ColumnImtiaz Aasi

انسان دوست شخصیت

امتیاز عاصی
عام طور ارکان اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے اپنے اپنے حلقوں میں سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر اور سیوریج لائنز بچھانے کے لئے سرکاری فنڈز کے منتظر ہوتے ہیں۔ ارکان اسمبلی اور بلدیاتی نمائندوں کا یہ بہت پرانا وتیرہ ہے فنڈز کے اجراء کے بعد حلقے کے لوگوں کی نظروں میں خدائی خدمت گار بننے کے لئے پہلے اقدام کے طور پر اپنے ناموں کے بورڈ آویزں کرتے ہیں حالانکہ وہ جو کام کرا رہے ہوتے ہیں وہ عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے ہوتے ہیں نہ کہ ان کی ذاتی جیب سے۔ پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں ہم یہی کچھ دیکھتے آرہے ہیں ارکان اسمبلی اول تو منتخب ہونے کے بعد لوگوں سے ملاقات کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں کہیں انہیں کوئی کام نہ کہہ دیں۔ عوام کو اپنے نمائندوں سے ایک بڑی شکایت یہ رہتی ہے وہ اسلام آباد جا کر حلقے کے لوگوں کو بھلا دیتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عوام باشعور ہو چکے ہیں انہیں اچھے اور برے کی اچھی طرح تمیز ہو چکی ہے جس سے آئندہ انتخابات میں روایتی سیاست دانوں کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ عجیب تماشا ہے عوام کے ٹیکسوں کے سے حلقوں میں معمولی سے معمولی کام کرا کر لوگوں کو اپنا احسان مند گردانتے ہیں عوام کے نمائندے ہو سکتے ہیں؟۔ موجودہ سیاسی صورت حال میں اس خاکسار کو ایک ایسی شخصیت سے ملنے کا اتفاق ہوا جس کا تعلق کاروباری طبقے سے ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ملک کے ہونہار طلبہ اور طالبات کو صحت کی تعلیم دینے کے لئے 2010ء رول جنرل اینڈ ڈینٹل ہسپتال اور میڈیکل کالج کی بنیاد رکھی۔ ہسپتال کے آغاز میں علاقے کے لوگوں کو صرف پچاس روپے کی پرچی پر مفت علاج کی سہولت فراہم کی جو طویل عرصہ گزرنے کے بعد اب تین سو روپے میں عوام کو میسر ہے۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ان یہ ادارہ ملک کے چاروں صوبوں میں فیکلٹی کے لحاظ سے نمایاں ہو گیا۔ نہ جانے انہیں سیاست میں آنے کا کیسے خیال آیا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران حلقہ این اے 48 کے گلی محلوں اور بازاروں میں اس کا نام ہر فرد کی زبان پر ہے۔ ہمیں حیرت اس پر ہوئی جب انہوں نے اپنے حلقے میں عوامی فلاح و بہبود کے لئے محلے کی سطح پر کمیٹیاں قائم کرکے اپنے ذاتی سرمائے اور لوگوں کے تعاون سے کچی گلیوں کو پختہ کرنے، سیوریج لائنز کی صفائی اور بعض جگہوں پر سڑکوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا۔ وفاقی دارالحکومت کا یہ حلقہ اتنے سال گزرنے کے باوجود حلقے کے ارکان کی عدم توجہی کا شکار تھا جس سے لوگ پینے کے صاف پانی سے ابھی تک محروم چلے آرہے تھے۔ عوام کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے انہوں نے چوبیس گھنٹے فراہمی آب کا بندوبست ٹینکروں کے ذریعے کرکے لوگوں کی دہلیز پر پہنچانے کا انتظام کیا۔ میری ان سے یاد اللہ اس وقت سے ہے جب وہ کالج کے طالب علم تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ خوبیوں سے نوازا ہے۔ درحقیقت اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال کر رکھا ہے جب کوئی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا عہد کر لے تو وہ آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ نے ویسے تو نہیں کہا تھا:
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفے سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
انسان کوشش کرے تو مشکل سے مشکل کام آسان ہو سکتا ہے۔ بات صرف ارادے اور نیت کی ہے انسان کوئی کام کرنے کا ارادہ کر لے تو کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ ان کے آفس میں حلقے کے عوام کا صبح سے رات تک تانتا بندھا رہتا ہے جو اس امر کا غماز ہے وہ خلق خدا کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ عجز و انکساری کا یہ پیکر ہر آنے والے کو مسکراہٹ دے کر ان کی دامن سخنے مدد کرنا ان کی زندگی کا مطمع نظر ہے۔ ابھی انتخابات کے انعقاد کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا کہ چند ماہ میں حلقے کے عوام کی فلاح و بہبود کا آغاز کرکے عوام کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ آج حلقہ اے48 میں رہنے والے ہر مرد و زن کی زبان پر ان کا نام ہے ۔ وہ جو روایتی سیاست دان ہیں کہیں دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ انہوں نے نہ صرف حلقے کے عوام کے لئے بلکہ پورے ملک کے عوام کے لئے صحت کارڈ کا اجراء کرکے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ چند ہزار روپے کے عوض صحت کار ڈ لینے والوں کو خاندان کے تمام افراد کو سال بھر علاج معالجہ اور آپریشن کی سہولت دے کر نئی شروعات کی بنیاد رکھی جس سے حلقے کے علاوہ دور دور سے ضرورت مند اس سہولت سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس شخصیت کا نام خاقان وحید خواجہ ہے۔ وہ عجز و انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ وہ اپنے والد مرحوم ڈاکٹر وحید خواجہ کی طرح خلق خد ا کی بے لوث خدمت پر یقین رکھتے ہیں۔ جب سے انہوں نے سیاست میں قدم رکھا ہے رات دیر تک آفس میں عوام سے ملاقاتیں اور حلقے میں جا کر لوگوں کے مسائل سننا ان کا مقصد حیات ہے۔ ان کے والد ڈاکٹر وحید خواجہ قیام پاکستان کے وقت سری نگر سے ہجرت کرکے راولپنڈی تشریف لائے تو جامع مسجد روڈ پر کلینک کھولا جہاں صبح و شام مریضوں کا تانتا بدھا ہوتا تھا۔ گو ڈاکٹر وحید خواجہ آخرت کو سدھار گئے کئی عشرے گزرنے کے باوجود راولپنڈی کے عوام آج بھی انہیں شاندار الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔ درحقیقت خدمت انسانی ایک ایسا ورثہ ہے جو ہمیشہ زندہ رہنے والی متاع ہے ۔ جو لوگ حق تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ شاہد خاقان وحید خواجہ کو مخلوق خدا کی خدمت کرنا اپنے والد کی طرف سے ورثے میں ملا ہے۔ حلقے کے عوام کی دیرینہ خواہش تھی وہ آنے والے انتخابات میں حلقہ این اے 48 سے قومی اسمبلی کے امیدوار بنیں۔ دراصل روایتی سیاست دانوں سے تنگ آئے عوام جھوٹے وعدوں کی بجائے عملی طور پر خدمت کرنے والوں منتخب کرنے کے خواہاں ہیں۔ حلقہ این اے 48کے مکینوں کو چاہیے غریب عوام کی بے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار خاقان وحید خواجہ کو کامیاب بنا کرکے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے علاقے میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کا آغاز کریں۔

جواب دیں

Back to top button