Column

مودی کی فاشسٹ حکومت کے زیر سایہ ہندوستانی فوج کی بدعنوانیاں

حنزلہ خان

مودی حکومت اور اُس کی انتہا پسند ہندو توا نواز بھارتیہ جنتا پارٹی کے فاشسٹ دور میں ہندوستانی مسلح افواج میں بھرتیوں کی دھوکہ دہی، بڑے بڑے سکینڈلز اور اعلیٰ سطح کے معاملات میں بد عنوانی اب ایک معمول کی بات ہے جس پر خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان جو کہ انتہا پسند عقائد و نظریات کی دلدل میں بری طرح دھنسی ہوئی ایک قوم ہے، اپنے ملک میں بنیاد پرستانہ کارروائیوں کے لئے مشہور ہے۔ یہ واقعات فنڈز کی غلط ہاتھوں منتقلی کی وجہ سے نہ صرف قومی سلامتی کو دائو پر لگانے کا باعث بنتے ہیں بلکہ ہندوستانی مسلح افواج سے متعلق عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتے ہیں۔
گلوبل ڈیفنس انٹی کرپشن کی انڈکس کے مطابق گزشتہ دہائی میں ہندوستانی افواج کے اخراجات میں147 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس سے بدعنوانی کے مزید مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ انڈین ایئر فورس کے بدعنوانی کے کیسز میں سے ایک مشہور کیس میڈیم ملٹی رول فائٹر ایئر کرافٹ (MRFA)کے مقابلے کا کیس بھی ہے جس کی مالیت 20 ارب ڈالر سے زائد تھی اور جس کے نتیجے میں ایئر مارشل کی سطح کے تین عہدے داروں کو ہندوستانی صدر کے براہ راست احکامات کے تحت رازداری میں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں، ہندوستانی افواج اب بدعنوانی اور تعیش کا گڑھ بن چکی ہیں۔ ’ دی پرنٹ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق صرف ۲۰۱۰ سے لے کر اب تک افواج میں بدعنوانی کے1080کیسز درج کئے گئے ہیں۔
بد عنوانی کے ان واقعات میں کرنل کی سطح سے اوپر کے لوگوں کے سی ایس ڈی سٹور سے مفت میں اور رعائتی نرخوں پر ملنے والی شراب کو چند روپے حاصل کرنے کے لئے غیر قانونی طور پر کھلی مارکیٹ میں بیچنے جیسے شرمناک واقعات بھی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، قوانین میں رد و بدل کر کے اعلیٰ فوجی افسران کو تو ٹیکس میں چھوٹ دی گئی ہے لیکن نوجوان افسران کے لئے ایسی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ ہندوستانی فوج کے 72 افسر جن میں ایک جونیئر کمیشنڈ افسر اور میجر جنرل و بریگیڈئیر کی سطح کے چار ریٹائرڈ افسر شامل ہیں،9ایم ایم پسٹل اور پوائنٹ ۳۰ بولٹ ایکشن رائفلز جیسا ممنوعہ بور کا اسلحہ ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کھلی مارکیٹ میں بیچتے ہوئے پائے گئے ہیں۔
اسی طرح چوٹی کے چار جرنیل، 33کور کمانڈر اور ملٹری سیکرٹری انکوائری کورٹ کے سامنے سکنا ملٹری بیس کی زمین کی خورد برد میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ہندوستانی فوج کی داغدار شہرت کو اس وقت مزید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب لیفٹیننٹ جنرل پی کے راتھ کے بھائی نے ان کے آرمی چیف پر الزام لگایا کہ انہیں اس زمین کے سلسلے میں تمام معلومات کا پہلے سے علم تھا۔
ہندوستانی افواج میں بد عنوانی کا تازہ ترین اور اہم ترین واقعہ ملازمتوں کی دھوکہ دہی کا کیس ہے جسے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (CBI)نے بے نقاب کیا ہے۔ سی بی آئی نے ہندوستانی فوج کے سروس سلیکشن بورڈ (SSB)کی طرف سے بھرتیوں کے ضابطہ کار سے منسلک پندرہ شہروں کے تیس مقامات پر تحقیق کی۔ اس کیس میں فوج کے ۱۷ افسران و دیگر افراد جن میں لیفٹیننٹ کرنل اور میجر شامل تھے، کو شامل کیا گیا، جن پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے افسروں اور دیگر کے چنائو کے لئے رشوت وصول کی تھی۔
ایک دوسرے لرزہ دینے والے واقعہ میں ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل، ایس کے ساہنی کو تین سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ شخص فوج کے لئے غذائی اجناس کی خرید و فروخت میں شامل تھا اور اس پر الزام ثابت ہوا ہیکہ اس نے فوج کے لئے زائد المعیاد اجناس خریدی تھیں۔
وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر کی خرید و فروخت میں جعل سازی ایک اور ایسا واقعہ ہے جو زیر تفتیش ہے۔ الزام لگایا گیا ہے کہ اطالوی ڈیفنس مینو فیکچرر فن میکا نیکا سے12اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں کی خرید کے معاہدے کے دوران سودا کرانے والے حتیٰ کہ سیاستدانوں کو بھی رشوت دی گئی تھی۔ اس سودے کی لاگت ایک اندازے کے مطابق3600 کروڑ ہندوستانی روپے بنتی ہے۔
اس کے علاوہ، انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستانی فوج کے پانچ عہدے داروں بشمول ایک کرنل کے خلاف ایک اور کیس بھی درج کرایا گیا ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے آسام اور اروناچل پردیش میں فوج کو غذائی اجناس مہیا کرنے والے تاجروں سے اٹھارہ لاکھ ہندوستانی روپے رشوت وصول کی ہے۔ ان جعل سازیوں کی وجہ سے ہندوستانی فوجی اور نیم فوجی اہلکار اپنی مشکلات کو ظاہر کرنے، سہولیات کی کمی کا شکوہ کرنے اور مودی حکومت کے زیر سایہ ہونے والی بدعنوانیوں کو ظاہر کرنے کے لئے اب سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ شکایات نہ صرف فوج کے مورال پر اثر ڈال رہی ہیں بلکہ فوج میں قیادت اور جوابدہی کے فقدان پر بھی سوال اٹھا رہی ہیں۔
جب ہندوستانی افواج میں موجود ان جعل سازیوں اور بد عنوانیوں کا موازنہ ہمسایہ ممالک جیسے کہ چین یا پاکستان کی افواج سے کیا جاتا ہے تو یہ بات کُھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہندوستانی افواج کی بد عنوانی خطے میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے بُرے اثرات عسکریت پسندی کے جنون کی صورت نہ صرف ہمسایہ ممالک پر پڑتے ہیں بلکہ اس کے منفی اثرات ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی ہندوستانی افواج میں بھی بھارتیہ جنتہ پارٹی اور آر ایس ایس کے ہندو توا پر مبنی نظریات کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کا ثبوت ہندوستانی فوج میں چیف آف ڈیفنس سٹاف جیسے عہدے کا قیام ہے جس پر مرحوم جنرل بیپن روات براجمان تھے۔ ہندوستانی فوج کو ’ ہندو‘ بنانے کا ایک اور ثبوت اگنی پت جیسی سکیمیں ہیں، اس سکیم کے مطابق بیس سے پچیس برس کی عمر کا ہر ہندو شہری غیر رسمی طور پر نیم فوجی ملازم ہے جسے بعد میں نیم فوجی دستوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جگہ دی جائے گی اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ عسکریت پسندی پر مبنی نظریات کو نچلی سطح تک پہنچایا جائے۔
دوسری طرف ہندوستانی افواج بالخصوص بری فوج میں بدعنوانی اور اقربا پروری کا دور دورہ ہے جس کے ساتھ ساتھ ہندو توا پر مبنی فاشزم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جو کہ وہاں کے مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے لئے خطرے کا باعث ہے۔
نسل کشی بارے تنظیم ’ جینوسائیڈ واچ‘ کے پروفیسر گریگوری سٹینٹن نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ہندو توا کا نظریہ نہ صرف ہندوستان کی تاریخ سے میل نہیں کھاتا بلکہ یہ ہندوستانی آئین سے بھی متصادم ہے۔ انہوں نے نریندر مودی کو ایک انتہا پسند قرار دیا ہے جس نے بدعنوان فوج اور آر ایس ایس کی انتہاء پسندانہ سوچ کے زور پر ہندوستانی حکومت پر قبضہ جما لیا ہے۔
اسی طرح سے ہندوستانی فوج میں سرایت کرتا ہوا ہندو توا نظریہ نہ صرف نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے بلکہ یہ فوج میں موجود دلت افراد کو منفی طور پر متاثر کر کے فوج کے اندر اختلافات اور تضادات کو بھی ہوا دے رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان کی فاشسٹ بی جے پی حکومت اور ہندوستانی فوج مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کے لئے مہلک ترین بنتی جا رہی ہیں۔ خدشہ ہے کہ ان اقلیتوں کی نفسیات، معیشت اور حالات پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button