Column

لوگو میرے ماہی کو خبر کرو

سیدہ عنبرین
ملک بھر میں ماہی کا بے چینی سے انتظار کیا جارہا ہے، ماہی آئے گا تو دھرتی کو ڈالروں سے سجائے گا، ماہی امریکہ کے دورے پر روزانہ ہوا تو بتایا گیا کہ خطے کی صورتحال کے تناظر میں ان کا دورہ امریکہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ماہی نے امریکہ پہنچ کر اہم شخصیات اور اپنے ہم منصوبوں سے ملاقاتیں کیں، اُنہوں نے امریکہ میں پاکستانی کمیونٹی سے بھی ملاقات کی، جنہیں امریکہ کی 14ریاستوں سے مدعو کیا گیا تھا، امریکہ میں پاکستانی سفیر نے اس حوالے سے دن رات ایک کر دیئے اور اہم کامیابی سمیٹی۔ اس ملاقات میں اہم قومی سیاسی امور پر بات کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات و سہولتوں پر بھی بات چیت ہوئی، سوال و جواب بھی ہوئے، الیکشن 2024ء کے حوالے سے یقین دہانی کرائی گئی کہ الیکشن بروقت ہونگے، ساتھ ہی یہ بیان بھی نظر آیا کہ اس عمل میں چند روز تاخیر ہوسکتی ہے جو لاجسٹک امور کے سبب ہوسکتی ہے، لیکن الیکشن ماہ مارچ سے پہلے ہونگے، کیونکہ اس کے بعد سینیٹ کے انتخابات ہونا ہیں۔
ماہی تو زیادہ تر چھیل چھبیلے ہوتے ہیں لیکن موجودہ ماہی حد درجہ سنجیدہ ہیں اور ان کی سنجیدگی غیر سنجیدہ کاموں میں بھی جھلکتی ہے، جس سے اندازہ ہے انہیں کن کن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں دفاعی امور کے علاوہ ملک کی اقتصادی حالت سب سے بڑا چیلنج ہے، جو ان کا کام تو نہیں لیکن ان کے بغیر درستی ممکن نہیں، جاری برس کے اوائل میں اُنہوں نے ملک کے اندر چیدہ چیدہ کاروباری شخصیات سے ملاقات کے سیشن میں تاجر حضرات سے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے بات چیت کی، جس میں کسی کاروباری شخصیت نے ان تباہ کن پالیسیوں کا ذکر نہ کیا جن کے سبب ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے تک پہنچا، تاجر حضرات جن پالیسیوں کے سبب کروڑ پتی سے دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بنے وہ ان پالیسیوں کی نشاندہی کیوں کرتے، پس زیادہ تر شرکا آئیں بائیں شائیں کرتے رہے، تاجر برادری میں امپورٹرز اور ایکسپورٹرز دونوں شامل تھے، امپورٹرز اگر مشورہ دیتے کہ ہمیں امپورٹ کم کرنی چاہیے اور صرف وہ اشیا امپورٹ کرنا چاہئیں جن کے بغیر گزر ممکن نہیں، تو اس سے بڑا محب وطن کوئی نہ ہوتا لیکن کسی نے اپنا پیٹ کاٹنے اور اپنی آمدن پر ضرب لگانے کا مشورہ نہ دیا، حالانکہ اسی معاملے پر تو ’’ ضرب عضب‘‘ لگانے کی ضرورت ہے، یہ کام اب ہوگا یا پھر کبھی نہیں ہوگا، کبھی نہ ہونے کے امکانات زیادہ روشن ہیں کیونکہ ’’ بزنس مین فرینڈلی‘‘ حکومت کی آمد آمد ہے، جس نے ماضی میں گرین چینل سے ملک کی تباہی شروع کی، پالیسی بنائی گئی کہ کوئی بھی شخص جہازی سائز کے دو سوٹ کیس کسی بھی سامان سے بھر کر لائے تو انہیں کھول کر چیک کیا جائے گا نہ پوچھا جائے گا کہ کیا لائے ہو، کتنا لائے ہو اور کیوں لائے ہو، اس پالیسی سے ہر طرح کے مال کی سمگلنگ شروع ہوئی، جو بنائے گئے قانون کے عین مطابق تھی، اس پالیسی کے آڑ میں سونے کی سمگلنگ کو عروج حاصل ہوا، بزنس مین فرینڈلی حکومت کو دوسری باری ملی تو ڈبلیو ٹی او کی ممبر شپ بلا سوچے سمجھے حاصل کرلی گئی، جس کے نتیجے میں فری ٹریڈ پالیسی کے اسیر ہوگئے، دنیا بھر کے برینڈ یہاں آگئے، سامان کی امپورٹ شروع ہوگئی، کبھی ملک میں ایک باڑہ مارکیٹ ہوا کرتی تھی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر شہر میں اس طرز کی مارکیٹیں شروع ہوگئیں، پانچ مرلے کے گھر میں اوپر نیچے پندرہ، پندرہ دکانیں بن گئیں، جو آج تک قائم ہیں۔ ان مارکیٹوں میں میک اپ کا سامان، کپڑے، جوتے، کراکری کا سامان، آرائش اور زیبائش سے لیکر دنیا کی ہر وہ چیز ملنے لگی جس کی ہمیں قطعاً ضرورت نہ تھی۔
