ک ۔۔۔۔ کتاب اور ملک کے اصحاب نقد و نظر و اہل قلم کے حضور کچھ گزارشات ۔۔۔۔۔۔

ک ۔۔۔۔ کتاب اور ملک کے اصحاب نقد و نظر و اہل قلم کے حضور کچھ گزارشات ۔۔۔۔۔۔
پروفیسر خالد اکبر
ک۔۔۔ کتاب ڈاکٹر محمد صغیر خان کی ملک کے طول و عرض میں پھیلے مختلف اہل قلم، شعرائ، ادبائ، محقیقین، کالم نگاروں، تاریخ دانوں کی 39کُتب پر تبصروں اور تذکروں کا مجموعہ ہے۔ ڈاکٹر محمد صغیر ایک ایوارڈ یافتہ اور نامور مصنف ہیں۔ ایک زود نویس اہل قلم کے طور پر درجنوں کُتب لکھ چکے ہیں، خصوصاََ، کشمیر میں بولی جانے والے پہاڑی زبان کے سب سے بڑے محقق اور مصنف ہیں۔ پہاڑی بولی کے علمی اور ادبی سرمایہ میں نمایاں حصہ ان کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کی وجہ سے ان کا نام مقامی زبانوں کی تاریخ کے باب میں ہمیشہ امر رہے گا۔
ک۔۔۔ کتاب آزاد کشمیر کے ادبی منظر نامہ میں نقد و نظر ؍ تنقید کے حوالے سے نقش اوّل قرار دی جاتی ہے۔ جن کتب کا تعارف اور تنقیض کی گئی ہے۔ اس میں شاعری، سفر نامے، افسانے، ناولز، کہانیاں، داستانیں، تاریخی کتب، تحقیقی مقالے خاکے وغیرہ شامل ہیں۔ لاریب، اتنی بڑی تعداد میں نگارشات کا گہری، تنقیدی نظر سے مطالعہ کرنا، اُن کی جملہ حسنات کو عیاں کرنا، گاہے بگاہے ان کےGapsکو مستعدی اور مہارت سے عیاں کرنا اور مثبت کمک دہی سے ان اہل قلم کی حوصلہ افزائی اور ستائش کرنا، یقینا فاضل مصنف کی کتاب کی سنجیدہ مطالعہ کی عادت اور ان کی تنقید ی صلاحیت کا واشگاف عکاس ہے۔ کتاب گریزی کے اس ناروا عہد میں یہ ایک ایسا مستحسن عمل اور سرگرمی ہے، جو اہل قلم کے سا تھ والہانہ لگائو اور حرف دوستی کے اعلیٰ رحجان کے بغیر ممکن نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اس پہلی مگرا پنی نوعیت کی منفرد کاوش پر ہم دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ڈھیروں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے قلم میں اور زیادہ طاقت و توانائی عطا کرے اور عمر میں برکت تاکہ وہ دو سروں کے لیے اپنی دریا دلی، محبت اور یار باشی کے چشموں کو رواں دواں رکھتے رہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ تازہ کاوش تنقید کی کیٹگری میں آتی ہے۔ اگرچہ انہوں نے کتاب کے ابتدائیہ میں اس قسم کے دعویٰ سے تزویراتی انداز میں گریز کیا ہے۔ ان کے بقول ان کی یہ تحریریں مرتب ہیں نہ مرکب بلکہ کسی نوعیت کا تبصرہ بھی نہیں ہیں۔ یہ اگر ہیں تو محبت سے کیا گیا تذکرہ ہیں۔ اگر اس Stategicکسر نفسی کے بیان کو مان بھی لیا جائے جن کا مکرر اظہار وہ جا بجا زیر نظر کتاب کے مختلف مضامین میں بھی کرتے رہے ہیں تو پھر بھی ڈاکٹر صاحب اس نئے روپ اور انداز میں اپنے بہی خواہوں کی گرفت سے نکل نہیں سکتے کیونکہ نقد و نظر کا معاملہ خالصتاََ ایک اکیڈمک معاملہ ہے جو پیشہ وارنہ انداز کا حامل اور متقاضی ہے۔ جس کی اپنی علمی اور لسانی جہتیں ہیں۔ بقول شخصے اگر کوئی کہے کہ میں فلاں شے کو اچھا یا برا سمجھتا ہوں کیوں کہ اس کے ثبوت موجود ہیں تب اس پر تنقید حرف گیری تو واجب ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد صغیر خان صاحب کو بہر حال یہ کریڈٹ تو لازما جاتا ہے کہ مذکورہ بالا محولہ اضاف اور اہل قلم کے بارے میں انہوں نے فیاضی اور محبت کا جو برتائو کیا ہے۔ وہ بہرحال باکمال اور بے مثال ہے۔ ہمارا خوش گمان ہے کہ ڈاکٹر صاحب اتنے اچھے مریکٹر marketerکی افتاد طبع اور وصف کے حامل ضرور ہیں کہ اگر یخ بستہ موسم اور ہوائوں میں انہیں ہمالیہ یا پیرکھنٹی پر ڈیپ فریزر بیچنا مقصود ہوتا تو وہ نامراد نہ لوٹتے۔ یقینا ہمارے مربی ّ اور قلمی استاد محترم نے برسوں پہلے دھیرے اور ملگجی انداز میں اپنے علمی اور قلمی سفر کا آغاز کیا۔ ایک ارتقائی عمل سے گزرے۔۔۔ کٹھن راہوں اور پینڈوں سے گزرتے ہوئے بطور ادیب، محقق، خصوصاََ پہاڑی زبان کے حوالے سے قابل قدر بھاری بھرکم اور قیمتی کام کیا۔ آپ نے جس طرح مختلف اضاف کی داغ بیل ڈالی، ملک گیر شہرت حاصل کی اور لیجنڈ ادیب کے منصب جلیلہ پر پہنچے، وہ ہم سبھی ان کے چاہنے اور ماننے والوں کے لیے ممیز او ر اعزاز سے کم نہیں۔ تاہم یہ اعزازات اور نوازشات، توقیر و تکریم، اُن کے لیے کسی ابتلاء اور آزمائش سے کم نہیں۔ بے شک جتنا بڑا اعزاز و منصب اتنی ہی بڑی ذمہ داری اور پیشہ وارنہ اور ذمہ دارانہ رویہ کی توقعات !! قدرت کی طرف سے عوام کو حیرت انگیز حد تک معاف کرنے کی جبلت و دیعت کی گئی ہے۔ مگر وہ فطین اور لیجنڈ شخصیات کے سوا سب کو معاف کر دیتے ہیں :Public is wonderfully tolerant; It forgives everthing except Genius/Legends وہ آگے چل کر لکھتے ہیںکہ مشہور مفکر اور دانشور روسو کو اپنے ذاتی گناہوں کے انکشاف کی وجہ سے ہمیشہ قدر اور توقیر کی نظر سے دیکھا مگر اسی طرح کی خطاہوں کا اقبال جب ایک پادری کی طرف سے ہوا تو باعث حقارت اور قابل گرفت ٹھہرا۔ ہمارے سماجی پیرائیہ میں ہم اس حقیقت کو یوں کہہ سکتے کہ جوش ملیح آبادی نے اپنی مشہور کتاب یادوں کی بارات میں اپنے معاشقوں کو جس بے باکی اور تفصیل سے بیان کیا ان کو لوگوں کی اکثریت نے قبول کیا اور ناک بھوں نہیں چڑھایا۔ مگر تصور کرے خدانخوا ستہ ، اگر ایسا اقبال اور انکشاف حضرت شاہ ولی اللہ یا مولانا مودودی کے قلم سے ہوتا توتا قیامت قابل تعزیر اور معتوب ٹھہرائے جاتے ۔ اس کے سا تھ سا تھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ اور ناقابل تردید ہے کہ ادب اور سائنس کا سفر مختلف نوعیت کاہے۔ سائنس میں چیزیں بہتر سے بہترین کی طرف رواں دواں رہتی ہیں۔ ہر نئی ایجاد پہلے سے بہتر اور موثر ہوتی ہے مگر ادب یوٹرن بھی لیتا ہے اور زوال پز یر بھی ہو جاتا ہے۔۔۔ بہترین سے بدترین کی طرف بھی جاتا ہے۔ تاہم اس سارے عمل کی اپنی سماجی Dynamicsہوتی ہیں۔ اس حقیقت سے بھی مفر نہیں کہ جب کسی روایت کی بنیاد پڑ رہی ہوتو ارباب نقد و نظر کو ہاتھ ہلکا رکھنا چاہیے۔ آزاد کشمیر کے باب میں ادب کی نئی روایت اور طرح پڑ رہی ہے جس میں ڈاکٹر صغیر اور ان کے دیگر ہم نواہوں کا کردار بنیادی اور قابل قدر ہے ۔ نو واردان کی آمد اور ان کی حوصلہ افزائی قابل بھی قابل ستائش ہے۔ مگر اب وقت آ چکا ہے اس حصہ کشمیر میں ڈاکٹر صاحب اور ان ایسے دیگر نمایاں اصحاب نقد و نظر کو حرف گیری، تنقید و تنقیض کے معیاری آ لات کو درست اور موثر انداز میں استعمال کرنا ہے۔ اور اس تنقیدی روایت کو پیشہ ورانہ انداز سے بھی برتنا ہوگا، بصورت دیگر کتاب گریزی کا عمل بڑھتا رہے گا، ذوق سلیم گھٹتا رہے گا، بھری بوتلیں اُبلتی رہیں گی،Junk جنک کی ہٹیا کا حجم بڑھتا ہی جائے گا اور نتیجتاََ قاری پر کتاب گریزی کے الزامات کی چارج شیٹ کا سائز بڑھتا جائے گا۔ تاریخ ادب گواہ ہے کہ مفید اور کار آمد علم و ادب اُنہی معاشروں میں بہتر فروغ پاتا رہا جہاں پر اصحاب نقد و نظر نے جراحت کا کام انتہائی پیشہ ورانہ اور لگ لپٹی کے بغیر انجام دیا۔ صدیوں تک پوجا کئے جانے والے عظیم شاعر اور ڈرامہ نویس ولیم شکسپیر کے شاہکارHamlet کو جب بیسویں صدی کے مشہور نقاد T.S.Eliotنے اپنے مضبوط دلائل اور برائین کے ساتھ Artistic failureفنی ناکامی قرار دیا تو کسی قاری اور ادیب نے بھنویں چڑھائی نہ حرف شکایت زبان پر لایا۔ پرسنلٹی کلٹ Personalty Cultکے اسیر، اندھی محبت کے صدیوں کے دبیز پردوں میں ملبوس ہمارے ہاں کل کلاں کوئی آشفتہ سر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے بارے میں ایسا کوئی دعویٰ کر دے تو نہ جانے ترکش میں چھپے کتنے تیر حرکت میں آجائیں اور تلواریں بے نیام کر کے سو نت لی جائیں ! اسکیر وائلڈ اپنی مذکورہ بالا تصنیف میں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ نقاد بھی ایک فنکار ہی ہوتا ہے، چونکہ وہ آرٹسٹ کے کام کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔ مثلاََ سمیول جوئنسن نے کئی سالوں تک ولیم شکسپئر کے ڈراموں کا مطالعہ کیا اُس کی تنقید اور تجزیہ کے بعد اُس نے ولیم شکپیئر پرPerface to Shakespearجیسا ایک شاہکار رقم کیا جواز خود تاریخ علم و ادب میں ایک بے مثال اضافہ ہے۔
قصہ کوتاہ یہ کہ نقد و نظر کے باب میں ہمارے ادب نے ابھی لمبا اور مشکل سفر طے کرنا ہے۔ یہ بات خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ گلوبل ویلج اور وسیع علم رسانی کی آسان رسائی کے اس عہد میں ایسی بیسیار رہنمائی موجود ہے جس سے مستفید او ر مستفیض ہوکر، سائنسی انداز میں آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ کا ر آمد علم و ہنر کسی ایک قوم کی میراث نہیں ہوتا۔ نو آموز اہل قلم کے حوالے سے دور حاضر کے اہم ترین نقاد Ronald Barthsکے ہاں سرچشمہ رہنمائی کا شاید کچھ سامان میسر ہو۔ اپنے مشہور مضمون The Death of the Author۔ مصنف کی موت میں وہ ایک جگہ بیان کرتے ہیں: مصنف جو کچھ بیان کرتا ہے وہ پہلے سے معاشرہ میں موجود ہو تا ہے۔ تحریر کا اصل شراکت دار اور منزل اُس کا قاری ہوتا ہے۔ اگر صرف ایسی لطیف نکتہ کو ذہن میں رکھا جائے تو صاحب تصنیف ہونے کا ذوق وشوق ( جو اہل قلم کی اندر کی گہری تحریک اور جیلت کا اظہار ہوتا ہے ) کے ساتھ اگر ایک ادیب قاری کو اولیت دے، تصنیف و تالیف کی ضرورت و اہمیت اور موجودہ ادب میں اس کے مقام کے پہلوئوں کو ترجیح دے تو یقینا اس سے قلم و قرطاس کا بہت بھلا ہونا شروع ہو جائے گا۔
صاحبو! یہ سب بالا محولہ اظہار بس ایک خشک خیال آرا ہی ہے ۔۔ ایک جملہ معترضہ ہے ۔۔۔ بس اصل موضوع سے گریز پائی ہے! ا پنے اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہوئے ہم فاضل مصنف اور اپنے دیرینہ دوست ڈاکٹر محمد صغیر خان کو کو اپنی پندرویں تصنیف کی اشاعت پر دل کی عمیق گہرائیوں سے ایک بار پھر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ امید واثق ہے کہ ک ۔۔۔۔ کتاب کے بعد بھی ان کا قلمی سفر جاری رہے گا اور ایسی سعید مجالس یوں آباد و شاد ہوتی رہیں گی !







