Column

بھٹو کے قاتلوں کی تلاش

یاور عباس
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کے مبینہ عدالتی قتل کیخلاف 12سال قبل آصف علی زرداری کی جانب سے سپریم کورٹ کو بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم سے سماعت ہورہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ بار میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے وہ جج صاحبان ہیں جنہوں نے غیر قانونی سزا سنائی ، اب جج صاحبان ہی اپنے فیصلوں سے داغ دھوئیں گے ۔ بلاول بھٹو نی کہا کہ انصاف اپنے یا پھر اپنے خاندان کے لیے نہیں مانگ رہا بلکہ چاہتا ہوں کہ آئندہ کسی منتخب وزیراعظم کے ساتھ ایسا سلوک نہ ہو۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی قائد ذوالفقار علی بھٹو کو متنازعہ کیس میں عدالتی حکم پر پھانسی دینے کیخلاف مقدمہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں چلایا جارہا ہے، 44سال بعد بھی پاکستان کے سابق وزیر اعظم کو انصاف نہ مل سکا، صرف یہی نہیں بلکہ پہلے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خاں کو گولی مارکر شہید کر دیا گیا اور ان کے خاندان کو انصاف بھی فراہم نہیں ہو سکا۔ ہم ذرا ماضی میں جھانکیں اور تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کو ایسے بے شمار زخم ملے ہیں جن کی مرہم کرنا ابھی باقی ہے۔
16دسمبر 1971ء کو پاکستان کی تاریخ کا المناک سانحہ سقوط ڈھاکہ پیش آیا، پاکستان سیاسی چپقلش ، آئینی بحران اور اداروں کی بالادستی کی جنگ میں دولخت ہوگیا ، مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بن گیا، اداروں کی بالادستی کی جنگ میں پاکستان کا ناقابل تلافی نقصان ہوا، ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں، ہزاروں فوجی قید ہوگئے، پاکستان کے دولخت ہونے کی بنیادی وجہ 1970ء کے انتخابات تھے جس کے نتائج دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت عوامی لیگ جس کے قائد شیخ مجیب الرحمان تھے ان کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 160تھی اور ان کی جماعت نے ایک کروڑ 29لاکھ 37ہزار 162ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان پیپلز پارٹی تھی جس کے قائد ذوالفقار علی بھٹو تھے انہوںنے کل 81نشستیں حاصل کیں اور ان کی جماعت نے مجموعی طور پر 61لاکھ 8ہزار923ووٹ حاصل کیے۔ جماعت اسلامی ملک کی تیسری قوت تھی جس نے صرف 4نشستیں حاصل کیں جبکہ ان کی جماعت نے 19لاکھ 89ہزار 461ووٹ حاصل کیے۔ یوں انتخابی نتائج کے مطابق کوئی گنجائش نہیں تھی کہ عوامی لیگ کو حکومت بنانے سے روکا جاسکے مگر اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کیا کہ حکومت شیخ مجیب الرحمن کی بجائے پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو دی جائے اور وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو منتخب کیا جائے، حکومت بنانے کا عمل تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور ہم معروف نعرہ سنتے آئے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ’ اُدھر تم اِدھر ہم‘ کا نعرہ لگایا تھا جس پر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی، شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے احتجاج شروع کیا اور احتجاجی مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا احتجاج علیحدگی کی تحریک میں تبدیل ہوگیا اور بھارت نے صورتحال سے فائدہ اُٹھایا اور مشرقی پاکستان کے عوام کی دکھتی رگوں پر مرہم رکھنے کے لیے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں اتار دیں اور یوں مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا، سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے الوداعی تقریب میں سانحہ مشرقی پاکستان کو سیاستدانوں کی غلطی قرار دیا، بنگلہ دیش جنہیں ہم اپنی معیشت پر بوجھ سمجھتے تھے آج ہم معاشی طور پر ہم سے کئی گنا مضبوط ہوچکا ہے، ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور مغربی پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بن گئے۔
بطور وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت پاکستان عوام کو سیاسی شعور دینے میں اہم کردار ادا کیا ، اسلامی دنیا کو متحد کرنے اور اسلامی بلاک بنانے کا خواب دیکھا ، اسلامی سربراہی کانفرنس میں امت مسلمہ کی لیڈرشپ کو ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے پر قائل کیا ۔ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے کام کیا، شملہ معاہد ہ کر کے بھارت سے 93ہزار قیدی رہا کروائے اور 13ہزار مربع میل کا رقبہ واگزار کرایا اور بدلے میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرلیا۔ بھٹو دور حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ایٹمی پروگرام کا آغاز کرنا ہے۔1977ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے واضح میدان مار لیا اور 60فیصد نشستیں جیت لیں ان کے مد مقابل پاکستان نیشنل الائنس نے صرف36فیصد نشستیں حاصل کیں مگر اپوزیشن نے پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگا دیا اور احتجاجی تحریک شروع کردی ، احتجاجی تحریک کے نتیجہ میں سیاسی حالات کشیدہ ہونے لگے اور مظاہرے پھوٹ پڑے تو اس احتجاجی تحریک کو دبانے کے لیے ایک بار پھر ذوالفقار علی بھٹو نے ریاستی طاقت کا استعمال کرنا شروع کر دیا ، 5جولائی 1977ء کو انہی کے مقرر کردہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیاء الحق نے منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی اور مارشل لاء نافذ کر کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو قید کر لیا ۔ 1979ء میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک سیاسی مخالف کے قتل کی اجازت دینے پر متنازعہ مقدمہ چلایا اور پھانسی دے دی۔ پیپلز پارٹی اسے عدالتی قتل قرار دیتی رہی، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی تین مرتبہ وفاق میں حکومت بنی مگر وہ انصاف حاصل نہ کر سکے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جو دو مرتبہ سابق وزیراعظم پاکستان رہ چکی تھیں انہیں دن دیہاڑے لیاقت باغ میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں گولی مارکر قتل کر دیا گیا اور اس کے بعد پیپلز پارٹی 5سال تک وفاق میں حکومت کرتی رہی مگر بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو منظر عام پر لاسکی اور نہ ہی اس کیس کا عدالتی ٹرائل مکمل کروا سکی۔ 90کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا تھا اس دور میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کم کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ پر آئی جے آئی بنانے اور سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کرنے کا الزام رہا ، میاں نوازشریف کو آمریت کی پیداوار قرار دیا گیا ۔2008ء میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے صلہ میں ملی بنی تھی مگر پھر جب پیپلز پارٹی نے حصول اقتدار کی سیاست کا آغاز کر دیا اور جن پر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کا الزام لگاتے رہے انہیں کے ساتھ مل کر حکومتیں بناکر اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کی تو پیپلز پارٹی عوامی حمایت سے محروم ہوگئی اور پنجاب میں تو پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک تقریباً ختم ہوکر رہ گیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نوجوان لیڈر ہیں اور جمہوریت کو بہترین انتقام سمجھتے ہیں مگر پی ڈی ایم کی حکومت میں انہوںنے غیر جمہوری طاقتوں کو خود مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ، اللہ کرے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے قاتلوں کو عدالتی کیس کے ذریعے تلاش کر لیں ، پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتل تلاش کر سکیں۔ مگر پاکستان کے عام آدمی کو انصاف دلانے کے لیے نظام انصاف کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔

جواب دیں

Back to top button