پوجا اس نیت سے کرتے تھے کہ یہ وسیلہ انہیں رب سے ملا دے گا۔ گویا وسیلہ انسان کی فطرت کی آواز ہے مگر وسیلہ بنانا نہیں ڈھونڈنا ہے۔ وہ خود فرماتا ہے کہ میرے قرب کا وسیلہ تلاش کرو ۔
’’ جن ( معبودوں) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی، کیونکہ آپ کے رب کا عذاب یقینا ڈرنے کی چیز ہے‘‘ ۔
سورہ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ چنانچہ وہ ان خدائوں سے اپنی حاجات طلب کرتے اور انہی سے پناہ مانگتے تھے‘‘۔
واضح فرمایا کہ: ’’ نفع و نقصان کا مالک خدا ہے‘‘
اور ساری قوت و طاقت کا سرچشمہ وہی ذات ہے۔
اس کے مقابلے میں کسی اور کو طاقت کا سرچشمہ قرار دے کر اس سے محبت کرنا شرک ہے۔
یہاں پر یہ بھی واضح ہو کہ اگر کسی ہستی کو محبوب خدا سمجھ کر اس سے محبت کی جائے تو یہ عین توحید ہے۔ چنانچہ قرآن نے اللہ کی محبت اور رسولؐ کی محبت دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے : ’’ کہہ دیجیے، تمہارے آبا اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہاری برادری اور تمہارے وہ اموال جو تم کماتے ہو اور تمہاری وہ تجارت جس کے بند ہونے کا تمہیں خوف ہے اور تمہاری پسند کے مکانات، اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور راہ خدا میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو ٹھہرو! یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے‘‘۔
ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے : ’’ کہہ دیجیے، اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ، اللہ تمہیں محبوب بنا لے گا‘‘۔
کل بروز قیامت جب یہ لوگ عذاب الٰہی کا مشاہدہ کریں گے تو سمجھ جائیں گے کہ ساری طاقت کا سرچشمہ وہی ذات ہے ۔ کیونکہ یہ صرف مشاہدات اور محسوسات کو سمجھتے ہیں۔
دنیا میں اگر یہ لوگ معقولات کو بھی سمجھ لیتے اور جانتے کہ طاقت کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے تو یہ لوگ عذاب الٰہی میں مبتلا نہ ہوتے۔
دعا ہے کہ کسی کی محبت نفرت یا تعصب ہمیں اس کے راستے سے دور نہ کر دے جو صراط مستقیم ہے ۔
اور یہ صراط صرف اور صرف ایک ہی ہو سکتا ہے۔
یہی سیدھی راہ ہے۔
یہی دو نقاط کے درمیان کم از کم فاصلہ ہے جسے سائنس displacementیعنی ہٹائو کا نام دیتی ہے اور جسے آپ نے زمیں پر آڑھی ترچھی لکیریں بنا کر سمجھایا کہ صراط مستقیم کی راہ بالکل سیدھی ہوگی اور صرف واحد ہو گی۔
اے ہمارے رب ہماری صراط مستقیم کی طرف مسلسل ہدایت کرتا رہ اور ہمیں اسی راہ پر استقامت کے ساتھ چلا تاکہ ہم فلاح پا سکیں۔
یہی وہ دعا ہے کہ جو ہر نماز کی پہلی رکعت میں مانگتے ہیں
یعنی اس راستے پر چلانے کی استدعا کی جس پر تیرا انعام ہوا نہ کہ ان پر جن پر غضبناک ہوا اور نہ گمراہوں پر
آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین و علی آلہ الطاہرین