آج مفلوک الحال اور قرضوں میں جکڑے ملک میں اسی طبقے کے گھروں کے کچن اور واش رومز میں امپورٹڈ ٹائلز اور فٹنگز نظر آتی ہیں جن کی امپورٹ کی کوئی ضرورت نہ تھی، اگلے مرحلے میں فرنیچر اور تعمیراتی سامان امپورٹ ہونا شروع ہوا جو آج تک جاری ہے، ان تمام اللوں تللوں کو کوئی سیاسی حکومت روکنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی، پس مستقبل قریب میں خوشحالی کے خواب فقط سراب ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں، ایسے ہی سرابوں کے پیچھے بھاگتے دوڑتے ستر برس بیت گئے، حلقوم خشک اور پائوں میں آبلے پڑ گئے، ہم جہاں پہنچتے ہیں، منزل ہم سے مزید دور ہوجاتی ہے، فری ٹریڈ پالیسی اپنانے کے بعد بحری جہازوں کے جہاز بھر بھر کر لگژری گاڑیاں
منگوائی گئیں، کاروباری دوستوں کی سہولت اور منافع کیلئے قواعد و ضوابط ایک روز کیلئے معطل کئے جاتے، جہاز ان لوڈ ہونے کے بعد قواعد لاگو ہو جاتے، یوں ایک رات میں گاڑیاں امپورٹ کرنے والوں نے کئی کئی ارب روپے کمائے، اوور انوائسنگ اور انڈر انوائسنگ بھی اسی دور میں شروع ہوئی اور پھر جڑ پکڑ گئی، کنٹینر کے کنٹینر ایسے مال سے بھرے آتے جن میں مال کچھ ہوتا، کاغذوں میں کچھ اور لکھا ہوتا، یوں ڈیوٹی اور ٹیکسز بچانے کی راہ نکالی گئی۔ اہلکاروں سے لیکر اعلیٰ ترین افسروں نے فیض حاصل کیا، انتخابات کے موقع پر مرحوم شاہ مرداں پیر صاحب بگاڑا بہت یاد آتے ہیں، وہ کہا کرتے تھے، انتخابات سے پہلے سیاسی فیملی پلاننگ کی ضرورت ہے۔ یہ سیاسی فیملی پلاننگ جس طرح ہونا چاہیے تھی کبھی نہ ہوسکی، ہمیشہ ایسے لوگ اس کی زد میں آئے جو تھے ہی بانجھ اور جن کی سیاسی نس بندی ہونی چاہیے تھی وہ ہمیشہ بچ گئے، اس مرتبہ بھی انتخابات اسی اُصول کے تحت ہوتے نظر آتے ہیں، نیب قوانین تبدیل ہوچکے ہیں، کئی کروڑ روپے کی کرپشن اب قابل دست اندازی نیب نہیں، چیئرمین نیب اب فرینڈلی نیب کا پیغام دیتے نظر آتے ہیں، وہ بتا چکے ہیں کہ بیوروکریسی پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا، کاروباری افراد کو بھی کچھ نہیں کہا جائے گا اور سیاسی شخصیات کی طرف تو دیکھا بھی نہیں جائے گا۔
گزشتہ ہفتے سینیٹ میں ایک معاملہ زیر بحث آیا، ایک کاروباری شخصیت نے ستر ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی، جس میں مختلف بینکوں نے بھی سہولت فراہم کی، راز فاش تو نہ ہونا تھا لیکن ہوگیا، اندازہ کیجئے وہ شخصیت کس قدر طاقتور اور رسوخ رکھتی ہوگی کہ ستر ارب روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور سہولت بہم پہنچانے والے بینکوں پر فقط نو کروڑ جرمانہ کیا گیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا، کچھ عرصہ قبل بتایا گیا تھا کہ سٹیٹ بینک نے ڈالر کی غیر قانونی سٹاک و خریدوفروخت کرنے والے قومی بینکوں کا سراغ لگایا ہے، انہیں جرمانہ کیا جائیگا، گمان ہے وہاں بھی اسی اُصول کے تحت جرمانہ کیا گیا ہوگا، یعنی اربوں کے فراڈ اور غلط کاریوں پر چند کروڑ کا جرمانہ، پاکستان کا مستقبل ایسے ہی ہاتھوں میں رہے گا، لوگو میرے غیر سیاسی ماہی کو خبر کرو۔

جواب دیں

Back to top button