سال کی بہترین تقریب

ندیم اختر ندیم
فلیٹیز ہوٹل میں منعقدہ بظاہر یہ تقریب ایک کتاب کی رونمائی تھی لیکن اس میں جس طرف دیکھئے عشاق کے قافلے چلے آرہے تھے۔
یہ تقریب پیر ضیاء الحق نقشبندی کی مرتب کردہ کتاب کی تھی جس میں ہماری محبتوں کا مرکز جناب سہیل وڑائچ تزک و احتشام سے جلوہ افروز تھے اور ہماری چاہتوں اور عقیدتوں کا محور جناب مجیب الرحمٰن شامی رعنائی محفل دوچند کئے ہوئے تھے بس جناب مجیب الرحمٰن شامی اور جناب سہیل وڑائچ کے گرد جگنوئوں کے جمگھٹے تھے، جگنوئوں سے چمکتے دمکتے محفل میں شریک احباب اپنی اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے اور اس اظہار کیلئے کوئی اشعار کا سہارا لے رہا تھا اور کسی کو نثر میں اظہار کی راہیں ڈھونڈنا تھیں
سہیل وڑائچ صاحب سے مجھے پہلی ملاقات کا شرف اجمل نیازی صاحب ( مرحوم) کی دختر نیک اختر کی شادی کی تقریب میں ہوا مشرف دور تھا، چودھری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے، پرویز الٰہی صاحب بھی اس تقریب کا وقار دیکھ کر اجمل نیازی صاحب کو داد و تحسین دے رہے تھے، جناب حامد میر، بشریٰ رحمان، جناب ارشاد احمد عارف اور بہت شخصیات تھیں اس تقریب میں، جناب سہیل وڑائچ تشریف لائے تو کئی آوازیں گونجیں اور سہیل وڑائچ کو دیکھتے ہی بول اٹھے ایک دن نیازیوں کے ساتھ بھی ہونا چاہئے۔ یعنی سہیل وڑائچ اپنی انفرادیت کو تقریباً بیس سال پہلے ہی منوا چکے تھے اور بیس سال قبل ہی ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ انہیں دیکھتے ہی پکار اٹھتے۔ ایسے لوگ کسی بھی معاشرے کا حسن اور اہم رکن ہوتے ہیں جو اپنے معاشرے کی حقیقی رہنمائی اور ترجمانی کرتے ہیں سہیل وڑائچ نے ایک ہی روز میں یہ مرتبہ نہیں پایا لیکن قدرت نے کسی ایک ہی لمحے میں سہیل وڑائچ کے لئے یہ عزتیں لکھ دی تھیں جن پر وہ آج فائز ہیں، میں بیس سالوں سے ایسے لوگوں سے بخوبی واقف ہوں جو اخبارات کے مدیر ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے وہ کسی بھی تقریب میں شامل ہو کر بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں کہ لوگ انہیں پہچانتے بھی نہیں کہ یہ کسی اخبار کا نمائندہ ہے لیکن سہیل وڑائچ اپنے ادارے کی پیشانی ہے اور وہ بھی چمکتی ہوئی پیشانی اور اسی چمک دمک میں سہیل وڑائچ کا خلوص مہک رہا ہے۔
یہ خلوص ہی تو ایسی دولت ہے جس سے مالامال ہو کر کوئی بھی شخص معاشرے میں اہم مقام حاصل کر سکتا ہے لیکن خلوص کے گوہر کم یاب ہر کسی کو میسر نہیں ہوتے، قدرت نے خلوص کی دولت خاص لوگوں کے لیے رکھی ہوتی ہے اور سہیل وڑائچ بھی اللہ کا وہ خاص بندہ ہے، جسے اللہ رب العزت نے نواز دیا ہے، ایسے ہی اللہ کے بندوں نے دین، ادب، سیاست، صحافت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے لئے اپنی خدمات کو وقف کر رکھا ہے، لوگ ایسے ہی تو ایسی شخصیات کے دیوانے نہیں ہوتے، ان میں کوئی تو اپنائیت ہوتی ہے جو ہر کسی کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ سہیل وڑائچ نے اپنے سے بہت چھوٹے صحافیوں کو بھی وہی توجہ دی ہے جو اپنے کسی ہم عصر کو دیتے ہیں۔ میرے محسن جناب مجیب الرحمٰن شامی یونہی تو شہرت کے ساتویں آسمان تک نہیں پہنچے اللہ کی خاص کرم نوازیاں ہوتی ہیں، مجیب الرحمٰن شامی صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے خوبصورت جذبوں کی دولت دے رکھی ہے، مجیب الرحمٰن شامی صاحب کمال محبت والے ہیں، شامی صاحب مذکورہ تقریب کیلئے لندن سے چلے آئے تھے، یہی تو سخن فہمی اور قدر شناسی ہے کہ مجیب الرحمٰن شامی صاحب فاصلوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تقریب میں تشریف لائے۔ یقیناً سہیل وڑائچ اس قابل ہیں کہ جناب مجیب الرحمٰن شامی نے اس تقریب میں پورے اہتمام اور شان و شوکت سے شرکت کی۔ سہیل وڑائچ نے اس منزل تک پہنچنے کیلئے ایک ہی لمحے میں سارا سفر طے نہیں کیا بلکہ صحافت کے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہوئے صحافت سے سچی لگن کو اپنا شعار بنایا ہوگا۔ صحافت میں درپیش تمام دشواریوں سے گزرنے کا فیصلہ کیا ہوگا، اس راہ میں حائل رکاوٹوں کو عبور کرنے کی ٹھان لی ہوگی، اس راہ میں یقیناً فریب کے عفریت بھی آتے ہیں۔ انہوں نے دل کی سچائیوں سے کام لیتے ہوئے فریب جیسے عفریت کا مقابلہ کیا، صحافت کے راستے میں کئی رنگین اور دلکش وادیاں بھی پڑتی ہیں اور سہیل وڑائچ ان وادیوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے یہاں تک آپہنچے ہیں کہ اب انہیں اور جناب مجیب الرحمٰن شامی کو صحافت کے ولی کامل کہہ سکتے ہیں۔ سہیل وڑائچ نے سچی اور کھری باتوں سے صحافت کی دنیا میں جو قدم رکھا، خدا نے اسے استقلال بخشا اور یہ استقلال یونہی نہیں ملتا جب کوئی صحافت کے ان مرتبوں پر فائز ہو جائے تو کہیں قدم ڈگمگانے کا احتمال بھی ہوتا ہے، لیکن سہیل وڑائچ صاحب نے پائوں کو لغزش نہ آنے دی۔ اس تقریب کے احوال کیا لکھئے کہ ابھی سہیل وڑائچ تقریب میں پہنچے بھی نہیں تھے اور ان کے چاہنے والے ان کے لئے لکھے مضامین پڑھنا شروع ہوگئے تھے، وہ جانتے تھے کہ سہیل وڑائچ ان کے پڑھے ہوئے الفاظ کی آواز سن لے گا، کہ خدا نے اسے جن سماعتوں اور بصیرتوں سے نوازا ہے وہ تقریب تو کیا، دنیا میں کہیں بھی رہنے والے اپنے عاشق کی صدا کو سننے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔
میرے محترم جناب سید ارشاد احمد عارف صاحب بھی اس تقریب میں رونق افروز تھے، ارشاد احمد عارف صاحب بڑے نفیس ہیں، انہیں محبتوں اور شفقتوں کے سارے سلیقے آتے ہیں، میری جناب ارشاد احمد عارف سے عقیدتوں کا سلسلہ بیس سال ادھر سے شروع ہوتا ہے، جب آپ نوائے وقت کے ادارتی صفحات کے سنیئر ایڈیٹر تھے اور راقم جناب ڈاکٹر اجمل نیازی ( مرحوم) کے ہمراہ دیر تک نوائے وقت دفتر میں جناب ارشاد احمد عارف کی قربت کی عزت حاصل کرتا، اس لئے سالہاسال سے ارشاد احمد عارف صاحب سے ہمارے تعلقات کی خوشبو پھیل رہی ہے۔
بہت پیارے دوست ہمدم دیرینہ جناب پروفیسر ڈاکٹر تنویر حسین جو متعدد کتابوں کے مصنف، کہنہ مشق شاعر اور منفرد کالم نگار ہیں۔ پروفیسر صاحب سنیئر صحافی جناب ارشد جیلانی اور جناب سید مجتبیٰ نقوی کے ہمراہ اس تقریب میں پہنچے۔ ڈاکٹر تنویر حسین اپنے کردار اور اخلاق کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں، مزاح لکھتے ہیں لیکن مزاح بھی ایسا کہ من بھائے اچھا لگے۔ ڈاکٹر تنویر حسین صاحب قلم پر مہارت رکھتے ہیں، ان کی تحریر میں کلاسیکیت بھی ہے اور جدیدیت بھی۔
پیر ضیاء الحق صاحب نے اس کتاب کو تصنیف کرکے روشنی کا جو سفر شروع کیا اللہ کرے پیر ضیاء الحق ان روشنیوں میں نہا جائیں، کہ زمانے میں انہی روشنیوں سے اپنے راستوں کا تعین کیا جاتا ہے۔





